محسن فخری زادے اور مسلم شاہدان: ایران کیا کر سکتا ہے؟


خطے کی صورتحال بدلتی جا رہی ہے۔ محسن فخر زادے کو نشانہ بنانا علاقائی مسئلہ نہیں ہے نا ہی ان کی موت نظر انداز کرنے والی بات ہے۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے باپ کہلائے جانے والے محسن فخری زادے کو ایران کے اندر ہی نشانہ بنا لینا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ کرونا زدہ ایران کا اندرونی سلامتی کا نظام کمزور ہو چکا ہے۔ اور کوئی بھی وار کر سکتا ہے۔ اور وار بھی ایسا کاری کہ ایک ایسا شخص نشانہ بن جائے کہ جس کے بارے میں مغربی میڈیا اور مغربی ایجنسیاں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ یہ شخص ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ اور اطلاعات یہ بھی تھیں کہ اب تک جو ایران مضبوطی سے کھڑا ہوا ہے اپنے نیوکلیئر پروگرام پہ تو انہی کی وجہ سے ہے۔ سونے پہ سہاگہ ایران کے پاسداران کے اہم کمانڈر کو عراق شام کی سرحد پہ نشانہ بنایا جانا ہے۔

محسن فخری زادے جیسے اہم شخص کو ایران کے اندر نشانہ بنا لینا یقینی طور پر ایران کے دشمنوں کی بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے میں کامیابی تو کسی صورت ایران کے دشمنوں کی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ لیکن فرق یہ تھا کہ وہ ایران سے باہر نشانہ بنے، جیسے حال ہی میں پاسداران انقلاب کے اہم کمانڈر عراق شام کی سرحد پہ ایک حملے میں جاں سے چلے گئے۔ اثر و رسوخ شام، عراق، لبنان میں بیشک ایران کا موجود ہے لیکن بہرحال قاسم سلیمانی اور اب مسلم شاہدان کے نشانہ بننے میں ان کا ایران سے باہر موجود ہونا اہم عنصر تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایسے وقت میں جب ایران کی توجہ کرونا سے نمٹنے کی طرف مرکوز ہے، ایران کے اعلیٰ ایٹمی سائنسدان کو نشانہ بنا لینا اور ان کے جنازے کے دن پاسداران انقلاب کے کمانڈر مسلم شاہدان کو نشانہ بنایا جانا، ایران کے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ اس لیے ہے کہ اندرونی طور پر یہ ایران کے لیے مشکلات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ دشمن پوری طرح ایران کے خلاف پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ احتجاج مہنگائی کے خلاف تھا لیکن اس احتجاج کی پشت پہ یقینی طور پر صرف مہنگائی نہیں تھی بلکہ اس احتجاج کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت سے نامعلوم افراد، گروہ اور ممالک شامل تھے۔

اور یہ ایک کھلا راز بھی ہے۔ محسن فخری زادے اور مسلم شاہدان کو نشانہ بنایا جانا، خطے کی صورتحال کو واضح کرتا جا رہا ہے۔ ایران کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ بھی اب معاملات قدرے پریشان کن ہو رہے ہیں کہ روس اور چین کے ساتھ ایران کے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن خطے کی صورتحال پہ نگاہ دوڑائیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں کی خفیہ ملاقاتوں کی خبریں زیر گردش ہیں۔ متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین وغیرہ سمیت دیگر اہم خلیجی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات، ایران کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران ایک سخت موقف اسرائیل کے خلاف اپنائے ہوئے ہے اور امریکہ سے زیادہ ایران کے ایٹمی پروگرام پہ نظریں بھی اسرائیل کی ہیں۔ کہ براہ راست پہنچ کا دعویٰ ایران اسرائیل کے حوالے سے ہی کرتا ہے اپنی میزائیل ٹیکنالوجی کے حوالے سے۔

لہذا خطے کی صورتحال بعد از کرونا تیزی سے تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایران کو نا صرف اپنی معیشت کی فکر کرنا ہو گا۔ بلکہ اپنے اداروں کو قدامت پسندی سے فاصلے پہ لے جا کر ان کی تنظیم نو کرنا ہو گی۔ کیوں کہ تیل و گیس سے مالا مال ایران کو اگر حقیقی معنوں میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو سب سے پہلے ملک کے اندر صورتحال بہتر کرنا ہو گی۔ اگر ملک کے اندر ایران کے اتنے اہم عہدیدار کو نشانہ بنانا دشمنوں کے لیے مشکل نہیں رہا تو یہ قابل غور بات ہے ایران کے لیے کہ کمی کہاں واقع ہو رہی ہے۔

کیا ایسے محرکات ہیں کہ ایران کی توجہ اپنی اندرونی سلامتی کی طرف سے اتنی کم ہو گئی کہ یہ حادثہ پیش آ گیا۔ اور مزید پریشان کن یہ کہ دشمن نا صرف اتنی اہم شخصیت کے معاملات سے مکمل باخبر تھا بلکہ طاق کر نشانہ ایسی جگہ لگایا جہاں حفاظتی حصار مضبوط نہیں تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی ہوں یا محسن فخری زادے، مسلم شاہدان ہوں یا دیگر اہم ایرانی راہنما، ایران نے اپنے گریباں میں جھانکتے ہوئے حالات زار بہتر بنانے کی طرف توجہ نا دی تو کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں مزید ایسے سانحات جنم لے سکتے ہیں کہ کہ معاشی بدحالی کا شکار اس ملک کے لیے مستقبل بعید میں زیادہ مشکلات سامنے آ سکتی ہیں۔

ایران کیا کر سکتا ہے؟ مواقع موجود ہیں، لیکن ان پہ عمل خطرناک ہو سکتا ہے۔ خظے میں موجود امریکی مفادات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟ بالکل ایران ایسا کر سکتا ہے۔ اور ایران کے پاس یہ آپشن قابل عمل اس لیے ہے کہ ایران نواز ملیشیاز عراق، شام اور لبنان میں موجود ہیں۔ ایران پر الزامات سعودی آئل تنصیبات پر حملے میں مددگار کے بھی لگتے رہے ہیں۔ دوسرا آپشن محسن فخرے زادے یا مسلم شاہدان جتنی ہی کسی اہم شخصیت کو نشانہ بنانا، لیکن یہ آپشن ایران کے لیے انتہائی مشکل ہے کہ براہ راست جنگ میں خطے کو جھونکنے کے مترادف ہو سکتا ہے اور ایران کسی صورت فی الحال دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تیسرا آپشن، جو معروضی حالات میں، انتہائی مشکل ہو گا ایران کے لیے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کہ، فی الحال مکمل خاموشی۔ خاموشی کا آپشن تمام آپشنز میں سے مشکل ترین ہے لیکن نہایت سود مند بھی ہے۔ خطے میں اسرائیل کے تعلقات بڑھ چکے ہیں۔ خفیہ دوروں کی خبریں موجود ہیں۔ ایسی حالت میں ایران کا انحصار نئی امریکی انتظامیہ پہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ بائیڈن نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے کو تنقیدی رائے میں تولتے رہے ہیں۔ توقعات ہیں کہ وہ اس نیوکلیئر ڈیل کو جو ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کی ہوئی کی روح کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ایران کوئی براہ راست کارروائی نا کر کے نئی امریکی انتظامیہ کو یہ پیغام دے سکتا ہے کہ وہ خطے میں امن کے لیے نئی انتظامیہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ اس آپشن کے چانسز محدود لیکن مضبوط ہیں۔ ایران اپنا وقار بحال رکھنے کے لیے خطے میں پراکسی وار کی فضاء میں کوئی بڑا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اور ایسا ہونا قریں از قیاس اس لیے نہیں کہ ایران کو عراق، شام، لبنان، اور دیگر ممالک میں اہم اثر و رسوخ بہرحال حاصل ہے۔

خطے کی صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے عالمی منظر نامہ بھی اسی تیزی سے آنے والے دنوں میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نئے اتحادی بنتے نظر آ رہے ہیں۔ پرانے دشمن دوستی کی راہ پہ گامزن ہیں۔ محسن فخری زادے اور مسلم شاہدان کو راستے سے ہٹانا، ایک پڑاؤ ہیں ایسی عالمی بساط تک کے سفر کی جس میں مہرے تبدیل ہوتے رہیں گے، کردار بدلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).