ٓ ”میثاق پاکستان“ یا اپوزیشن کی خود فریبی؟



سنا ہے اب ایک نئے ”میثاق پاکستا ن“ کی تیاری ہو رہی ہے۔

زندہ قومیں اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے حال کو سنوارتی اور اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، سو وہ آگے بڑھتی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرتی چلی جاتی ہیں۔ ہم ان کے بارے میں کچھ بھی سوچیں اور انہیں کتنا ہی برا سمجھیں، وہ اپنے مقاصد اور مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی طے شدہ راہ پر چلتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہم ماضی کا کبھی کبھارذکر تو کر لیتے ہیں لیکن اس سے سبق سیکھنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔

بڑے بڑے سانحے بھی ہمارے چال چلن میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ کسی قوم کے لئے اس سے بڑا سانحہ کیا ہو گا کہ اس کا ملک وجود میں آنے کے صرف چوبیس سال بعد دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ لیکن ہمارے لئے یہ بھی بس ایک واقعہ تھا جو ہو گیا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ آج تک مکمل شکل میں سامنے نہیں آئی۔ جتنا حصہ سامنے آیا اس میں کچھ ٹھوس سفارشات تھیں۔ کچھ افراد کے کردار کاجائزہ لینے کے بعد سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔ ہم نے نہ کسی کو سزا دی نہ ان سفارشات میں سے کسی پر عمل کیا۔

زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہی جس پر چل رہی تھی۔ اندازہ لگائیے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں مارشل لاؤں کو پاکستان ٹوٹنے کا بڑا سبب قرار دیا گیا تھا اور بڑے واضح لفظوں میں کہاگیا تھا کہ اگر ہمیں سقوط ڈھاکہ جیسے المیوں سے بچنا ہے تو جمہوریت کو اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا۔ فوجی حکمرانی کو خیر باد کہنا ہو گا۔ لیکن ذرا اپنی تاریخ پر نظر ڈالیے۔ اس بہت بڑے المیے اور حمود الرحمن کمیشن کی سفارشات کے بعد بھی بیس سال آمریت کی نذر ہو گئے۔ جمہوریت نے مضبوط کیا ہونا تھا، وہ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے آتی جاتی رہی اور وزرائے اعظم کسی نہ کسی الزام میں سزائیں پاتے رہے۔

اس سب کچھ کا ذکر اس لئے کرنا پڑ رہا ہے کہ اپوزیشن کے سیاسی اتحاد نے ایک نیا ”میثاق پاکستان“ تیار کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ یہ کمیٹی کیا کرے گی؟ مجھے اس کا کچھ اندازہ نہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ ملکی سیاست اور اداروں کے کردار کے حوالے سے کوئی اصول یا ضابطے طے کرے گی۔ اپوزیشن کی جماعتیں اس دستاویز پر دستخط کریں گی اور گاڑی پھر اس پٹڑی پر چل پڑے گی۔ چودہ برس قبل، مئی 2006 میں بھی ایسی ہی ایک دستاویز پر دستخط ہوئے تھے۔

پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس پر دستخط کیے تھے۔ اسے ”چارٹر آف ڈیموکریسی“ یا ”میثاق جمہوریت“ کا نام دیا گیا تھا۔ کچھ ارکان جو ”میثاق پاکستان“ تیار کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں، وہ ”میثاق جمہوریت“ تیار کرنے والی کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ عملاً یہی ہوا کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتیں بھی اس پر پوری طرح کاربند نہ رہ سکیں۔ جس کو جب موقع ملا اس نے اپنا کام نکالنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا اور دوسری جماعت منہ دیکھتی رہ گئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے درمیان معاہدہ تھا جو این۔ آر۔ او کے نام سے مشہور ہوا۔

صحافت اور سیاست کی ایک طالبہ ہونے کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر آزادی کے چہتر ( 74 ) سال بعد بھی ہمیں کسی ”میثاق پاکستان“ کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ قوموں کے نظام سیاست وحکومت کے لئے سب سے بڑا میثاق یا عہد نامہ اس کا آئین ہوتا ہے۔ ہم بڑی مشکلوں کے بعد، آدھا ملک گنوا کر 1973 کے آئین تک پہنچے۔ 1956 کے آئین کو ایوب خان کے مارشل لاء نے نگل لیا۔ خود ایوب خان کے بنائے ہوئے 1962 کے آئین کو دوسرے مارشل لاء نے کھا لیا۔

آدھا ملک اسی کھیل کی نذر ہو گیا۔ بالآخر 1973 میں بچے کھچے پاکستان کے بچے کچھے نمائندوں نے طے کیا کہ اب ہمیں وطن عزیز کو کن اصولوں کے مطابق چلانا ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تین ستونوں پر قائم جمہوری پارلیمانی نظام طے پا گیا۔ تمام ریاستی اداروں کی حدود کا تعین ہو گیا۔ واضح لکیریں کھینچ دی گئیں کہ کس ادارے کا دائرہ کار کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان، عدلیہ کے جج صاحبان، مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں، صدر مملکت، وزیر اعظم اور متعدد دیگر اہم ریاستی اہلکاروں کے حلف نامے اس آئین کا حصہ بن گئے۔ یہ بھی طے پا گیا کہ اگر کوئی فرد، اس آئین کو توڑے گا یا چھیڑ چھاڑ کرے گا تو اسے ”سنگین غداری“ سمجھا جائے گا اور موت کی سزا دی جائے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کون سی بات ہے جس کے لئے ”میثا ق پاکستان“ کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ یا ”میثاق پاکستان“ میں ایسی کس بات کا ذکر ہو گا جس کا حوالہ ”آئین پاکستان“ میں موجود نہیں؟ لگتا یوں ہے کہ لے دے کے یہی کہا جائے گا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تو کیا ہمارے آئین نے یہ مسئلہ حل نہیں کر دیا؟ اس میں ایسا کیا ابہام ہے جس کی وجہ سے سول حکمرانوں اور فوج کے درمیان اختیارات کی تقسیم غیر واضح ہے؟

آئین اگر ”میثاق پاکستان“ نہیں تو اور کون سی دستاویز آئین سے بھی زیادہ قابل احترام ہو گی کہ تمام ادارے خود کو اس کا پابند محسوس کریں گے۔ آئین سے بڑا میثاق یا عہد نامہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ آئین اپنے تحفظ کے لئے خود ایک میکانزم تجویز کرتا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کی سزا کیا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ کوئی جھگڑا کھڑا ہو جائے تو اسے کس طرح حل کرنا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ ریاست کے اداروں کی حدود کیا ہیں اور اگر وہ ان حدود میں نہ رہیں تو انہیں کس طرح قابو میں رکھا جائے۔

”آئین پاکستان“ کی موجودگی میں کسی نئے ”میثاق پاکستان“ کی ہرگز ضرورت نہیں۔ کسی بھی ملک کا آئین ہی، قوم کا سب سے بڑا میثاق اور عہد نامہ ہوتا ہے۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پاکستان کو سبز کتاب سے نکال کر کس طرح اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے؟ کس طرح اس کے الفاظ اور اس کی روح کو اپنے نظام سیاست و حکومت میں سمویا جائے؟ اور اگر اس میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق اس میں ترمیم کر لی جائے۔ نت نئے میثاق لانا اس کا حل نہیں۔ اسے خود فریبی ہی کہنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).