اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی


انسان قد میں ہاتھی سے بہت چھوٹا ہے مگر ہسٹری پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ چھوٹے انسانوں نے بڑے ہاتھیوں سے بڑے کام لیے جن میں زیادہ تر جنگ کے دنوں میں دشمن کو تباہ و برباد کرنا اور امن کے دنوں میں سواری اور کاشت کاری وغیرہ شامل تھے۔ تاہم پاکستانی سیاست میں سیاسی ہاتھیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا گیا جسے یہاں ”اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی“ لکھا جا رہا ہے۔ اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کی اس نئی اصطلاح کی تشریح سے پہلے چھوٹے انسانوں کے بڑے ہاتھیوں سے لیے جانے والے کاموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

تقریباً ساڑھے چار ہزار برس پہلے موجودہ شام، عراق، کویت، ترکی اور ایران کے علاقوں میں ہاتھیوں کو کاشت کاری کی طاقتور مشین کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ ہاتھیوں کے لڑاکا یونٹ کا سب سے پہلا استعمال چارسو برس قبل مسیح میں ہندوستان میں کزن رشتہ داروں کے درمیان لڑی جانے والی اقتدار کی جنگ میں ہوا جس کا ذکر مہابھارت اور رامائن میں کیا گیا ہے۔ ہاتھیوں کے لڑاکا یونٹ کے جنگ میں استعمال کا دوسرا بڑا حوالہ دوسو برس قبل مسیح میں رومنز اور ہینی بل کے درمیان لڑی جانے والی پیونک جنگ ہے۔

1914 ء میں پہلی جنگ عظیم اور 1940 ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی ہاتھیوں کو بھاری ہتھیار کھینچنے اور ٹرانسپورٹ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق جنگوں میں ہاتھیوں کا استعمال آخری مرتبہ 1987 ء میں عراقی فوج نے بھاری ہتھیاروں کی ٹرانسپورٹ کے لیے کیا۔ پاکستان میں سیاسی ہاتھیوں کے زور کو توڑنے کے لیے اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کے استعمال کا ویژن نہ جانے کس کا تھا؟ البتہ ہاتھی کی طرح طاقتور سول حکومتوں اور سیاسی حکمرانوں کو کسی ہیوی ویٹ آبجیکٹ سے ٹکراکر انہیں مقررہ وقت سے پہلے ہی پاش پاش کردینے کی اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی گزشتہ 73 برسوں میں بہت کامیاب رہی۔

اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی تھیوری میں استعمال ہونے والے ہیوی ویٹ آبجیکٹس میں کبھی وزیراعظم لیاقت علی خان کے لیے پستول سے نکلی ہوئی گولی، کبھی وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کے لیے گورنر جنرل یا صدر کے احکامات شامل تھے۔ ان ہیوی ویٹ آبجیکٹس میں عدالتی نظریہ ضرورت کے ساتھ ساتھ وزرائے اعظم محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے لیے آئینی شق 58۔

2 (b) بھی شامل کی گئی۔ پاکستان کے ایک بڑے سیاسی محافظ ذوالفقار علی بھٹو کے قلعے کو پی این اے کے نوستاروں والے اتحاد کی اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کے ذریعے فنا کر دیا گیا۔ پاکستان اکیسویں صدی میں داخل ہوا تو اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کو بھی جدید بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے تحت یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف جیسے ناپسندیدہ سول حکمرانوں کو وقت سے پہلے ہٹ جانے کے لیے خام اور رف طریقہ کار کی بجائے عدالتی فیصلوں جیسے ہیوی ویٹ آبجیکٹس کا سامنا کرنا پڑا۔

اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کچھ ماند پڑگئی ہے، کند یا ڈل ہو گئی ہے کیونکہ اس کے آخری شکار نواز شریف زخمی ہو کر زیادہ موثر ہو گئے ہیں۔ نون لیگ نے اپنے سابقہ 5 برس کے اقتدار اور گزشتہ ڈھائی برسوں کی اپوزیشن میں مسلسل زوردار وہ جھٹکے کھائے ہیں جو کسی بھی مضبوط پہاڑی تودے کو زمین بوس کرنے کے لیے کافی تھے لیکن اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کے ماند پڑجانے کے باعث نون لیگ سیاست پر پوری آب و تاب سے موجود ہے اور نواز شریف زرہ بکتر پہن کر قلعے سے باہر نکل کر سامنے آ کر مقابلے کے لیے للکار رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں مزاحمتی سیاست کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو بڑے نام ہیں لیکن یہ سب اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی سے براہ راست ٹکرانے کے باعث راستوں سے غائب کردیے گئے جبکہ نواز شریف چومکھی لڑائی لڑنے کے ماہر ہو گئے اور مزاحمتی سیاست میں اپنے پیش روؤں سے زیادہ بہتر سیاسی کاؤنٹر اٹیک کرنے لگے۔ ان کے لیے فائر کیے جانے والے ہتھیاروں میں پارٹی کی اندرونی سازشیں، پارلیمنٹ میں جمہوریت کے علمبرداروں کا بے دید رویہ، نیب اور عدالتی مقدمات کی سانپ نما چھوٹی بڑی رسیاں اور شریف خاندان میں پھوٹ ڈلوانے کی کوششیں وغیرہ شامل ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاسی تاریخ کے سابق بڑے مزاحمتی رہنما انہی ہتھیاروں میں سے کسی نہ کسی کا لقمہ بنے لیکن نواز شریف مخالفین کی طرف سے کسی بھی لیتھل سٹرائیک پر ایک قدم پیچھے ہٹ کر بڑی چھلانگ لگانے کے ماسٹر ہو گئے ہیں۔ صوبے کا وزیراعلیٰ صوبائی سیاست کا میچور نمائندہ ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں اب تک فیروز خان نون، نور الامین، غلام مصطفی جتوئی، نواز شریف، ملک معراج خالد اور ظفر اللہ خان جمالی وہ سیاسی شخصیات ہیں جو صوبائی وزرائے اعلیٰ رہنے کے ساتھ ساتھ وزرائے اعظم بھی بنے لیکن نواز شریف ان سب کے مقابلے میں وفاقی سیاست کے محاذ پر لمبے عرصے سے چھائے ہوئے ہیں۔

اگر حالیہ حالات میں اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کے منصوبہ سازوں کو مستقبل میں عارضی طور پر مزید کوئی کامیابی میسر آئی بھی تو نواز شریف ان کے حلق میں چبھا ایسا کانٹا ہوں گے جسے نکالا جاسکے گا نہ ہی ہضم کیا جاسکے گا۔ ہاتھیوں کے کسی بھی جتھے کو واپس بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے ان کے درمیان بھگدڑ مچا دینا کافی ہوتا ہے اور پھر وہ پورس کے ہاتھی بن جاتے ہیں۔ اسی لیے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی 11 پارٹیوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے جواب تک کامیاب نظر نہیں آ رہی۔

دوسری طرف پشاور میں پی ڈی ایم کے حالیہ جلسے سے مریم نواز کے اپنی دادی کے انتقال پر اچانک واپس آ جانے سے تجزیہ نگاروں کو یہ بات بھی باور ہو گئی کہ مریم نواز کی تقریر کے بغیر اپوزیشن کا کوئی جلسہ بھی شعلہ مزاج نہیں ہو سکتا ۔ یہ اینٹی ہاتھی ٹیکنالوجی کی ناکامی اور نون لیگ کی کامیابی ہے۔ لہٰذا لگتا ہے کہ ”پارٹی از ناٹ اوور“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).