فرانس میں مسلمان اور اسلام موجودہ صورت حال اور مثبت حکمت عملی


مڈل اسکول میں تاریخ کے استاد سمویل پاتی Samuel Paty نے 6 اکتوبر 2020 کو رسول اللہ ﷺ کا کارٹون طلبہ کو دکھایا، 16 اکتوبر کو 18 سالہ چیچن پناہ گزیں طالب علم عبد اللہ انظروف نے موصوف استاذ کو قتل کر دیا، عبد اللہ بھی موقع پر ہی پولیس کی گولیوں کا شکار ہو گیا۔ اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پر 29 اکتوبر کو نیس شہر میں مزید تین فرانسیسی شہری قتل کیے گئے۔ ان واقعات کے بعد فرانس میں بسنے والے مسلمان سماجی و سیاسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ زیر نظر مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ کہیں بھی اور خاص کر فرانس کے اندر ایسے حالات میں مسلمانوں کا رد عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں موضوع بحث سے انصاف اور قاری کے تقریب فہم کے لیے فرانس اور یورپ کی جدید تاریخ پر سرسری نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

فرانس:

فرانس مغربی یورپ میں واقع کم وبیش چھ کروڑ ستر لاکھ نفوس انسانی پر مشتمل ترقی یافتہ سیکولر جمہوری ملک ہے۔ مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے آس پاس ہے، بیشتر شمال افریقی مسلم ممالک اور مشرق وسطی کے مہاجرین ہیں، جنوب ایشیائی ممالک ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے۔ مقامی آبادی سے حلقۂ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ ”آزادی، برابری اور اخوت“ کا نعرہ فرانس میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہے۔

فرانسیسی دستور حکمرانی کی دفعہ نمبر 1 میں ایک لفظ Laicite کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جسے 1905 میں اپنایا گیا جس کے تحت مذہب کو کاروبار ریاست و حکومت سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا۔ اعتدال پسند ریپبلک پارٹی بر سر اقتدار ہے جسے 6 اپریل 2016 کو ایمانویل ماکرون نے قائم کیا تھا اور وہی فرانس کے موجودہ صدر بھی ہیں۔ اس کے بالمقابل شدت پسند مذہبی رجحان رکھنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت National Rally ہے، جس کی موجودہ صدر Jean Marie Lepen نامی ایک خاتون ہیں۔ یہ پارٹی 1972 میں کھڑی کی گئی تھی۔ پورے یورپ میں شدت پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں اور افراد سے اس کے رابطے ہیں۔

یورپ کی حیات نو اور فرانس کا انقلاب

سال 1300 اور 1700 عیسوی کے درمیان کا چار سو سالہ دور یورپ کی جدید تاریخ میں Renaissance ” نشاۃ ثانیہ“ یا ”حیات نو“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب Medieval Period کے ہزار سالہ تاریک دور سے یورپ کی تاریخ روشنی کے عہد میں داخل ہوتی ہے۔ مذکورہ دور استبداد میں ہر تخت شاہی پر ایک خود ساختہ خدا اور ہر کلیسا کی محراب میں ایک خود فرستادہ رسول جلوہ افروز ہوا کرتا تھا جو بزعم خویش بحق خود تفویض شدہ خدائی اختیارات کے تحت اپنے آپ کو نوع بشر کے جان و مال اور عزت و آبرو کا مالک سمجھتے ہوئے کاتب تقدیر بن بیٹھا تھا۔

حکومت اور کلیسا کے اس گٹھ جوڑ میں انسان کی بے توقیری انتہا کو پہنچ چکی تھی، نتیجہ کے طور پر جمہور کی طرف سے حرف انکار بلند ہوا ”Man is the measure of all things“ ”انسان ہی تمام چیزوں کا معیار ہے“ ۔ یعنی کلیسا یا بادشاہ مذہبی لباس میں جس چیز کو صحیح یا غلط قرار دے وہی صحیح یا غلط نہیں ہے بلکہ جو چیز انسان کے لیے فی الواقع مفید ہے وہ درست اور جو غیر مفید ہے وہ نادرست ہے۔ عقلیت پسندی اور انسان دوستی پر مبنی سماجی فلاح و بہبود کے اس نظریہ کا دائرہ پھیلتا گیا اور رفتہ رفتہ ادب، سائنس، سیاست اور فنون لطیفہ میں اسے پیش کیے جانے کا چلن عام ہو گیا۔

اگر چہ یہ تحریک اٹلی کے شہر فلورنس سے شروع ہوئی تھی لیکن فرانس کے شوریدہ سر فلسفیوں، سر بدست تاجروں اور سر فروش دیہاتی کسانوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ 1789 میں انقلاب فرانس کی شروعات سے 1905 تک یعنی ”Laicite لئیستے“ کو سیکولر جمہوری دستور کی اساس قرار دینے تک ایک سے زیادہ تخت گرائے گئے، بہتیرے تاج اچھالے گئے، ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں نے اپنی قیمتی جانوں نے نذرانے پیش کیے اور بالآخر منزل مقصود کو حاصل کر کے دم لیا۔

فرانس سے شروع ہونے والی روشن خیال اور انسانیت نواز سیکولر ازم و جمہوریت کی اس تحریک نے یورپ، امریکہ اور ایشیاء سمیت کم وبیش پوری دنیا کا نظام بدل کر رکھ دیا۔ بعض ممالک نے Capitalism سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اسے نافذ کیا، بعض نے اس میں کچھ لچک پیدا کی اور Socialism سماج کے اجتماعی فلاح کو مقدم رکھا اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سماجی فلاح کے نام پر شخصی ملکیت کی نفی کرتے ہوئے قومی سرمایہ (Comunism) کے نظریہ کو آگے بڑھایا اور اس میں عام شہری کی شراکت کے بہانے پوری قوم کو معزز شہری بنانے کی بجائے مملکت کا غلام بنا دیا، یا سانس لیتی ہوئی چلتی پھرتی مشین کے طور پر اس کا استحصال کیا۔

اسے ایک طرح کا المیہ یا طربیہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسانی عمل میں خیر کے ساتھ شر اور شر کے ساتھ خیر کا پہلو ضرور نکل آتا ہے۔ بہر حال جو بھی ہو، انسان نوازی اور روشن فکری کے اس معرکہ نے دنیا کو سیاسی، سماجی اور معاشی پہلو سے ایک نئی اور بہتر سمت سفر پر رواں کر دیا۔ بلاشبہ انسان کی فکری دریافتوں اور ایجادوں میں زیر بحث جمہوری سیکولر نظام اب تک کی بہترین دریافت ہے۔

جدید فرانس کے معمار

جدید ہندوستان کے معماروں میں راجا رام موہن رائے، سر سید احمد خان، گوکھلے، گاندھی، ٹیگور، امبیڈکر، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ نمایاں ہیں اسی طرح جدید فرانس کے معماروں میں مندرجہ ذیل تین بڑے نام ہیں جنہوں نے اس کی نہایت دلآویز صورت گری کی اور اسے سیکولر ازم اور جہموریت کا بین الاقوامی چیمپین یا قائد اعظم بنا دیا۔

1۔ والٹیر Voltaire۔ 1694۔ 1778

یہ روشن دماغ فرانسیسی قلم کار تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر گہری نظر کے ساتھ مزاح نگاری اور رومن کیتھولک کلیساؤں کے خلاف تنقید نویسی میں یگانۂ روزگار تھا۔ اظہار رائے کی آزادی کا بہت بڑا وکیل اور شخص کی مذہبی آزادی اور دینی معاملات میں ریاست و حکومت کی دخل اندازی کا سخت مخالف تھا۔ مذہب و سیاست کو دو مستقل علیحدہ اکائی قرار دینا اور کسی ایک کو دوسرے پر مسلط نہ کیے جانے کا نظریہ اسی فلسفی کے فکری ریاض کا ثمر ہے۔ اس کی نگارشات 90 جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں۔

2۔ روسو۔ 1778۔ 1712 Jean۔ Jacques Rousseau

یہ سوئٹزر لینڈ کے شہر جینیوا کا باشندہ فلسفی تھا۔ اس کے سیاسی فلسفہ نے پورے یورپ میں عمومی طور پر اور انقلاب فرانس پر خاص طور سے گہرے اثرات مرتب کیے۔ سیاسی معاشیات، بچوں کی لازمی تعلیم، معاشرتی سادگی، مذہبی آزادی، اظہار خیال کی آزادی اور سماجی مساوات اس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ افراد کی آزادی کے تحت اس نے افراد کی نمائندہ حکومت کا نظریہ پیش کیا وہ اس طرح کہ عوام جب اور جیسی چاہیں حکومت بنائیں اور جب چاہیں اپنے نمائندوں کو فارغ کر دیں۔

3۔ مونٹیسکو 1755۔ 1689 Montesquieu

فرانس کا ایک جج جو سیاسیات کا فلسفی بھی تھا۔ اس نے ارباب اقتدار کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا نظریہ پیش کیا۔ قانون سازی کے لیے مقننہ (Parliament) ، قانون کے نفاذ کے لیے انتظامیہ (Executive) اور انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ (Court of Law) کا خاکہ اسی نے پیش کیا اور اس کی تشریح و تشہیر کی۔

ان تفصیلات کے بعد دیکھنا چاہیے کہ فرانس میں مسلمان کب آئے اور ابھی کتنے ہیں اور کس حال میں ہیں۔

فرانس میں مسلمان:

انیسویں اور بیسویں صدی میں فرانس برطانیہ کے بعد دوسری بڑی عالمی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ شمال افریقی ممالک مراکش، تیونس، الجزائر، سینیگال اور مشرق وسطی میں لبنان اس کے مفتوحہ ممالک تھے۔ کم وبیش تین سال اس نے مصر کو بھی غلام بنائے رکھا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی فرانس کے زیر قبضہ ممالک سے مسلمان فرانس منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن خاص طر پر 1950 کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں نے فرانس کی طرف ہجرت کی۔

1962 میں الجزائر کو آزادی ملی۔ وہاں کے جن باشندوں نے مجاہدین آزادی کے خلاف فرانسیسی فوج کا ساتھ دیا تھا آزادی کے بعد انہیں فرانس میں پناہ دی گئی، ان کی تعداد تقریباً 90 ہزار تھی۔ فرانس کی معاشی و صنعتی ترقی بھی بعد کے سالوں میں ہنر مند مسلمانوں کی ہجرت کا سبب بنی اور جنگ زدہ مسلم ممالک کے باشندے پناہ اور امن کی تلاش میں بھی منتقل ہوتے رہے، جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں کم وبیش پینتیس لاکھ عرب افریقی مسلم مہاجر اور ان کی اولاد ہیں۔

فرانس میں لگ بھگ ڈھائی ہزار مساجد ہیں جن میں سے دو سو کے قریب دار الحکومت پیرس میں ہیں۔ فرانسیسی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ”مسلم کونسل آف فرانس“ ہے جو 2003 میں قائم کی گئی تھی۔ یورپی ممالک میں فرانس مسلم آبادی کے لحاظ سے سر فہرست ہے۔

فرانس مسلمانوں کے حق میں سب سے بہتر یورپین ملک ہے، بلکہ آزادی کے لحاظ سے بہت سے مسلم ممالک سے بھی بہتر ہے۔ مذہبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ بود و باش اور اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے وہاں کے سازگار ماحول کی شہادت کے طور پر ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات کافی سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے پناہ گزین کی حیثیت سے عمر عزیز کے قریب پچاس سال وہاں عزت کے ساتھ گزارے۔ وہاں کی شہریت نہیں لی اور بلا روک ٹوک تحقیق و تصنیف اور دعوت و تبلیغ میں لگے رہے، ہزاروں لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے، فرانسیسی زبان میں قرآن کی تفسیر لکھی، سترہ کتابیں تصنیف کیں، چھیاسٹھ مقالات لکھے، فرانس کو اپنا اسٹیشن بنا کر پورے یورپ میں اسلام پھیلایا، بیس سال تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق میں ملازمت کی۔

اتنا سب کچھ کیا جبکہ وہ فرانس کے شہری بھی نہیں تھے، سچ یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے شہری نہیں تھے۔ بلاشبہ خدائی تائید کے بعد اس ملک کے انسانیت پر مبنی روشن خیال دستور اور عقلیت پسند معاشرے کی مدد کے بغیر یہ سب ممکن نہ ہوتا۔ عبرت کا مقام ہے کہ حالیہ واقعہ میں جس طالب علم نے استاذ کو قتل کیا وہ بھی ایک چیچن مہاجر کا لڑکا تھا جو روس کے ساتھ جنگ کے نتیجہ میں در بدر ہو کر فرانس میں پناہ گزین ہوا تھا۔

ایسے سیکولر جمہوری ملک میں جس کا سرکاری نعرہ ”آزادی، اخوت اور مساوات“ ہے، مسلمانوں کی بے چینی کے اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہو سکتا ہے، اسے سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہیے۔

چارلی ہیبدو۔ Charlie Hebdo

یہ بائیں بازو (کمیونسٹوں ) کا سیاسی ہفتہ وار رسالہ ہے جسے برلن، جرمنی کے کسی شہری نے 1970 میں جاری کیا تھا۔ 1981 تک جاری رہنے کے بعد کسی وجہ سے اس کی اشاعت بند ہو گئی۔ 1992 سے پھر اسے شائع کیا جانے لگا اور مسلسل شائع ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس کا دفتر پیرس میں ہے۔ یہ رسالہ عیسائیوں کا نہیں ہے، یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہیے۔ کوئی خاص مذہب یا گروہ اس کے نشانے پر نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنے افکار کے علاوہ کسی غیر کے ساتھ اسے ہمدردی ہے۔ فرانس کے دستور میں اظہار رائے کی جس آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اس کا اسے تحفظ حاصل ہے لہذا وہ کسی کے خلاف لکھنے بولنے اور کارٹون شائع کرنے سے دریغ نہیں کرتا، حتی کہ عیسائیوں کے خلاف بھی۔ اور اسی آزادی کے طفیل مسلمان یا دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے مذہب کی تشہیر و تبلیغ کرتے ہیں۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے یقیناً ہمارے لیے بڑا تکلیف دہ لمحہ ہوتا ہے جب کوئی ہمارے پیغمبر کی تضحیک کرتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے کیوں کہ ہم انہیں سچا رسول اور اچھا انسان سمجھتے ہیں، ہمارے نزدیک انہیں خدائی عصمت اور تقدس حاصل ہے۔ لیکن یہ باتیں چارلی ہیبڈو اور اس کے ہمدردوں کے نزدیک بے معنی ہیں۔ وہ ہماری تاریخ کو انسانی تاریخ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور ہمارے نبی کو تاریخ ساز قائد سمجھتے ہوئے ان پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ عصمت و قداست کے مفہوم سے محروم ہیں۔

پس چہ باید کرد!

اس قسم کے نازک حالات میں مسلمانوں کا رویہ یہ ہونا چاہیے ”ہم اور تم“ یا ”ہمارے اور تمہارے“ کے بیانیے Narrative سے اوپر اٹھ کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ محمد صرف مسلمانوں کے نبی نہیں ہیں، سب کے ہیں، وہ سب کے لیے رحمت ہیں۔ ”ہمارے اور تمہارے“ کا بیانیہ غیریت اور بے گانہ پن کو ظاہر کرتا ہے، جس سے دوری اور بڑھتی ہے، نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اسے فوراً بند کیا جانا چاہیے۔ وہ اگر ایک کارٹون چھاپتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ مقامی زبان میں دس مضامین شائع کریں۔

حملہ جس سطح پر کیا جائے جواب اسی سطح پر نہایت حکمت و بصیرت کے ساتھ خوبصورت انداز میں قرآنی تعلیمات کے مطابق ”احسن“ طریقہ سے دیا جانا چاہیے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی مبارک حیات میں بھی ان کی توہین کی گئی، انہیں جھوٹا اور جادوگر وغیرہ کہا گیا لیکن رسول یا اصحاب رسول نے ایسا کہنے والوں کی گردن تو نہیں کاٹی! مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو صرف ”اپنا“ سمجھ کر اور دنیا کو ایسا سمجھا کر نبی کے قد کو چھوٹا کر دیا ہے، اور محبت رسول کے نام پر قتل کی واردات کو انجام دے کر عملاً نبی کی ذات کو داغدار کر کے نبی کی اہانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔

کوئی ملک قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی یہ مسئلہ کا حل ہے، بلکہ اس سے مزید مسائل و مشکلات میں اضافہ ہوگا، آپ سماجی و سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔ قتل و خون، ریلیاں، جلسے، مظاہرے، جلاؤ اور گھیراؤ سے اگر مسلمان اپنے مسائل حل کرانا چاہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مخالفین کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے وہ بھی اسی راستے سے چل کر بڑے مسائل پیدا کر دیں گے۔ مسلمان جتنا کر سکتے ہیں، خدا کی طرف سے اس سے زیادہ کے مکلف بھی تو نہیں ہیں!

شاہ بانو کیس میں ہندوستانی مسلمانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کے لیے راجیو گاندھی کو مجبور کر دیا، مسلمان اپنی وقتی جیت پر خوشی سے بغلیں بجا ہی رہے تھے کہ موصوف نے اکثریت کے دباؤ میں آ کر یا ان کو خوش کرنے کے لیے بابری مسجد کا تالہ کھول دیا اور پوجا کی اجازت دے دی۔ وہ ایسا کاری زخم تھا جسے ہندوستانی مسلمان آج تک چاٹ رہے ہیں۔ دائیں بازو کے شدت پسندوں کی کوششوں کو پر لگ گئے، ہر آنے والے دن کے ساتھ وہ مضبوط ہوتے چلے گئے اور مسلمانوں کا بھرم جاتا رہا، صورت حال یہاں تک پہنچی کہ جب مسجد کی جگہ مندر بنانے کا فیصلہ سپریم کورٹ سے آیا تو مسلمان حرف شکایت زبان پر لانے کی جرات نہیں کر سکے۔

فرانس کے مسلمانوں کے لیے اس میں سبق ہے کہ وہ لبرل صدر حکومت ایمانویل میکرون کو ایسی بند گلی میں نہ پہنچائیں جہاں سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ ہو، اور کسی غلط فیصلہ کے نتیجہ میں شدت پسند جماعت National Rally اقتدار حاصل کر لے۔ ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ فرانس کے مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت مہاجرین پر مشتمل ہے انہیں یوگنڈا کے صدر ایدی امین کو نہیں بھولنا چاہیے جب اس نے تمام مہاجرین کو خالی ہاتھ صرف اپنے کپڑوں کے ساتھ ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، دکان مکان کو کون پوچھتا ہے خواتین کو اپنے زیورات بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکی، یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ ہزاروں متاثرین آج بھی زندہ ہیں۔

بے شک فرانس بہت مہذب ملک ہے، وہاں ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن اس سے کم درجے کا ضرر پہنچے اس کا انکار کون کر سکتا ہے! ہر حال میں Laicite کو بر قرار رکھنے والی سیاسی جماعت کو مضبوطی دینا چاہیے اس سے فرانس بھی مستحکم رہے گا اور مسلمان بھی پھلتے پھولتے رہیں گے۔ National Rally خدا نخواستہ اقتدار میں آتی ہے تو حالات مسلمانوں کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔

اس ضمن میں پہلی اہم بات یہ ہے کہ مسلمان کمزور اور بے بس ہیں تو کیا ہوا، خدا قادر و قیوم ہے، لہذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر رسول اللہ ﷺ کے دادا محترم حضرت عبدالمطلب کو یاد کرنا چاہیے جب انہوں نے ابرہہ کی فوج کے سامنے بے بسی کے عالم میں کہا تھا اونٹ ہمارے ہیں ہمیں واپس دے دو، کعبہ خدا کا گھر ہے وہ اس کی حفاظت کر لے گا۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کی حوصلہ افزائی کبھی کسی صورت نہیں کی جانی چاہیے، ان سے اجتماعی طور پر بے زاری اور لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کھلے دل سے ان کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).