اسرائیل عرب دوستی اور پاکستان


دنیا بھر میں کئی غیر مسلم ممالک نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے یہ ممالک اقوام متحدہ کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے ہیں لیکن مجال ہے جو آزاد مسلمان ممالک اس معاملے پر ایک ہوجائیں اور اقوام متحدہ کو اور ان دہشت گرد ممالک کو آنکھیں دکھانے کی جرات کر لیں۔ پاکستان کم از کم اتنی جرات کرتا رہا ہے کہ ان ممالک کے موقف اور کردار کی کھل کر مخالفت کرتا رہا اور پاسپورٹ پر بھی اب تک تو درج ہے ہی کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ ہر ملک کے لئے ہے۔ لیکن اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں گو کہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن حکومت کے پسندیدہ لوگ کچھ ایسا ماحول بنا رہے ہیں جس سے ایسا کرنے کی بو آ رہی ہے۔

ایک پرانا گانا ہے ”مینو نوٹ وکھا میرا موڈ بنا“ لگتا ہے معاملات کچھ اسی جانب جا رہے ہیں۔ ایک صاحب نے اسرائیلی ٹی وی کو اپنے دیے گئے انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے لوگ اسرائیلی عوام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان کو بس یہی معلوم ہے کہ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو فلسطین مخالف ہے لیکن اسرائیلی خود ایک عظیم قوم ہے۔ ان صاحب کا بس نہیں چلا کہ اسرائیل زندہ باد کا نعرہ ہی دوران نشریات لگا دیں اور اپنے آقاؤں کو اپنی وفا ثابت کردیں۔ خیر ان کی یہ بات کچھ خاص عجیب بھی نہیں جہاں تین سال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے لوگ ہوں، ان کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ ہوں، ان کا کیس لڑنے والے لوگ ہیں وہاں ایسے لوگوں کا ہونا اور ایسا بولنا کچھ عجب نہیں۔ ایک اور صاحب نے بھی اپنے پروگرام میں کچھ ایسے دلائل دیے جن کی آسان الفاظ میں تشریح یہ ہے کہ جب سب اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں تو کیا ہم پاکستانی امت کے ”مامے“ ہیں؟ ہمیں بھی اسے تسلیم کر کے کہ اپنے حالات بہتر کرنے چاہیے ہیں۔

خیر ان اینکران کرام کو ایک طرف رکھیں اور بات کر لیں لمبے جبے والے انکل سام کے ایجنٹ کی۔ ہمارے ملک کے دین دار صحافی اور قلم کار شاید اسرائیل کے خلاف تو بھرپور مہم چلا سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں لیکن سعودی عرب کے آمر کے خلاف لکھنا ان کے بس میں بھی نہیں۔ سعودی عرب کسی دور میں مسلمانوں کا ترجمان ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ افراد اپنی قبر کا حال بھول کر، اپنے ماضی کو بھول کر اپنے آبا کو بھول کر، ان کے کردار کو بھول کر اپنے مفادات کے لئے تمام مسلمان ممالک کا سودا کر چکے ہیں۔ یہ عرب آج رسول اللہ اور صحابہ کی تلواروں کو بھول کر مسلمانوں کے تمام قاتلوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف ہیں۔ کیا ہم پر ان کی پیروی لازم ہے؟

جن کو اسرائیل قوم عظیم لگتی ہے، جو چاہتے ہیں امت کے مامے نہ بنیں یا جنہیں عربوں میں ہی حقیقی قیادت نظر آتی ہے کیا ان تمام دانشوروں کا علم ان کا شعور قائداعظم محمد علی جناح سے زیادہ ہے؟ کیا پاکستان کی سرزمین پر رہنے والے یہ ضمیر فروش پاکستان کا کھانے والے یہ احسان فراموش کیا قائداعظم کا یہ قول بھول گئے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جو کہ مسلمانوں کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ ان دانشوروں کے شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔

مسلمان فلسطینوں عورتوں کی عزتیں تار تار کرنے والے، مسلمان بچوں کو شہید کرنے والے، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے والے، مسجد اقصا میں بوٹوں سمیت داخل ہونے والے اسرائیلی آخر کیسے عظیم ہوسکتے ہیں؟ مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنا کے نظریہ پر چلنے والے دانشور قائداعظم کے اس فرمان کی ہی لاج رکھ لیتے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ تم کہتے ہو جناح سیکولر تھے تو جناح کے اس سیکولزم کی ہی لاج رکھ لیتے۔

محمد علی جناح نہ ہی سعودی عرب کے ولی عہد تھے، نہ ہی عرب امارت کے امیر تھے نہ ہی جبا پہنتے تھے نہ عربی پر عبور رکھتے تھے لیکن اسرائیل کو خنجر سے تشبیہ دے کر انہوں نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں اور پاکستان اسی نظریہ پر چلے گا۔ جناح کا نظریہ کسی ایک فرد کے لئے نہیں بلکہ ہر اس دانشور کے لئے ہے جو پاکستانیوں کو بے وقوف بنا کر ان کے نظریات بیچنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

علامہ اقبال کو گزرے کئی سال گزر گئے ان کا نظریہ خادم رضوی کی ہر تقریر میں نظر آیا اور خادم رضوی کی وفات پر یہ ضمیر فروش ٹولا ان کے متعلق نہ جانے کیا کچھ کہتا رہا اور کہنا ہی تھا کم و بیش سات لاکھ کا جنازہ دیکھ کر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ان کی کلاس تو لی ہوگی پوچھا تو ہوگا کئی سالوں سے تم ہم سے جو ڈال لیتے آرہے ہو ان کا کیا ہوا؟ میرا جسم میری مرضی کے نام پر پروگرام کرانے کے جو فنڈز لیتے رہے ہو ان کا کیا ہوا؟

ٹیم میں نئے بندے شامل کرنے کے نام پر ڈالروں میں جو اضافہ کراتے رہے اس کا کیا ہوا کہ آج اس بابے کے جنازے میں لاکھوں لوگ شامل ہیں اور لبیک لبیک کے نعرے لگا رہے ہیں؟ امریکا ابھی سن لے جناح کا نظریہ پاکستان میں زندہ تھا ہے اور رہے گا۔ امریکا اور یہودی ایجنٹ اپنے ڈالر ان نام نہاد ایجنٹوں پر ضائع نہ کریں فلسطینیوں کو مکمل حقوق ملنے تک پاکستان کے لئے اسرائیل دشمن تھا ہے اور رہے گا۔

وزیراعظم عمران خان بھی اگر اپنے الفاظ پر قائم ہیں تو جناح کے نظریات کے خلاف بات کرنے، عوام کو غلط آگاہی دینے والے ان دانشوروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر وہ اس معاملے میں یوٹرن لے چکے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ پی ڈی ایم شاید ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی اپوزیشن سر لیں گے تاریخ میں کہیں زندہ نہ رہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).