کلاسیک کسے کہتے ہیں؟


انسان کی متخیلہ سرگرمی و تخلیقی قوت کے اظہار کا نام آرٹ ہے۔ ادب ہویا مصوری، موسیقی ہو یا سنگ تراشی یہ سارے نام آرٹ سے مربوط ہیں۔ یوں تو کسی بھی فن پارے کی قدر و منزلت سے انکار ممکن نہیں ہے مگر کچھ نمونے ایسی رفعت کے حامل قرار پائے جاتے ہیں کہ انہیں شاہکار کا درجہ نصیب ہو جاتا ہے ۔ یہ لیل و نہار کی گردش اور وقت کی دھول سے ماورا ”کلاسک“ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے ’کلاسکس ”اک لاطینی اسم صفت ہے جس کے معنی قدیم، اعلیٰ درجہ کا اور مستند لیے جاتے ہیں۔ قدیم روم میں امراء و روساء کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

تاریخی پس منظر کے لحاظ سے بات کریں تو دوسری صدی عیسوی میں روم کے ایک نابغہ، انشائیہ نویس اولس جیلئس (Aulas Gellius) نے ادب کی دو اقسام متعین کیں۔

کلاسکس برائے امرا
پرولتارئیس برائے ذیلی طبقہ

اس طرح سے لفظ کلاسیک کا ظہور ہوا یعنی بلند درجہ کی حامل ایک تصنیف جو ہر اعتبار سے کامل ہو۔ یورپ میں نشاط ثانیہ سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک یونانی اور لاطینی ادب کو اعلیٰ درجہ کا نمونہ گردانا گیا۔

اس طرح کلاسیک سے مراد قدیم یونانی و رومی ادبیات عالیہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

بعد میں آنے والے ادوار میں بھی کلاسیک سے مراد ایسی تخلیقی کاوش ہے جو حسن ترتیب کے اعتبار سے انتہائی درجہ کی موزوں و تناسب کے لحاظ سے بعینہ متوازن ہو۔ انسانی زندگی اور اس سے جڑے دو ناگزیر پہلو سچائی اور خوبصورتی کے فنکارانہ اظہار کا نام بھی کلاسکیت ہے۔ یہ امر کسی قسم کے ثبوت کا متقاضی نہیں ہے کہ اس طرح کی تخلیقی کاوش اپنے اندر ایک عالمگیر طلب سموئے رکھتی ہے۔

اسکی توجیہہ یہ ہے کہ محبت، خوبصورتی، سچائی، ظہور ترتیب اور تیقن کی تمازت وہ عناصر ہیں جو جملہ انسانوں کی بنیادی جبلت کی تسکین کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو قبل از مسیح کے بیشتر ایسے فن پارے ہیں جو کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ یونانی دور کا ابتدائی ادب، رزمیہ شاعری پر مشتمل ہومرکی بلند پایہ اوڈیسی ہو، سوفوکلیس اور یورپڈیز کے لازوال المیہ ڈرامے ہوں یا پھر ارسٹوفینز کی ”مینڈک“ ایسی معرکۃ الآرا تصنیف، اسی زمرے میں آتے ہیں۔

سقراط، افلاطون و ارسطو ایسے بے مثال فلاسفروں کی سائنس ادب، اخلاقیات و مابعد الطبیعات پر مشتمل کتابیں ادبیات عالیہ گردانی جاتی ہیں۔ اہل روم کو قدرت نے ورجل، ہورس و اووڈ جیسے درخشاں ستاروں سے منور کیا جن کی جملہ تخلیقی سرگرمیاں بطور نمونہ، کلاسیک کی بہر طور تعریف پر پورا اترتی ہیں اور معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ راتوں کو شمع کی جگہ آنکھوں کا نور جلانے والے آرٹ کے دلدادہ آنے والی نسلوں پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔

دانتے کی فاؤسٹ، ولیم شیکسپئر کا ہملٹ، ملٹن کی جنت گم گشتہ، فلابئیر کا شاہکار مادام بواری، سروانتیز کا ڈان کیخوٹے، جین آسٹن کا پرائڈ اینڈ پریجوڈس، جوناتھن سافٹ کا گلیورز ٹریولز، موپسپاں کا شاہکار افسانہ دی نیکلس ہو، مائیکل اینجلو کا ڈیوڈ، ڈیکارٹ کی فلسفہ کے اصول یا پھر روسی ادیب گوگول کا ڈیڈ سولز جس نے ٹالسٹائی اور دوستوئیفسکی پر عمیق اثر چھوڑا یا چارلس ڈکنز کا عظیم ناول اولیور ٹوسٹ ہو ہر اعتبار سے دنیائے ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔

مغرب کے علاوہ اگر مشرق پر نظر ڈالی جائے تو المعری کی لازوال شاعری، کالی داس کا شاہکار ڈرامہ شکنتلا، مولانا روم کی مثنوی، فرید کے شلوک، سعدی شیرازی کی گلستان و بوستان، امیر خسرو، عمر خیام، سلطان قلی قطب شاہ، ولی دکنی، میر اور غالب کلاسیک کی ہر تعریف پر پورا اترتے ہیں۔

کلاسکیت کو ازل سے ”رومانویت“ کے بالمقابل رکھ کے دونوں مکتبہ ہائے فکر کا بغور جائزہ لینا ناقدین کا دلچسپ موضوع رہا ہے۔

رومانویت کو ہمیشہ کلاسکیت کے تضاد کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ انسانی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج، عقل و منطق پر من و عن اعتماد اور کامل و غیر جانبدار رجحان کلاسکیت کے لئے ہر صورت لازم و ملزوم ہیں۔

جبکہ دوسری طرف احساسات کا غلبہ، خیالات کی پرواز، انسانی جبلتوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا، وجدانی کیفیتوں سے نفوذ پذیر سر گرمیاں، جمالیاتی حس کی تسکین کی خاطر پر اسرار دنیا کی کھوج میں رومانویت کے شارح ہیں۔

بہ قول ”گوئٹے“ کلاسکیت صحت و شفاء کا نام ہے جبکہ رومانویت ذہنی ہیجان کا نام ہے۔
نفسیاتی درجہ بندیوں کے اعتبار سے بھی ”فرائڈ“ کی (Super Ego) کلاسیکیت کے مترادف ہے۔

ازمنہ وسطی کی بعد سائنس کی ترقی نے کسی حد تک پرانے نظریات و اقدار کا بت پاش کیا تو ایک نئی طرز کی آرٹ سامنے آئی جس نے قدیم و متروک پیمانوں سے منہ موڑ کر نئی سمت کو سفر کیا۔

مگر اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط میں یورپ میں ایک تحریک کا آغاز ہوا جسے ”نیو کلاسزم“ کا نام دیا گیا اس کا مقصد قدیم کلاسیکی نظریات و اطوار کو پھر سے زندہ کرنا تھا۔ یعنی ادب، مصوری، فن تعمیر اور فن نقاشی میں اعلیٰ پائے کے رجحانات کا احیا کرنا مقصود تھا۔ مگر اس طرح کی کاوش کو ناقدین نے محض ”سوڈو کلاسزم“ اور نام نہاد ادبیات عالیہ قرار دے کر اس کی مناسب تفریق کر دی۔

ٹی۔ ایس ایلٹ ایک معروف مغربی نقاد نے حد درجہ خوب صورتی کے ساتھ کلاسکیت کا رومانویت سے موازنہ کرتے ہوئے کلاسکیت کی فوقیت کو دوام سے ہمکنار کروایا ہے۔

ان کے بہ قول کلاسیک کامل ہے جبکہ رومانویت ایک وقتی کاوش کا نام ہے۔ ایک کو وقت کی قید و بندش سے رہائی حاصل ہے جبکہ دوسری اس کے ہاتھوں مقید ہے۔ کلاسیک پختگی و حسن ترتیب کا نام جبکہ اس کی حریف نا پختہ و ہیجانی کیفیت ہے۔

کلاسیک کے مفہوم کے اعتبار سے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی چیز کو حد درجہ مقدس قرار دے کر اس پر رائے زنی کرنا روا نہ سمجھیں اور تنقید سے ماورا قرار دیں۔ اصل میں ہر وہ شے جو کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے اس کے اس منصب کے پیش نظر، ناقدین کی سالہا سال کی فکر اور غیر جانبداری کارفرما ہے۔

المختصر اعلیٰ پائے کی تخلیقی کاوش جس کا اثر دیر پا ہو اور ہر زمانہ میں معتبر سمجھی جائے کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ ری پبلک ہو یا پوئیٹکس، ڈیوائن کامیڈی، کنگ لیئر، مڈل مارچ، اینا کیرنینا، کرائم اینڈ پنشمنٹ، ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم، فردوسی کا شاہنامہ، شاہ حسین کی کافی، دیوان غالب یا پھر ویگنر کی مدھر تان ہو۔ لیونارڈو ڈوو نچی کی مصوری ہو یا ہیگل کی فلاسفی دنیائے آرٹ میں کلاسیک کی ہر طرح کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).