پھر دسمبر آ گیا


باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، گالیاں سنسان تھی۔ تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ درختوں کے نیچے گرے ہوئے پتے اک محسوس آواز کے ساتھ ٹھیل رہے تھے۔ چاند کی روشنی آسماں پر مدھم سی تھی۔ تارے ہلکے ہلکے بادل کے پیچھے چھپے تھے۔ ہوا کی وجہ سے کڑکی سے لپٹی پردہ بار بار ٹک ٹک کی صدا دے رہی تھی۔

ایک بار نظر گھڑیال پر پڑی، تو آدھی رات ہو چکی تھی۔ سردی کی وجہ سے کمبل میں لپٹا کرسی پر تھکا پڑا، کتاب ہاتھ میں پکڑا ہوا کانپ رہا تھا۔ سردی کی شدت محسوس کی تو خود کو تسلی دی کہ ہر دسمبر میں اس طرح کی سردی اور ٹھنڈ پڑتی ہے۔

دسمبر سے اک رفیق کی باجا فرمان ذہن نشین ہوئی کہ دسمبر ہمیشہ سے مملکت خداداد سے پریشان کن ثابت ہوا ہے۔

چائے وہ مشرقی پاکستان کا جدا ہونا ہو، یا خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پر دشمنان انسانیت کا حملہ ہو۔

اب تمام تر توجہ اس اسکول واقع پر مرکوز ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بظاہر انساں نمایاں 7 درندوں پر مشتمل گروہ مکتب میں داخل ہوا اور معصوم بچوں پر اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔

اس وقت نہ آسمان ٹوٹا اور نہ زمین پٹی، جب چار سال کی معصوم بچی، جن کی مکتب میں اول دن تھی، جام شہادت نوش کی۔

یہ اس مملکت خداداد کی وہ تاریک ترین دن تھی، جس روز پوری انسانیت شرما گئی۔

ان پھولوں کو خون سے نہلایا، جو ابھی کھلے ہی نہ تھے۔ یہ بچے مستقبل کے روشن خیال معاشرے کے ضامن تھے۔ مختصر یہ کہ بہت سارے بچوں نے اسی روز جام شہادت نوش کیا۔ ان شہدا کی تعداد لکھنا قلم کے اختیار میں نہیں، کیونکہ آخرت میں غلط بیانی پر قلم کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔

ان بچوں کی مائیں ابھی تک آس لگائے بیٹھی ہے کہ شاید ان کے ننھے پھول سکول سے دوڑتے ہوئے آئے اور ان کے گلے لگ جائے۔

یہ سب کچھ اور ایسے بہت سی واقعات بدقسمتی سے ہم نے دیکھی ہے۔ بہت ساری بہنوں کو بھائیوں کے لئے چہیتے ہوئے اور ماؤں کو بیٹوں کے لئے تڑپتے ہوئے دیکھے ہیں۔

کثیر تعداد میں بیواؤں کو دیکھا ہیں جو کہ زندہ لاش کی طرح چلتی پھرتی بے بسی کی عکاسی کرتی ہیں

خدا جانے ہمارے اس جنت جیسے مملکت کو کس کی نظر لگ گئی؟ اگر ہمیں وسائل کا فقدان تھا یا ابھی بھی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اس

مملکت کا چین و سکون کون لے گیا؟

کہاں گئی وہ لوگوں کی محبت و خلوص اور پر امن زندگی؟ نفرت کے بیج کس نے بو دیے؟ سب ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ عام آدمی کی برداشت ختم ہوئی۔ ان تمام بے گناہ لوگوں کے قتل کا قصوروار آخر کون؟ وہ تو یہ بھی نہیں جان گئے کہ ان کو کس جرم کی سزا مل گئی؟ اس سب حالات کے ذمہ دار کون؟

پوچھنے والے ہزاروں میں اور بتانے والا جوابدہ کوئی نہیں۔ کیا ہمارا گناہ یہی ہے کہ ہم انسان ہیں؟ ہم نے ہمیشہ محبت اور امن کی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اگر ہم ان جیسے ہزار سوالات کا جواب چاہیں، تو جواب کس سے مانگیں؟

اے میرے خدا! تمھارے مخلوق نے تو ہمیں نے جینے دیا اور نہ آرام سے مرنے دیا۔
ہم نے تو وہ سب کچھ براہ راست دیکھا، جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
ہمارے حالت زار پر تو انسانیت کے دعویدار بھی خاموش اور ہمارے نظام اقتدار کو چلانے والے بھی خاموش!

ان خاموشی کو ہم کیا سمجھے؟ اگر مزید وضاحت سے لکھنا شروع کیا تو عین ممکن ہے کہ میرے ہاتھ میں قلم کی حرکت تھم جائے، کیونکہ ہر لفظ میں چیخ اور ہر جملے میں درد کے سوا کچھ بھی نہیں۔

شاید رات کافی ہو چکی ہے۔ وقت کی رفتار آہستہ آہستہ صبح کی طرف گامزن ہے۔ اس امید اور دعا کے ساتھ کہ خدا ہمیں پھر کبھی ایسا دسمبر نصیب نہ ہو جو ہمارے لئے باعث درد و پریشانی ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).