کسی نے غداری کے فتوے دیے نہ ”ادارے“ میں غم و غصہ پایا گیا


جمعرات کو ترکی کی عدالت نے 15 جولائی 2016 میں برپا کی جانے والی بغاوت کے جرم کی پاداش میں 475 باغیوں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس مقدمے کا آغاز یکم اگست 2017 کو ہوا تھا۔ سزا پانے والوں میں کئی جنرلز، دوسرے فوجی افسران، پارلیمنٹ کے اراکین، معروف صحافی اور معزز شہری شامل ہیں۔ 15 جولائی 2016 کو فوج کے ایک حصے نے بغاوت کردی۔ پارلیمنٹ کے ایک حصے کو ساتھ ملایا۔ نامور صحافیوں، میڈیا اور مختلف طبقات کے طاقتور گروہوں کی مدد سے رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس ناکام مہم جوئی کے نتیجے میں اس رات ڈھائی سو شہری ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس بغاوت کی منصوبہ سازی اور ساز باز کا الزام ترکی کی معروف مذہبی شخصیت فتح اللہ گولن پر عائد کیا گیا جو امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ رجب طیب اردوغان نے واضح طور پر امریکہ پر بھی الزام لگایا کہ اسی نے اس بغاوت کی سرپرستی کی۔

اردوغان کی حامی فوج، میڈیا، اراکین پارلیمنٹ اور خاص طور پر عوام کی بڑی تعداد نے فوج کی اس بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ اس رات لوگ نہتے اور خالی ہاتھ تھے مگر ان کے دلوں میں وطن کی ترنگ، جمہوریت سے وابستگی کی امنگ اور آمریت کے خلاف جنگ کا عزم پختہ تھا۔ صدر طیب اردوغان نے بغاوت کے ایک سال بعد تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اس رات لوگوں کے پاس بندوقیں نہیں پرچم تھے“ بپھرے ہوئے عوام جب پرچم جاں لے کر مقتل مقتل نکل کھڑے ہوئے تو ”جلاد“ پر ہیبت طاری ہو گئی تھی۔ اردوغان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس بغاوت کے منصوبہ سازوں اور باغیوں کے سر پھوڑ دیں گے۔

اس بغاوت کے بعد حکومت نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین کو فارغ کر دیا تھا۔ باغی جنرلوں، فوجیوں، صحافیوں کو پابند سلاسل کر دیا تھا۔ ترکی حکومت نے 15 جولائی کو سالانہ قومی تعطیل کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ استنبول کے مشہور فاسفورس پل پر ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ میں اس قوم کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اس ملک کی حفاظت کی۔

فوج کی اعلٰی قیادت سمیت پانچ سو کے قریب شہریوں کو مسلح بغاوت کے جرم میں اس ملک میں عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں، جس کی بنیادوں میں فوجی جوانوں کا لہو ہے۔ یہی نہیں بلکہ ترکی میں مسلح افواج روایتی طور پر ایک مضبوط سیاسی قوت ہیں۔ جدید ترکی کا بانی اتاترک جمہوریت، آئین اور ملکی سلامتی کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ ترکی آئین کی رو سے ملکی سلامتی اور تحفظ قانوناً مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ یہ فوج قومی سلامتی مجلس کے ذریعے باقاعدہ سیاسی اور آئینی کردار ادا کرتی ہے۔ طیب اردوغان نے اپنی اس مسلح فوج کی اعلٰی قیادت کو بغاوت کے جرم میں عمر قید کی سزا دی جس نے 1980، 1960 اور 1997 میں تین مرتبہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ 1960 میں اسی فوج نے وزیراعظم عدنان میندریس کو معزول کر کے بغاوت کے جرم میں پھانسی دی تھی اور نجم الدین اربکان پر پابندی لگوائی تھی کہ وہ تا حیات سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔

اتنی مضبوط اور آئینی و سیاسی کردار کی حامل اعلٰی عسکری قیادت کو عمر قید کی سزا دینے کے موقعے پر ترکی میں کسی نے اس اقدام کو ملکی سلامتی اور قومی وقار کے منافی قرار نہیں دیا۔ کسی نے اس فیصلے کو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ نہیں کہا۔ کسی نے اسے ملک دشمنی اور غداری سے تعبیر نہیں کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فوج کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ کسی نے اس فیصلے کے بعد یہ نہیں کہا کہ یہ اس فوج کے خلاف گھناوٴنا پروپیگنڈا ہے جس کی قربانیوں کے طفیل ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں۔ ادارے کے ترجمان شیریں بیان نے بھی یہ عذر نہیں تراشا کہ عدلیہ کے اس فیصلے سے ادارے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ادھر ہمارا حال ملاحظہ فرمائیں کہ جب ایک نڈر، بے خوف اور دبنگ عدالت نے آرٹیکل 6 کے مجرم کو سزائے موت کی سزا سنائی تو کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اس عدالت کو ہی ختم کروا دیا گیا۔ ذرا حساب کر کے بتائیں کہ ہمارے ملک کو ترکی جیسا بننے میں کتنے عشرے لگ جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).