لبرل یا لوزر؟


ہم نیم خواندہ دانشوروں کے قلم سے “لبرل” کا طعنہ پڑھ کے ایک بلند آہنگ قہقہہ لگاتے ہوئے پوچھتے ہیں،
“اگر ہم لبرل ہیں تو آپ کیا ہیں؟ لوزر؟”
پچھلے ڈیڑھ برس میں یہ لقب ( لنڈے کی لبرل آنٹی) بہت دفعہ ہمیں عطا ہوا اور ہر دفعہ اس نے ہمارے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیری۔ ہمیں ہر دفعہ یوں لگا کہ جیسے ہم جانے انجانے میں کچھ لوگوں کی دم پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں نے ڈارون کا نظریہ ارتقا پڑھتے ہوئے یہ تو جان لیا ہو گا کہ دو پائے کی دم کا آخری بے کار مہرہ اب بھی کہیں درز عمود کے شمال میں اٹکا ہے۔
لیجیے صاحب! ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم وہ لبرل ہیں جو پدرسری نظام کی کچلی ہوئی مسخ شدہ عورت کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ آپ کے لئے شاید یہ بڑی بات نہ ہو کہ عورت معاشرے میں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہے۔ سو ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اس ذہنیت کے ساتھ آپ وہ لوزر ہیں جو پدرسری نظام کا دفاع کرتے ہوئے ان عورتوں کی طرف سے منہ پھیر کے کچھ بھاشن دیتے ہوئے اپنی راہ لیتے ہیں جن کے لئے آپ نے شاعری میں ہڑکتی ہوئی خواہشوں کے پشتارے رقم کئے ہیں، ایلورا اور اجنتا کی چٹانوں میں برسوں کی مشقت سے سرکش اٹھانیں اور مدور ڈھلانیں تراشی ہیں، ایک مفتوحہ کی سانس لیتی نعش پر اپنی انا کا نیزہ گاڑ کر اگلی چوٹی کی کوہ پیمائی کے ارادے باندھے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا نیم خواندہ طبقہ طاقت پہ مبنی اس نظام کی پیچیدگیاں سمجھنے سے قاصر ہے۔ لیکن ہمیں ہنسی آتی ہے ان دانشوروں پہ جو روس کی عورت کی مثال دے کر کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیے جناب روسی عورت خود اپنے آپ کو ناقص العقل اور نا قص الرائے سمجھتی ہے سو پاکستانی عورت کو کچھ تو عقل کے ناخن لینے چاہیں۔ مجھے اس روسی عورت پہ ترس آیا جس کا ڈائیلاگ جناب مجاہد مرزا نے اپنے کالم میں تحریر کیا۔ روسی عورت کے اس فقرے کے پیچھے صدیوں کی تلخی، استحصال اور حقوق کی جنگ چھپی ہے۔ اور مجھے یہ جان کر مزید افسوس ہوا کہ مجاہد مرزا اپنے سیاسی آدرش کی آرزو میں روس پہنچے بھی تو نکولائی گوگول کے تارس بلبا کی صف تک کیا پہنچتے، دوستوئیفسکی کا پرنس مشی کن بھی نہ بن پائے۔ پاسٹرناک کا کیمراوسکی بننا چاہا۔ اسے ہاتھ پر گولی لگی تھی، ہمارے مرزا صاحب کی بدھی پر چوٹ لگی۔ سراج اورنگ آبادی نے عشق کی جست بیان کرتے ہوئے لکھا، “کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی”۔ ہمارے مرزا صاحب کی افتاد تو افتخار عارف نے بیان کی ، “کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی…”
مجاہد مرزا صاحب کیوں بھولتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں روسی دانشور “وومن کوئسچن” نامی بحث سے یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ عورت معاشرے میں جس کردار میں مصلوب کی گئی ہے اس کا کیا حل نکالا جائے؟
وومن کوئسچن نامی یہ مباحثہ پندرہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک یورپ میں چلا جس میں عورت کی صلاحیت، ذہانت، اور حقوق پہ بات کی گئی۔ عورت کے تعلیم حاصل کرنے، لکھنے اور معاشرے میں مرد کے شانہ بہ شانہ فعال کردار ادا کرنے پہ خوب تنقید ہوئی۔ کچھ نے کہا کہ عورت سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتی، کچھ نے کہا ذہانت کی کمی کی وجہ سیکھنے کی صلاحیت موجود نہیں سو مرد سے کیا مقابلہ؟
ادبی مشاہیر نے وومن کوئسچن نامی مباحثے میں A Doll’s house, Middle March, Anna Karenina اور Madam Bovary لکھ کر حصہ ڈالا۔ یہ معما شاید کبھی کھولا جا سکے کہ یورپ کے برعکس زار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے روس میں عورت کے حقوق کی جدوجہد انسانی حقوق میں کیوں شامل نہ ہو سکی۔ انقلابی روس مین الیگزاندرا کولنتائی Alexandra Kollontai سے کچھ امید بندھی تھی، اسے ابتدائی برسوں ہی میں غیر موثر کر دیا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ رہی کہ فیمنزم کی تحریک بورژوائی خواتین کی جدوجہد سمجھی گئی اور مارکسی انقلابیوں نے عورت کو ذہنی طور پہ پسماندہ سمجھ کے فیصلہ کیا کہ عورت کو سیاسی فیصلہ سازی میں برابر کا کردار نہیں دیا جا سکتا۔
لینن وہ لیڈر تھا جس نے ویمن کوئسچن نامی تحریک سے متاثر ہو کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک عورت بنیادی معاشرتی دھارے سے دور گھریلو ماحول میں مقید رہے گی، معاشرے کی ترویج وترقی میں کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اس کے نتیجے میں بالشویک پارٹی نے فیمنزم کو زندہ کیا اور انیس سو اٹھارہ میں خواتین کو طلاق اور ابارشن کا حق ملا، مساوی کام اور تنخواہ کا قانون بھی تبھی تشکیل دیا گیا۔
لیکن سٹالن کی آمریت نے جلد ہی خواتین کے حقوق کے پرخچے اڑا دیے۔ پدرسری نظام کو عورت کے لئے بہترین جانا گیا جہاں فیصلہ کرنے کی طاقت، طاقتور کے پاس ہوتی ہے۔ پھر وجاہت مسعود کیا غلط کہتا ہے کہ آمریت اور پدرسری نظام میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ الگ المیہ ہے کہ آمریت ہو یا پدرسری استبداد، عورت ہی کی چولی پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے، عورت ہی کا دامن داغدار ٹھہرتا ہے۔ مرد تو ادھیڑ عمری کا احرام باندھ کے حرم شریف کی راہ لیتے ہیں۔
مجاہد مرزا صاحب کیا آپ واقعی نہیں سمجھے کہ اس ٹی وی پروگرام میں اس عورت نے یہ کیوں کہا؟
“فیصلے مرد کو ہی کرنے چاہئیں اور تم میرے حقیقی مرد ہو“
صدیوں سے زار کی شہنشاہیت، سٹالن کی آمریت اور عقل کل سمجھنے والے حالیہ حکمرانوں کا استبداد سہنے والی اور بھلا کیا کہہ سکتی ہے؟ اس کی عقل و دانش بچپن سے کمتری کا خود پہنا کے سلب کی جا چکی، وہ غریب جسے حقیقی مرد سمجھ رہیہے، اس کے ماضی میں ان کہی داستانیں ہیں اور مستقبل کے ارادے نم آلود ہیں۔ “حقیقی مرد” کی اصطلاح بذات خود خوش فہمی کی چغلی کھاتی ہے۔ یہ داستانوی کردار تو چرچ کے چوہے اور مسہری کے کھٹمل سے مشابہ ہے۔ مرد حقیقی یا جعلی نہیں، عورت کا رفیق ہوتا ہے جسے مساوات پر مبنی محبت کا شہپر نصیب ہو تو افلاک کی خبر لا سکتا ہے۔ اور اگر رگ پٹھے کی اٹھان میں الجھ گیا تو سلوتری خانے کا جنور۔
آپ نے کچھ اشارہ مغرب میں فیمنزم تحریک کے دم توڑنے کے متعلق بھی دیا۔ معلوم ہوتا ہے آپ اکیسویں صدی میں پبلش ہوئی کتابوں سے کم شغف رکھتے ہیں۔ چلیے آپ کو پچھلے دو برسوں میں چھپنے والی صرف تین کتابوں کا نام بتائے دیتے ہیں۔ فرصت ملی تو پڑھ لیجیے گا کہ آج کی فیمنسٹس عورت کو غبی، بے وقوف، کمتر، اور دوسرے درجے کی مخلوق سمجھنے کے متعلق کیسے جنگ لڑ رہی ہیں۔
DOWN GIRL- the logic of misogyny by Kate manne-2018
Good and Mad – The revolutionary power of women’s anger by Rebecca Traister-2018
Entitled: how male privileges hurt women by Kate manne- 2020
آپ نے روس کی تمہید باندھی پاکستان کی صورت حال بیان کرنے کے لئے جہاں ہم جیسے لبرل شاید فیشن کے طور پہ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمیں اکثریتی آبادی کی آواز بننے پہ فخر ہے جو پدرسری نظام کا شکار ہو کے اپنی ذات کے فیصلوں کے لئے مرد کی چشم ابرو کی منتظر رہتی ہے۔ جسے گود سے لے کر گور تک کمتر، محتاج، کم ذہین تو سمجھا ہی جاتا ہے، اسے تعلیم ملازمت، شادی اور وراثت کے حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ گھر کے آنگن میں کھیلتی ننھی بچی کو یہ سبق ازبر کروا دیا جاتا ہے کہ کیسے اس کی زندگی پہ اس کا اپنا نہیں بلکہ گھر کے مردوں کو بائی ڈیفالٹ حق عطا کیا گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر معاشرے کا بااختیار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی بیوی، بیٹی اور بہن معاملات زندگی میں اس کی سند پسندیدگی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تو وہ ایک مسوجنی رویہ رکھنے والا لوزر ہے۔
ارے لو اصل بات تو کہیں پیچھے رہ گئی، ہم مجاہد مرزا سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ وہ اس صنفی امتیاز کے حامی ہیں یا مخالف ؟ دوسرے لفظوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں یا لکیر کے دوسری طرف؟ اس معروف جملے میں گورکی نے masters of culture سے سوال کیا تھا۔ اور ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ ہم ماسٹر نہیں، پارٹنر والے لوگ ہیں۔ لبرل ہوئے نا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).