پی۔ ڈی۔ ایم اور کرونا وائرس


تاریخ پاکستان کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیشہ انتخابات پر جماعتیں متفق نہیں رہیں۔ ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت نے شفاف انتخاب ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ ہارنے والی جماعتوں نے انتخابات چوری ہونے یا دھاندلی کا الزام لگایا۔ شاید ہارنے والی جماعت فقط اس لیے اس نعرے کو لگاتی ہے تاکہ جماعت کے کارکن اور ووٹر جماعت سے جڑے رہیں اور کوئی جواز رہے۔ 90 کی دہائی کی چھوڑ کر اگر حالیہ دو دہائیوں بات کروں کو 2002 مشرف دور حکومت کو بھی دھاندلی زدہ کہا گیا اور ق لیگ و دیگر حکومتی جماعتوں نے انتخابات کو درست قرار دیا۔

اس وقت مولانا فضل الرحمن و نون لیگ نے مل کر اپنا وزیراعظم لگانا چاہا مگر پاکستان پیپلز پارٹی نے شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم کا امیدوار نافذ کیا۔ اپوزیشن کی تقسیم کی وجہ سے ظفر جمالی صاحب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 2008 کے انتخابات کو بھی اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے تو اس کا بائیکاٹ کیا مگر پیپلز پارٹی نے میدان مارا تو اب اپوزیشن میں ق لیگ نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔ ہم نے دیکھا کہ نون لیگ کیسے پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اور ججز بحالی تحریک میں نکلی۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے مگر کشمیر محاذ پر سردی رہی۔ اس شہباز شریف کے نعرہ کہ ”آصف زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر نا گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں!“ اسی طرح کبھی موصوف فرماتے تھے کہ ”میں علی بابا چالیس چور (زرداری و گروپ) کے پیٹ سے قوم کی پائی پائی نکالوں گا“ ۔ جہاں یہ تماشے لگا کر قوم کو بیوقوف بنایا گیا اور ووٹ لینے کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

2008 کے بعد 2013 کے انتخابات کو تاریخ کا سب سے زیادہ دھاندلی زدہ کہا گیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مگر وفاق میں دھاندلی کا الزام لگاتے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن ایک مرتبہ پھر حکومت کا حصہ بنے ہیں اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کا ووٹ ان انتخابات میں کافی متاثر کن ٹھا اور 32 وفاق کی سیٹیں جبکہ کے۔ پی۔ کے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ جیتنے والی جماعت کے علاوہ تمام جماعتوں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ق لیگ، ایم۔

کیو۔ ایم، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اس ملک میں کبھی ہار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور انتخابی اصلاحات پر موثر قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ الیکٹ ایبل خود کبھی ایسا اصلاحی انتخابی نظام لانا پسند کریں گے جس سے عام لوگ اسمبلی میں حصہ بن سکیں۔ جس سے طلبہ کا نمائندہ طالب علم اسمبلی میں ہو، وکیل کا نمائندہ وکیل، اساتذہ کا نمائندہ استاد، کسان کا نمائندہ کسان، مزدور کا نمائندہ مزدور و دیگر اسمبلی میں ہو۔ اگر میں دھاندلی پر جلسہ، ریلی و لانگ مارچ کی حالیہ رسم کو دیکھوں تو یہ رسم تحریک انصاف نے 2014 میں شروع کی۔ آزادی مارچ میں وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جس قدر دھاندلی اور حکومت کے خاتمہ کی آواز اٹھائی جو اب نئی لہر لے چکا ہے۔

2018 انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور نواز شریف، مریم نواز و کیپٹن (ر) صفدر کو دس اور سات سات سال کی قید کی سزا ہوئی۔ پھر ہم نے دیکھا کیسے نواز شریف علیل ہوئے اور 4 ہفتوں کی دوائی لینے کے لیے لندن گئے اور آج تک واپس نہ آ سکے۔ بہر حال ہم نے پچھلے سال مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد پڑاؤ بھی دیکھا اور مذاکرات سے معاملہ سلجھتا بھی دیکھا۔

اس وقت نون لیگ، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف) ، اے۔ این۔ پی و دیگر جماعتوں کا ایک اتحاد پی۔ ڈی۔ ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آ چکا ہے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن خود کر رہے ہیں۔ اے۔ پی۔ سی کے بعد بنائے گئے پروگرام کے تحت 17 اکتوبر گوجرانوالا جلسہ عام سے تحریک کا آغاز کیا جو بعد ازاں کراچی، کوئٹہ اور اب پشاور پہنچتا ہے۔ نون لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف نے لندن سے خطاب کرتے ہوئے جس طرح ملک کے اہم ادارے کے سربراہ پر دھاندلی و دیگر الزامات لگائے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

نواز شریف نے کوئٹہ جلسہ عام میں بھی اسی روایت کو برقرار رکھا۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جو جنرل ضیاء الحق کے جوتے سیدھے کر کے اوپر آئے اور آج ایک اژدھا کی مانند ہیں۔ اگر انھیں آج کا الطاف حسین کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ قائد محترم خود لندن بیٹھ کر امام خمینی بننا چاہتے ہیں اور عوام کے بچوں کو مروانا چاہتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کی گاڑی کے ٹائر کے نیچے آ کر بچہ دم توڑ گیا اور قائد محترم گاڑی سے باہر بھی نہ آ سکے۔

انہی کے دور حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں 14 لوگوں کو براہ راست گولیاں ماری گئیں اور فیض آباد میں عاشقان رسول ﷺ کو گولیاں ماری گئیں۔ قائد محترم نے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر عالمی سطح پر ایک لفظ نہیں اٹھایا اور انھیں کے دور حکومت میں ڈان لیکس بھی کروائی گئی۔ جنرل کرامت سے لے کر جنرل مشرف تک آرمی چیف سے جناب کو مسائل ہی رہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ و سپریم کورٹ پر حملہ بھی جناب کے رفقا نے کیا۔

بہر حال حالیہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران حکومت سخت پابندیاں لگانا چاہتی ہے مگر پی۔ ڈی۔ ایم اپنے سیاسی ایجنڈا کو آگے لے کر چلنا چاہتی ہے۔ حالیہ فیض آباد دھرنا اور مذاکرات حکومت کے لیے مثبت رہے مگر دوسری جانب مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کے بعد مذہبی طبقہ مزید متحرک ہو چکا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک کے نئے امیر و علامہ صاحب کے بیٹے صاحبزادہ حافظ سعد حسین رضوی زیادہ اگریسو ہیں اور ایگریمنٹ پر عمل درآمد کا فروری تک انتظار کیا جائے گا۔

حکومت وقت کو معاملات کو احسن طریق سے نبٹا لینے چاہئیں تاکہ ملک مثبت رخ چل سکے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کر کہ آن لائن کلاسز کی جائیں گئیں۔ میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق پی۔ ڈی۔ ایم میں اتنا دم نہیں کہ حکومت کو چلتا کرے۔ گلگت بلتستان ناکامی کو چھپانے کے لیے جماعتیں کوشش کریں گئیں مگر پیپلز پارٹی سب سے پہلے پی۔ ڈی۔ ایم سے الگ ہوگی۔ آئندہ چند ہفتے سیاسی و کرونا وائرس کے بڑھاؤ کے ہوسکتے ہیں۔

عوام کو اپنی صحت کا مکمل احتیاط کرنا چاہیے۔ ایک صحت مند خاندان ایک صحت مند معاشرہ کا ضامن ہے۔ پی۔ ڈی۔ ایم کو اپنی تحریک کچھ ماہ کے لیے موخر کرنی چاہیے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مناسب وقت پر مناسب حکمت عملی سے میدان میں اترنا ہی عقلمندی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں مولانا خادم حسین رضوی صاحب کا وصال ہوا اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ مینار پاکستان گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ اگر پچھلے 55 سال کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ جنازہ عددی اعتبار سے انتہائی بڑا ٹھا اور اعداد و شمار کے مطابق مولانا مودودی و ممتاز قادری و دیگر جنازوں سے یہ جنازہ بڑا تھا۔

اسی طرح میاں محمد شریف (مرحوم) کی اہلیہ، نواز و شہباز شریف کی والدہ کا بھی انتقال ہوا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ بخشش کرے۔ آمین اس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کی تجویز سے انتہائی نہ خوش ہیں۔ گزشتہ دنوں آل پاکستان اکیڈمیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رانا محمود انصر سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا تعلیمی ادارے بند ہونے کی صورت میں ہم دھرنا دیں گے۔ حکومت وقت کو ایسی پالیسی بنانی ہوگی جس میں ہر طبقہ بہتر طریق سے روزگار کما سکے اور آگے بڑھ سکے۔ امید ہے کہ پاکستان آئندہ مثبت سمت کی جانب رواں دواں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).