پاکستان: سوشل میڈیا کے نئے قواعد پر ڈیجیٹل کمپنیوں کو تحفظات


پاکستان میں سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد کے نفاذ پر سوشل میڈیا کمپنیوں کی ایشیا میں نمائںدہ تنظیم ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں نئے قواعد کی موجودگی میں کام جاری رکھنا مشکل ہے۔

اے آئی سی انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ ان سمیت دیگر کئی کمپنیوں پر مشتمل ہے اور یہ تنظیم ایشیا میں انٹرنیٹ پالیسیوں پر گہری نظر رکھتی ہے۔

اے آئی سی نے خبردار کیا ہے کہ سخت ڈیٹا لوکلائزیشن سے انٹرنیٹ کے صارف کو مفت اور عام انٹرنیٹ تک رسائی کو نقصان پہنچے گا اور پوری دنیا کے لیے پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کا راستہ بند ہونے کا بھی خدشہ ہے۔

سوشل میڈیا قواعد سے متعلق پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے جمعرات کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق توہینِ مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ اداروں، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا جائے گا۔

پی ٹی اے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر پاکستان میں بلاک کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے نئے قواعد نافذ

اے آئی سی نے جمعرات کو جاری اپنے اعلامیے میں پاکستان میں نئے سوشل میڈیا قواعد کو انٹرنیٹ کمپنیوں کو ہدف بنانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے قواعدگی کی موجودگی میں پاکستان میں خدمات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا قواعد سے متعلق اگر اسٹیک ہولڈرز اور بین الاقومی کمپنیوں کو کوئی تحفظات ہیں یا وہ اس میں ترامیم چاہتے ہیں تو اُن کی وزارت اس پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

اے آئی سی نے پاکستان کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 28 فروری کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر ‘آن لائن ہارم رولز 2020’ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے کنوینئر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین ہوں گے۔

اے آئی سی کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نے کمیٹی کے ذریعے جس مشاورت کا کہا تھا وہ کبھی نہیں ہوئی۔

سوشل میڈیا کے قواعد کیا ہیں؟

نئے قواعد کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں متعلقہ تفتیشی ایجنسی کو کسی بھی طرح کی معلومات یا اعداد و شمار کو ڈی کرپٹڈ کرنے کی پابند ہوں گی، یعنی سوشل میڈیا کمپنیاں کسی بھی قسم کا مواد پڑھنے کے قابل اور قابل فہم شکل میں فراہم کریں گی۔

تفتیشی ایجنسیوں کو فراہم کی جانے والی معلومات میں صارفین کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا، مواد کا ڈیٹا اور دیگر معلومات یا ڈیٹا شامل ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی پابندی کے خلاف ہیں جس سے ترقی کا عمل رکتا ہو۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے سوشل میڈیا قواعد پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی گئی ہے تاہم اگر بین الاقوامی کمپنیوں کو اعتراضات ہیں یا وہ کوئی ترمیم چاہتی ہیں تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔

امین الحق کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر سب سے اہم معاملہ نفرت انگیز مواد کی روک تھام کا تھا۔

خبردار! انٹرنیٹ پر آپ کی نگرانی کی جا رہی ہے

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں مختلف مسالک کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے، ریاستی اداروں کے خلاف بات ہوتی ہے اور فحش مواد پھیلایا جاتا ہے جس پر مقتدر حلقوں اور عدالتوں کو بھی اعتراض تھا۔

اُن کے بقول، “ہم ایسا انٹرنیٹ چاہتے ہیں کہ نفرت انگیزی ختم ہو، ملکی سلامتی کا دفاع ہو اور فحاشی کا خاتمہ ہو۔”

امین الحق کا کہنا تھا کہ ماضی میں یوٹیوب پر کئی برس تک پابندی رہی، پب جی کو بھی بند کیا گیا اور جب ٹک ٹاک پر پابندی لگی تو معلوم ہوا کہ اس کا کوئی نمائندہ پاکستان میں موجود ہی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کا کوئی نمائندہ پاکستان میں ضرور موجود ہو۔

نئے سوشل میڈیا قواعد سے متعلق عائد کی جانے والی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ تمام سوشل میڈیا ادارے رولز کے پابند ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو اعتراض ہے تو ہم بات چیت کریں گے۔

نئے قواعد بنانا قانونی ضرورت تھی: پی ٹی اے

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ترجمان خرم مہران نے سوشل میڈیا کے نئے قواعد کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے رولز انٹرنیٹ صارفین یا سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف نہیں بلکہ ملکی سلامتی اور نفرت کے خاتمے کے لیے ہیں۔

اُن کے بقول نئے قواعد کی خلاف ورزی پر کسی بھی قسم کی کارروائی پاکستانی قوانین کے مطابق ہی ہو گی۔

خرم مہران کا مزید کہنا تھا کہ جن قواعد کو ظالمانہ قرار دیا جا رہا ہے اگر انہیں نافذ نہ کیا جائے تو انٹرنیٹ پر نفرت پھیلانے والے مواد کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ نئے قواعد کی تشکیل کے لیے اے آئی سی سے بھی مشاورت کی گئی ہے لیکن بہت سے معاملات میں سوشل میڈیا کمپنیاں ہم سے بات چیت نہیں کرتیں، لیکن ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa