حکومت نے بتایا ہی نہیں


جمہوری ممالک میں ادارے اور عوام مضبوط ہوں تو ملک ترقی کی شاہراہ پر چلتے ہیں۔ ترقی کا پیمانہ ناپنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کے لوگوں کے سیاسی و اخلاقی رویوں کو دیکھا جائے۔ اگر تو عوام کی اخلاقی اقدار مضبوط وتوانا ہیں تواس کا مطلب ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی سیاسی اپروچ اور معاشی حالت بہتر ہے وگرنہ ایسی قوم کو مزید پختگی کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کی اگر بات کی جائے تو افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ہم شروع دن سے ہی سیاسی رویوں میں پختگی پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں، جس کی ایک مثال بی بی مریم کا حالیہ بیان ہے جو کہ انہوں نے اپنی دادی کی وفات پر جاری کیا کہ حکومت کو بتا دینا چاہیے تھا کہ ان کی دادی کی رحلت ہو چکی ہے۔ اس بیان کے بعد میری بات سے آپ ضرور اتفاق کریں گے کہ پاکستانی عوام اور سیاستدانوں کو اخلاقی اور سیاسی رویوں میں بہتری لانے اور پروان چڑھانے کی کس حد تک ضرورت ہے۔

اسے کہتے ہیں کہ ”کھان پین نوں باندری تو کٹ کھان نوں بکریاں“ ۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچا جائے کہ حکومت کس لحاظ سے آپ کو بتاتی کہ آپ کی دادای اس دنیا سے رحلت فرما چکی ہے جبکہ یہ دور میڈیا کا دور ہے، ہر کوئی پوری دنیا کو اپنے موبائل میں سمیٹے ہر وقت رابطہ میں ہوتا ہے۔ اگر دادی بیمار تھیں تو کیا آپ سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے رابطہ میں نہیں تھیں۔ کیا آپ کا سوشل میڈیا سیل صرف سیاست اور سیاسی داؤ پیچ کے لیے ہی ہے۔

کیا اس کا کام صرف لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ چلئے چھوڑیے انہیں بھی، کیا آپ کے پاس موبائل نہیں ہے، کیا آپ کے اردگرد ایک فوج ظفر موج بغیر سیل فون کے ہی جمع رہتی ہے۔ کیا ان سب کے موبائل صرف ملک میں ہونے والے منفی رویوں کو ہی دکھانے کے لئے ہیں۔ ہمہ وقت ٹویٹر اور وٹس ایپ پر مصروف رہنے والوں کے پاس دادی جان کی بیماری اور ان کی فوتیدگی کی کوئی خبر نہیں تھی۔ حکومت کا کام کیا آپ کو خبریں پہنچانا رہ گیا ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ حکومت کی غلطی ہے، اگر حکومت بروقت آپ کو مطلع کر دیتی تو کیا آپ جلسہ چھوڑ کر لاہور واپس آجاتی، کیا میاں صاحب جو کہ کہتے تھے کہ وہ ماں کی اجازت کے بغیر کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے اب کیسے اسی ماں کے جنازہ کوکندھا دیے بغیر زندگی کی سانسیں لیں گے۔

کتنے بدقسمت ہیں یہ لوگ جو اپنی دھرتی ماں اور ماں کے بغیر زندگی غیروں کے دیس میں گزارتے ہیں۔ وہ ماں جس نے جنم دے کر انہیں پال پوس کر بڑا کیا، وہ دھرتی ماں جس نے انہیں دنیا میں ایک پہچان دی اب دونوں کو مشکل میں چھوڑ کر اپنی زندگی بچانے کی فکر میں دیار غیر کے دھکے کھا رہے ہیں۔ اوپر سے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر بائیس کروڑ عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کہ ڈاکٹر انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور تو اور بی بی مریم حکومتی موقف جانے بغیر ہی ٹویٹر کر رہی ہیں کہ بابا ملک میں نہ آنا، یہاں آپ کی جان کے پیاسے بیٹھے ہیں۔

یہ کسی طور آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ یعنی عوام کو مشکل اور ملک کو بے یارومددگار چھوڑ کر خود چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ انہیں کے بقول ملک میں کوئی قاعدہ و قانون نہیں ہے۔ ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ عوام بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہر مشکل وقت میں میاں اینڈ فیملی ملک سے راہ فرار کیوں اختیار کر جاتی ہے۔ کیوں حیلے بہانے اور ایجنسیوں کے استعمال سے ملک اور عوام کو چھوڑ کو ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔

خدا کے لئے لاشوں پر سیاست کرنا چھوڑ دو۔ ملک اور عوام کا سوچیں۔ لیکن جن لوگوں نے ہمیشہ سے اپنا ہی سوچا ہے وہ اب کیسے عوام اور ملک کا سوچ سکتے ہیں۔ یہ تو عوام ہی بے وقوف ہے جو دن رات ایسے لوگوں کا دم بھرتے ہیں۔ وگرنہ یہ اس قابل کہاں کہ انہیں مسند اقتدار پہ بٹھایا جائے۔ یعنی ذرا سوچیں کہ بلاول ہاؤس جانے کے لئے کرونا ٹیسٹ لازم ہے لیکن عوامی جلسوں میں ان لوگوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہاں آنے والے غربا کے لئے پانچ روپے کا ایک ایک ماسک ہی تقسیم کردیں تاکہ ان کی زندگیوں کو محفوظ کیا جا سکے۔

اس طرح سے حکومت کے پاس بھی کوئی جواز نہیں ہو گا کہ حزب مخالف ایس او پیز کا خیال نہیں کر رہی ہے۔ لیکن ایسا تب کریں گے جب انہیں عوام کی صحت کی فکر ہو گی۔ بائی جی جنہیں اپنی دادای کے جنازے کو کندھا دینے کی فکر نہیں انہیں عوام کی کیا فکر ہوگی۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب بی بی کلثوم ملک راہی عدم سنوار گئی تھیں تو انہوں نے کیسے واویلا مچایا تھا کہ جنازہ میں شامل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ اب تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

حسن اور حسین پر کسی قسم کا کوئی قدغن نہیں کہ وہ ملک میں آ کر جنازہ کو کندھا نہیں دے سکتے۔ میاں صاحب کے جنازے میں شریک ہونے پر حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کو کسی نے نہیں منع کیا کہ وہ جنازہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اگر حکومت کی طرف سے ایسا نہیں ہے تو پھر حکومت کی اطلاع دینے کا بھی کیا فائدہ ہوتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت مریم بی بی کو مطلع کر دیتی کہ ان کی دادی رضائے الہی سے وفات پا گئی ہیں تو کیا ان کے بھائی حسن اور حسین دادی کی لاش کے ساتھ ملک آ جاتے۔ کیا میاں صاحب اسی جہاز میں سوار ہو کر والدہ کی میت کو کندھا دینے پہنچ جاتے۔ کیا اسحاق ڈار جنازہ کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کی سیاست ان کی اپنی ذات تک محدود ہے عوامی فلاح کے لئے نہیں۔ خدا ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے کہ ہم بھی ہوش کے ناخن لیں اور ان کے اصلی چہروں کو پہچانیں کہ ماں اور دھرتی ماں کے ساتھ کون مخلص ہیں اور کون ان پر سیاست کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).