میرا محسن، میرا مربی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی


1962 کا اوائل تھا۔ گھر میں اردو زبان میں ریڈرز ڈائجسٹ کے رنگ ڈھب کا ایک پرچہ آیا۔ بڑا دلچسپ اور منفرد سا لگا۔ گو میرے فکری شعور میں ابھی وہ پختگی نہیں تھی جہاں میں اداریے کی سیاسی تجزئیاتی تحریر کو پرکھتی تاہم میرے لیے دلچسپی کا خاصا سامان بھی تھا کہ بڑے لکھنے والوں کی کہانیاں، نامور شخصیت کا انٹرویو، شکاریات، جاسوسی کہانی، کسی دوسری دنیا کا سفر نامہ، شعر و ادب، غرض کہ ہر نوع کا ذائقہ موجود تھا۔ الطاف فاطمہ سے محبت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔

ادارتی ٹیم سے تعلق ذرا بعد میں پیدا ہوا۔ الطاف حسن قریشی چونکہ ہر دفعہ کسی بڑی سیاسی یا سماجی شخصیت سے تعارف کرواتے۔ تحریر اور پیش کش کا انداز بھی بڑا منفرد، جذباتی اور وطن کی محبت و سرشاری میں بھیگا ہوا ہوتا۔ ان سے عقیدت اور محبت کا رشتہ ذرا جلدی استوار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی کبھی کبھی کوئی تحریر نظر سے گزرتی۔

میرے اندر مشرقی پاکستان سے محبت، وہاں جانے اور وہاں کے بارے کچھ لکھنے کی خواہش کا محرک اردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی تھے جن کے سلسلہ وار مضامین اردو ڈائجسٹ میں چھپ رہے تھے۔ اس وقت تک میں ایک دو کچے پکے ناول لکھ بیٹھی تھی۔

تاہم اردو ڈائجسٹ میں لکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا تھا۔ شاید یہ میری مرعوبیت تھی ڈھاکہ یونیورسٹی میں میری کلاس فیلو ارمانیہ احمد بھی تھی۔ بہار کی اردو اسپیکنگ جس نے مجھے بتایا کہ وہ اردو ڈائجسٹ میں افسانے لکھتی ہے۔ مجھے آج بھی اپنا تعجب سے بھرا ”ہیں“ کہنا یاد ہے۔ میری آنکھوں میں رشک اور حسد دونوں جذبے بیک وقت ابھرے تھے۔ میری آواز میں حسرت کا سا چھلکاؤ تھا جب میں نے کہا تھا۔ ”اردو ڈائجسٹ میں چھپتی ہو تم۔“ وہ یقیناً بڑی اونچی شے نظر آئی تھی مجھے۔

ڈھاکہ میں میرپور اور محمد پور خالصتاً اردو بولنے والوں کے علاقے تھے۔ سہیلیوں کے گھروں میں جانا ہوتا تو ہر گھر کے چھوٹے بڑے ڈرائینگ روم میں اردو ڈائجسٹ کے پرچے کا ہونا ضروری امر ہوتا۔ پرانے پرچے نفاست اور سلیقے سے بک شیلفوں میں سجے ہوئے ہوتے۔ عید الفطر پر میں نے دھان منڈی کے اس گھر میں جانے کو ترجیح دی جہاں اردو ڈائجسٹ کے پرچے جلدوں کی صورت محفوظ تھے اور مجھے انہیں پڑھنے کی پوری آزادی تھی۔ یہیں میں نے ڈاکٹر اعجاز کو پڑھا۔ ان کے جرمنی میں قیام کی داستان نے بھی بہت متاثر کیا۔ یہ زمانہ اردو ڈائجسٹ کے عروج کا تھا۔

1971 میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ الطاف حسن قریشی کے نوحے جو محبت کا زمزم بہہ رہا ہے کے عنوان سے چھپتے تھے اور میرا درد بھرا ناول تنہا دہائیاں دیتا رہ گیا کہ یاروں کچھ تو سوچو مغربی پاکستان تنہا رہ جائے گا۔ اسے تنہا مت کرو۔ مگر سنے کون؟

یہ 1977 کا زمانہ تھا۔ اخبار میں ایک اشتہار چھپا کہ ہفت روزہ سیاسی پرچہ ”زندگی“ جو اردو ڈائجسٹ کے بینر تلے نکل رہا تھا کے لیے خاتون رپورٹر کی ضرورت ہے۔ اب خود سے کہتی ہوں۔ ”چلو میاں شادی شدہ زندگی کے بہتیرے مزے لوٹ لیے ہیں۔ بچوں کے گو موت میں اماں کے ساتھ مددگار بھی ہے۔ تو باہر نکل۔ اپنا چھ سال کا زنگ اتار۔ سمن آباد بس سٹاپ سے 21 ایکڑ سکیم پہنچنے تک میرے ساتھ ساتھ جذبات کا ایک ہجوم بے کراں بھی چلا کہ میں ایک ایسے مکتب فکر میں داخل ہونے جا رہی تھی جہاں ایک طرف دائیں بازو کے چوٹی کے صحافی پروان چڑھے تھے تو وہیں بائیں بازو کے لوگ بھی ٹھسے سے لکھتے اور نوکریاں کرتے تھے۔ انٹرویو ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے لیا۔ انٹرویو کیا تھا۔ مزے مزے کی باتیں۔ مشرقی پاکستان زیادہ زیر بحث رہا۔

چند دنوں بعد ایک دن کسی نے سرگوشی میں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی دو بیویاں ہیں۔ خاندانی بیگم اوپر کی منزل میں رہتی ہیں اور محبت کی ڈور میں بندھنے والی بیگم کوئی سو گز پرے پچھواڑے کی کوٹھی میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اولاد کے معاملے میں بڑے خوش نصیب ہیں۔ بڑی بھابھی کے ماشاء اللہ سے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں اور چھوٹی بیگم کے چھ بیٹے ہی ہیں۔

”ماشاء اللہ بارہ بیٹے۔ آنکھیں پھٹیں۔ اتنے بیٹے تو بادشاہوں کے ہی ہوتے ہیں“ ۔ تعجب بھرا لہجہ محسوس کرتے ہوئے مخاطب نے کہا، ”بھئی ڈاکٹر صاحب بھی تو بادشاہ ہی ہیں“ ۔

ایک دن بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ ”چلیے بھئی ہم آپ کو اپنی دوسری بیگم سے ملواتے ہیں“ ۔ لیجئیے صاحب گھر پہنچ گئے۔ اب جو چھوٹی بیگم پر نظر پڑی تو فضا میں خوشی سے کلکاریاں سی گونجیں۔ جپھیاں پڑیں کہ وہ تو میری کالج فیلو ہی نہیں انگریزی اور ہسٹری میں کلاس فیلو بھی نکلیں۔ ڈاکٹر صاحب کھڑے ہنس رہے ہیں اور ہماری جپھیاں ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہیں۔

گیارہ بجے ان کا ٹی ٹائم ہوتا۔ وہ اکیلے چائے پینے کے عادی نہ تھے۔ اگر ان سے ملنے والے خصوصی مہمان نہ ہوتے تو پھر حاضری کا بلاوا ہمیں آ جاتا۔ اخلاق احمد دہلوی، محسن فارانی، یزدانی جالندھری، آباد شاہ پوری کے ساتھ میں بھی حاضر ہوجاتی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک مسحور کن مہک آپ کا استقبال کرتی۔ سائڈ ٹیبل پر دھری بڑی سی ٹرے میں نفاست سے سجے کپ، چمچ، بسکٹ اور ٹی کوزی سے ڈھنپی چائے دانی اور کمرے میں گردش کرتی خوشبو مجھے کچھ یاد دلاتی۔

بڑے ماموں یاد آتے۔ ان کا گلگتی نوکر اور چائے کی پیش کش کا یہی ارسٹوکریٹک انداز۔ بڑی بھابھی چائے بنانے کی ماہر۔ ہم تو لطف اٹھانے والوں میں سے تھے۔ سو وہ کپ آب حیات کی طرح پیتے۔ آدھ پون گھنٹہ ان سے گپ شپ کرتے۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ ان کے فکر و عمل پر وہی سوچ غالب تھی۔ کاروان علم فاؤنڈیشن کا قیام اور اس کے لیے ان کی حد درجہ مخلصانہ کاوشیں یقیناً ان کے ایسے ہی احساسات کی ترجمان تھیں۔ کتنے دیے روشن کئیے کوئی حساب نہیں۔ اپنے کارکنوں کے ساتھ حسن سلوک کی تو میں خود گواہ ہوں۔

ملک کے نامور صحافی ہارون الرشید بھی کچھ عرصہ ”زندگی“ سے منسلک رہے۔ ایک بار گھر میں سفیدیاں ہو رہی تھیں۔ بہت دنوں بعد دفتر گئی۔ ہارون صاحب بڑے جز بز سے تھے۔ ”اتنی چھٹیاں“ ۔ پوچھا گیا۔ وجہ بتائی۔ بولے ”تو سفیدیاں کام کرنے سے روکتی ہیں“ ۔ ”جی یہ تو ذرا آج جاکر بیگم سے پوچھئیے“ ۔ اب ڈاکٹر صاحب کے پاس کھڑی بول رہی ہوں۔ ”یہ کس کو آپ نے میرے سر پر لا بٹھایا ہے۔ اب یہ میری تنخواہ کٹوائے گا“ ۔

اور وہ مہربان سا شخص میرے غصے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ”نہیں کٹے گی بھئی نہیں کٹے گی۔ پر تم بھی کسی نظم و ضبط میں تو آؤ۔ اتنے دن سے غائب ہو“ ۔ ”تو کیا؟ کام تو دے کر گئی تھی“ ۔

زندگی کے ساتھ اردو ڈائجسٹ کے لیے اکثر افسانہ لکھنا کسی سماجی یا معاشرتی مسئلے پر سروے کرنا یا کسی خصوصی نوعیت کا کوئی مضمون تحریر کرنے کو بھی اکثر کہہ دیا جاتا جس کی ادائیگی الگ سے ہوتی تھی۔ یہ طے شدہ فارمولے کے تحت فی صفحہ والے حساب کتاب کے کھاتے میں جاتا تھا۔ جو بل بنتا میں اکثر اس سے مطمئن نہ ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچ جاتی۔ غصے سے بولتی۔ مضمون دیکھا ہے آپ نے۔ بل ٹھیک نہیں بنا۔ وہ مسکراتے اور کہتے تو بھئی ٹھیک کروا دیتے ہیں۔ اور بل اکثر میری منشاء کے مطابق بن جاتا۔

یادوں کی گزرگاہ پر ان کی ذات سے وابستہ بہت سے روشن چراغ راستہ دکھاتے ہیں۔ ”تنہا“ مشرقی پاکستان پر لکھے جانے والے ناول کا چھپنا عذاب بن گیا تھا۔ سنگ میل مجھے ان دنوں چھاپتا تھا یکسر انکاری ہوا کہ انہیں جیل نہیں جانا۔ فیروز سنز کو اس پر بہت سے اعتراض تھے وہ کتاب کے حساس حصوں کا یکسر کٹاؤ چاہتا تھا۔ جس کے لیے میں تیار نہ تھی۔ خون جگر سے لکھی ہوئی کتاب کا فضلہ تو قاری کو نہیں پڑھانا تھا مجھے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب سے کتاب چھاپنے کی درخواست کی۔ کتاب چھاپ دی۔ شاندار تعارفی تقریب بھی اپنے خرچ پر فلیٹیز میں منعقد کروا کر خالص ادبی دنیا میں میرا داخلہ کروا دیا کہ میرے ملک کے نامور ادیب ڈاکٹر رشید امجد کا یہ جملہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ”تنہا“ ہی سلمیٰ اعوان کو اردو اب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

یہ تہذیب و شائستگی، شرافت و نجابت، رکھ رکھاؤ والا وضع دار گھرانا ہے۔ جہاں کارکن فیملی ممبرز کی طرح سمجھے جاتے تھے۔ اور آج بھی ہیں۔ پیچھے لوٹ کر دیکھتی ہوں تو راہداری میں گورے چٹے سانولے سلونے پیارے پیارے بچے چھٹی کے وقت گزرتے یاد آتے ہیں جو اس وقت میرے بچوں کی عمروں جتنے ہی تھے۔ طیب، زکی، محسن، علی، کامران آج بھی یادوں میں جھانکتے ہیں۔ اس وقت یہ کاروباری اور طب کی دنیا کے بڑے نام بن چکے ہیں۔ جتنے بڑے ہیں اتنے ہی مودب اور بیبے ہیں۔

نظریاتی طور پر آپ ان سے کتنا بھی اختلاف کریں۔ مارشلاؤں سے تعاون کرنے اور فائدے اٹھانے کا الزام لگائیں۔ مگر یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انہوں نے صحافت کو نیا رنگ، نیا حسن دیا۔ ان کے ہاں فکری طور پر ایک نسل کی تربیت ہوئی جو پاکستانی صحافت کے افق پر چمکتے دن کی طرح طلوع ہوئی اور ابھی بھی چمک دمک رہی ہے۔ صحافتی زندگی کے پھولوں کے ساتھ اس راہ کے کانٹے بھی انہوں نے چنے۔ دونوں بھائیوں نے جیل کی سختیاں بھی جھیلیں۔ مزے کی بات مخالفوں کے ہاتھوں سے بھی اور ان کے ہاتھوں سے بھی جن سے تعاون کا الزام تھا ان پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).