سرائیکی زبان کی اہمیت


پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پر بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں

اردو، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، کشمیری، پہاڑی، ہندکو، گوجری، بلتی، شنا، کھوار، گاوٴری، اور بروشسکی پاکستان کی اہم اور قابل ذکر زبانیں ہیں۔ مگر یہ زبانیں ہر علاقے اور تہذیب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ہر زبان کی اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑے ہونے کی وجہ علاقے اور ملک کی ترقی کی بقا 6 کے لیے اہم پیس رفت ہیں۔ میں کچھ دنوں سے زبانیں اور ان کی تاریخ جاننے کے لیے کھوج کر رہا تھا یہ تو ظاہر ہے کہ ہر زبان اپنے علاقے کی نمائندگی کر تی ہے مگر ایک زبان ایسی بھی ہے جس کی اپنی تاریخ اور اس خطے میں الگ پہچان ہے وہ ”سرائیکی“ زبان ہے سرائیکی زبان کو پاکستان کی علاقائی زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر وہ سارے صوبوں میں بولی اور سمجھی جانے والی ایک وقیع زبان ہے یہ لاکھوں کی نہیں کروڑوں کی زبان ہے عربی، فارسی اور پاکستان کی دیگر علاقائی زبانوں سے تعلق کی بنا پر اس پر کئی زبانوں کے اثرات مو جود ہیں۔

سرائیکی زبان کا اردو سے گہرا تعلق ہے۔ اس بنا پر سرائیکی کو ”اردو کی ماں“ کہا جاتا ہے سندھی، سرائیکی زبان کی قریبی ہمسایہ زبان ہے ان دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ تاہم لب ولہجہ ایک ہے مگر رسم الخط مختلف ہے۔ سرائیکی زبان تاہم اس خطے کی اہم اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اگر اس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کا مرکزی مقام ملتان ہے ;اور ملتان وادی سندھ کا مرکز بھی رہا ہے تاہم قیاس ہے کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے اس وادی میں ہڑپہ اور مو ہنجو داڑو جیسے شہر آباد تھے۔ اور ان مہذب شہروں میں بولی جانے والی زبان علمی و ادبی درجہ ضرور رکھتی ہوں گی۔ تاہم اس حوالے سے دلشاد کلانچوی لکھتے ہیں : ”سرائیکی اس وقت سے ہے جب سے یہ وادی وجود میں آئی تھی“

وادی سندھ میں دراوڑ نسل کی تہذیب 4000 سے 3000 ق م نظر آتی ہے۔ پھر آریہ قوم ک آمد کے متعلق نظریات ہیں کہ اس قوم کا اصل مسکن کہاں تھا تاہم یہ قوم دریائے سندھ عبور کر کے ہندوستان کے اکثر حصوں میں پھیل گئی ان کی زبان کا کھوج لگائیں تو اس کے ڈانڈے سرائیکی سے ملتے ہیں۔ سرائیکی زبان فصیع و بلیغ اور پر تاثیر زبان ہے، یہ بہت سے اوصاف و محاسن سے بہرہ ورہے۔ اس میں لطافت، حلاوت، غنائیت، سلاست، جاذبیت اور یسارت اپنی مثال آپ ہے۔

سرائیکی زبان ایک بہت بڑی ادبی ورثے کی مالک ہے۔ سرائیکی زبان کا ادب مالا ما ل ہے ہر صنف ہر نوع پر قدیم اور جدید ادب موجود ہے نظم ہو یا نثر ہر صنف میں قابل قدر کام ہوا ہے۔ اس میں دینی ادب، شاعری، لسانیات، افسانہ، ڈرامہ، خاکہ، انشائیہ، ناول، تحقیق، تاریخ، تنقید، ثقافت، نثری ادب، سیاسی ادب، لوک ادب، فریدیات، شاعری اور صحافت کے حوالے سے بیش بہا خزانہ مو جود ہے۔ سرائیکی میں منظوم سرائیکی تراجم بھی ہوئے۔

شاعری کے حوالے سے عمر خیام کی رباعیات، مرزا غالب کی غزلیں، اور علامہ اقبال کے کلام کے سرائیکی تراجم بھی شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق شاکر، نے بھی قصیدہ بردہ شریف کا سرائیکی ترجمہ کیا ہے بائبیل کے سرائیکی تراجم بھی ہوئے پہلا ترجمہ 1888 میں شائع ہوا اور بائبیل سوسائٹی لاہور نے 1898 میں بھی شائع کیا اس کے علاوہ سرائیکی زبان پر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی کی کتاب ”سرائیکی زبان و ادب، ایک تاریخ، ایک جائزہ“ سرائیکی زبان کی اہمیت اور بقا کیلے شاندار کتاب ہے۔ تاہم آج بھی سرائیکی زبان کی اہمیت کے لیے ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی اور ظہور دھریجہ اس کی ثقافت اور اہمیت اجاگر کرنے کے لیے آج بھی سر گرم ہیں

محمد ندیم، جلال پور پیر والا
Latest posts by محمد ندیم، جلال پور پیر والا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).