عدالت انصاف نہیں کرتی، قانون پر عمل کرتی ہے


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

روایت ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت حضرت علیؓ کی زرہ گم ہو گئی۔ تلاش کرنے پر ایک یہودی کے پاس پائی گئی۔ آپ نے کہا کہ یہ زرہ میری ہے، نہ تو میں نے تمہیں فروخت کی ہے اور نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی کہنے لگا کہ زرہ میری ہے کیونکہ یہ میری ملکیت میں ہے۔

حضرت علیؓ نے قاضی کی عدالت میں دعوی کر دیا۔ چنانچہ دونوں قاضی کی عدالت میں جا پہنچے۔ قاضی نے مقدمے کا حال جاننا چاہا اور مدعی سے اس کا موقف طلب کیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس یہودی کے قبضے میں جو زرہ ہے وہ میری ہے، نہ تو میں نے اسے بیچی ہے اور نہ ہی اسے تحفے میں دی ہے۔

قاضی نے یہودی سے کہا کہ تمہارا کیا کہنا ہے؟ یہودی نے جواب دیا کہ یہ زرہ میری ہے کیونکہ یہ میرے قبضے میں ہے۔

قاضی نے حضرت علیؓ سے ان کے دعوے کے حق میں گواہ طلب کیے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسنؓ اس کے گواہ ہیں کہ یہ زرہ میری ہے۔

قاضی نے کہا کہ قنبرؓ کی شہادت تو قبول کرتا ہوں لیکن حسنؓ کی شہادت قابلِ قبول نہیں۔ حضرت علی نے کہا کہ آپ حسنؓ کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں ! کیا آپ نے رسول اﷲﷺ کا ارشاد نہیں سنا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ قاضی نے جواب دیا کہ ’سنا ہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔ یوں حضرت علیؓ کا دعوی قاضی نے قانونی بنیاد پر مسترد کر دیا۔

ایک طرف وہ حاکم وقت ہے جسے خلیفہ راشد کہا گیا ہے۔ باب علم کہا گیا ہے۔ اس کی راست گوئی اور دیانت ایسی ہے جس پر کوئی شبہ نہیں کرتا۔ رسول پاکؐ کی بعثت سے آپؐ کے وقت آخری تک وہ آپؐ کا ہمدم رہا ہے۔ مرتبہ ایسا ہے کہ رسول پاکؐ کی لاڈلی بیٹی کی شادی اس سے ہوئی ہے۔ اس کے لفظ کو بعد کی نسلیں اتباع کے حکم میں لیتی ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کا وہ قابل اعتماد ترین مشیر رہا ہے جس کی سیادت پر ان کو پورا بھروسہ تھا۔ وہ اسی سلطنت کا حکمران ہے جس نے قاضی شریح کو اس منصب پر فائز کیا ہے۔ گواہ اس کا وہ ہے جسے جنت کے جوانوں کا سردار قرار دیا جا چکا ہے۔ معاملہ چند درہم کی زرہ کا ہے۔ چودہ صدی بعد آج بھی کسی مسلمان سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ زرہ حضرت علیؓ ہی کی ملکیت تھی اور ان کو ملنی چاہیے تھی۔

مگر قاضی بھی کوئی عام شخص نہ تھا۔ عدالت قاضی شریح کی تھی جنہیں تاریخ اسلام کا بلند ترین قاضی مانا جاتا ہے۔ ان کا تقرر بحیثیت کوفہ کے قاضی کے حضرت عمرؓ نے کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو ایک فرمان میں لکھا کہ مقدمات میں اول قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ تو حدیث، اور حدیث نہ ہو تو اجماع کے مطابق اور کہیں پتہ نہ لگے تو خود اجتہاد کرو۔ وہ ساٹھ برس تک اس منصب پر قائم رہے۔ اس قاضی کے علم، دانش اور راست گوئی کا شہرہ آج تک ہے اور عدل و انصاف کی وجہ سے تاریخ اسلام میں اس سے زیادہ شہرت کسی دوسرے قاضی نے نہ پائی۔

\"Blind-Justice\"

قاضی نے یہ نہیں دیکھا کہ دعوی کرنے والا کیسا عظیم شخص ہے، حاکم وقت ہے، اصحاب رسولؓ میں بلند ترین ناموں میں سے ایک ہے۔ قاضی نے کہا کہ فیصلہ قانون پر ہو گا۔ شریعت کا قانون جو کہتا ہے، اس کے مطابق ایک ذمی یہودی پر خلیفہ راشد کا دعوی درست نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقدمے کا فیصلہ خلیفہ راشد کے خلاف اور ذمی کے حق میں ہو جاتا ہے۔

کیا یہ کہا جائے کہ انصاف نہیں ہوا تھا بلکہ شرعی قانون پر عمل ہوا تھا؟ ذرا سوچیے۔

واقعے کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ یہودی یہ حال دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ یہ زرہ حضرت علیؓ ہی کی ہے اور وہ اسلام قبول کرتا ہے۔ روایت ہے کہ حضرت علیؓ اس کے اسلام قبول کرنے سے اتنے خوش ہوئے کہ نہ صرف وہ زرہ، بلکہ ایک گھوڑا بھی اسے انعام میں دیا۔

دیانت دار ترین قاضی کو بھی فیصلہ قانون پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ ان ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو کہ اس کے سامنے پیش کیے گئے ہیں اور جن کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ ثبوت اور گواہ ایسے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کی بنیاد پر حق دار کو حق مل سکے، اور گناہگار کو سزا مل پائے، مگر عدالت کی ذمہ داری قانون پر چلنا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو معاشرے میں اس سے زیادہ ناانصافی ہو گی اور زیادہ فساد پھیلے گا۔ ہزاروں سال کی انسانی دانش کے علاوہ الہامی حکم بھی یہی کہتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments