کراچی کی یتیمی اور سرکلر ریلوے کی بحالی



بحر عرب کے کنارے پہ واقع کراچی جس کو شہر قائد بھی کہا جاتا ہے، یہ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، پر دنیا کا ساتواں نمبر بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے حساب سے کراچی کروڑں لوگوں کی رہائشگاہ، اور پاکستان بھر کے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش بنا ہوئا ہے۔ کراچی ایک بڑا تجارتی مرکز ہے، جہاں پہ تمام صنعتوں کے کارخانے موجود ہیں۔ کراچی کو پاکستانی کا معاشی حب بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی وہ شہر ہے، جہاں سے پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد منظور ہوئی تھی۔

سارے ملک کو پالنے والا کراچی، جہاں سے تمام سیاسی جماعتیں جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتیں ہیں، ان کے پاس کراچی کی ترقی کے کیے کوئی خاص منصوبہ ہی نہیں ہے، اگر ہے بھی تو صرف کاغذوں کی سیاہی تک محدود ہے۔ جس شہر کو کس وقت میں روشنیوں کے شہر کا اعزاز ملا تھا، آج وہ حکمرانوں کی نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے اندھیروں کا شہر بن گیا ہے۔ کے الیکٹرک نام سے کراچی کو الگ بجلی کی رسائی دی جاتی ہے، پر تاحال وہ لوڈشیڈنگ کی شکایات آتی رہتی ہیں۔

تازہ ہی غیرملکی خبر رساں ادارے بلوم برگ میں کراچی کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے، جس کا میڈیا پہ بڑا تذکرہ چلا ہے، پر وہ خبر کراچی باسیوں کے لیے بالکل بھی حیران کن نہیں ہے۔ کراچی جیسے شہر کو جدید بنانے کے لیے، کبھی کسی جماعت نے ایسی منصوبے شروع نہیں کیے، جو کراچی کو دنیا کے بہترین شہروں میں شمار کر سکیں۔ بلکہ گٹر نالوں کا ابلنا، سڑکیں چوراہے بھرجانا، کچرے کے ڈھیروں کا جگہ جگہ جمع ہونا، چوراہوں پہ کھڈے پڑجانا، بس یہی اب کراچی کی پہچان بنتی جا رہی ہے۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے اس بڑے شہر پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی، اور یہاں کی ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں سے ہے۔ جب کہ ٹرئفک مسائل کو حل کرنے کے لیے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے لیے میٹرو ٹرین، میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بی آر ٹی منصوبے سمیت دیگر منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ جس سے یہ واضح کر دیا گیا ہے، سب کو پالنے والا کراچی ایک یتیم شہر ہے، جس کی وارثی کوئی سیاسی جماعت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہونا اور فنڈز نہ ملنے کی لڑائی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں سالوں سے جاری ہے، پر یہ تاحال ثابت نہیں ہو سکا، کون غلط کون صحیح ہے؟ یہ تو طے رہا کہ شہر کو سدھارنے کے بجائے دونوں جماعتیں اپنی اپنی طرف سے کراچی کو برباد کر رہی ہیں۔ کراچی کی مقامی حکومت ایم کیو ایم کے پاس ہے، اور میئر بھی سالوں سے ان کا لگا ہوئا ہے، پھر بھی کراچی کے حال برے ہیں۔ حالانکہ بوری بند لاشوں کی برآمدگی، اسٹریٹ کرائیم، ٹارگٹ کلنگ سے کسی حد تک چھٹکارا ملا ہے، پر کراچی ان سب سے ہٹ کر اپنی الگ پہچان ابھی تک نہیں بنا پایا۔

جس کے باعث مورڑو کا کلاچی پر امن شہر کہلانے کے بجائے، لوگوں کے اندر اپنی دہشت بٹھائے ہوئے ہے۔ کراچی باسیوں کو تو کراچی کی بہت پرواہ ہے، پر حکومت کرنے والے کراچی کے لیے کسی بڑے منصوبے کے اعلان سے زیادہ اور کچھ نہیں کر پائے۔ کراچی میں اربوں روپے کے پیکیج دینے کا اعلان وفاق اور صوبائی حکومت دونوں نے کیا تو سھی، پر اس پر عملدرآمد ہوگا بھی یا نہیں، اس کا ذمہ کوئی نہیں لے سکتا۔ اختیارات کی منتقلی کی جنگ میں مصروف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کراچی سے زیادہ اپنی جماعتوں پر توجہ دی ہے۔

ایم کیو ایم والے لسانی فسادات کو پھیلانے کے لیے الگ صوبے کی تشہیر تو بہت کرتے ہیں، پر انہوں نے اس شہر کی ترقی کے لیے وہ کام نہیں کیے، جو کرنے چاہیے تھے۔ کراچی میں آمدروفت کا کوئی ایسا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا، جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہو، اور لوگ اس پہ سفر کر کے سکھ کا سانس لے سکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے لیے خاص پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 162 بلین دینے کا اعلان کیا تھا، پر سندھ حکومت کے مطابق یہ رقم انہیں موصول ہی نہیں ہوئی۔

کراچی کی ٹرئفک کا بدترین قرار پانا، تمام حکمرانوں کے لیے کوئی اعزاز کی بات نہیں ہے، بلکہ شرمندگی کا باعث ہے کہ، کراچی میں بڑے بڑے کاروبار چلاتے سیاستدان اور سرمایہ دار، اپنے اس بڑے شہر کو کچھ نہیں دے پائے۔ سالوں پہلے کراچی سرکلر ریلوی نظام سے شہر بہت اچھی طرح سے جڑا ہوئا تھا، اور ایک علاقے کے لوگ باآسانی دوسرے علاقے تک سفر کر سکتے تھے، پر نوے کی دہائی میں، یہ نظام خستہ حال ہو گیا۔ کہیں ریلوے کے راستوں پہ لوگوں نے بستیاں آباد کردیں، کہیں پہ ریلوی ٹریک اکھڑ کر ایک گزرگاہ بن گیا، اور اس کی مرمت کے لیے پیسے کرپشن کے نذر ہوتے رہے۔

جس سے کراچی کی ٹریفک دن بہ دن بری ہوتی گئے۔ وفاقی وزیر برائے ریلوی شیخ رشید نے جمعرات کے دن صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کراچی سرکلر ریلوی کا افتتاح کر کے، اسے پچیس سال بعد بحال کیا ہے، جو کہ مکمل طور پہ ابھی بھی بحال نہیں ہوئی۔ شروعاتی طور پہ چھیالس کلومیٹر تک راستے کلیئر کردے گئے اور تیرہ اسٹیشنوں تک یہ ٹریں چلے گی، جب کہ کرایہ تیس سے پچاس روپے تک لیا جائے گا۔ بڑی آبادی رکھنے والا یہ شہر، جہاں پہ ٹرئفک جام ہونا روز کا معمول ہے، گھر سے نکلتے لوگ یہ خاطری سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ ٹائم پہ اپنے دفتر پہنچے گے، یا گھنٹوں ٹرئفک میں پھسے رہیں گے۔

ایسے زیادہ آبادی والے شہر میں ٹرئفک کا نظام اچھا نہ ہونا ایک تشویش کی بات ہے۔ ائر کنڈیشن بسیں، کوسٹریں اور لاریاں، جو کبھی نہیں تھیں، اب وہ جگہ جگہ سے ٹوٹیں ہوئی ہیں، جس سے عوام کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ جدید سہولتوں سے آراستہ نہ سھی، پر کراچی والوں کو تو وہ بیسں بھی میسر نہیں، جو نئی ہوں، اور محفوظ ہوں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی طرف تو حکومت وقت کی توجہ کبھی گئی ہی نہیں، پر اب تو یہ نوبت آ گئے ہے، بڑی نیوز ایجنسیاں بھی ہمیں ان لقاب سے نواز رہی ہیں، جنہیں پڑھ کر ہمیں شرمندگی ہو رہی ہے۔

جنرل یا لوکل انتخابات جب قریب ہوتے ہیں، تو اس شہر میں اتنی گہما گہمی ہوتی ہے کہ پوچھو ہی مت۔ ہر طرف سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں کی بہار، نعروں سے وال چاکنگ، ریلیاں، جلسے جلوسوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ، شاید اب اس شہر کی قسمت بدلنے کو ہے، اور اب کچھ اس شہر کے لیے اچھا ہو۔ پر انتخابات ختم ہونے کے بعد، جوں ہی نتائج آتے ہیں، جیتے اور ہارنے والے دونوں امیدوار غائب ہو جاتے ہیں، اور اپنا منہ تب ہی دکھاتے ہیں، جب دوسری الیکشن قریب ہو۔

کراچی کے جزائر ڈنگی اور بھنڈار پہ اچانک اپنا حق جتا کر، رات کے اندھیرے میں صدارتی آرڈیننس جاری کرنے والی پی ٹی آئی حکومت، یہ جواز بتا رہی ہے کہ، وہ کراچی کے جزیروں پہ عمارتیں بنا کر اسے ایک جدید شہر بنائیں گے، پر اس بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا کہ، وہاں کے رہائشی مچھیرے جو بے گھر ہوں گے، ان کا کیا ہوگا؟ صوبہ سندھ کی ملکیت پہ قبضے کی نیت پہ بڑی تیز سے آگے بڑھتے ہوئے حکمرانوں کو، کراچی شہر کے اندرونی حالات سدھارنے کا کبھی خیال نہیں آیا، انفراسٹرکچر، ٹریفک، اور ندی نالوں کو جدید طرز پہ کرنے کا خیال نہیں آیا، پر جوں ہی کوئی قدرتی وسائل دیکھے، وہاں عقاب کی آنکھ سے نشانہ لگانے کو آں پہنچے ہیں، جس کو ہم سندھ باسی رجیکٹ کرتے ہیں۔ برائے کرم، کراچی کی وارثی کریں، اور اس کی ٹرئفک اور دیگر مسائل کو حل کریں، تاکہ یہ شہر خوبصورت شہروں کی لسٹ میں شامل ہو سکے۔ ہم گزارش کرتے ہیں، کہ کراچی کو وہ تمام تر سہولتیں مہیا کی جائیں، جس کا وہ حقدار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).