” کاون“ چلا گیا!


مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں قید ”کاون“ ہاتھی کے بارے میں لکھے گئے کالم میں قارئین اس قدر دلچسپی لیں گے اور ان کا ایسا فیڈ بیک آئے گا۔ آج پاکستان میں بھی ”کاون“ کی آزادی، صحت اور خوشیوں کے لئے بہت سے لوگ دعا گو ہیں۔

جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں ”کاون“ کی رخصتی کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ وہ اپنے خصوصی فولادی پنجرے کے اندر داخل ہو چکا ہے۔ جن سرکاری عمال اور اہلکاروں نے کبھی اس کی خبر نہ لی، وہ اسے الوداع کہنے کھڑے ہیں۔ ”کاون“ کے پنجرے کو ایک بڑے کرین کی فولادی رسیوں سے باندھا جا چکا ہے۔ کاون کو بے ہوشی کے انجکشن دے دیے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد یہ پنجرہ این۔ ایل۔ سی کے ایک بڑے ٹرک میں رکھ دیا جائے گا جو اسے ائر پورٹ لے جائے گا۔ روسی مال بردار طیارہ پہلے ہی ائر پورٹ پر کھڑا اس کا منتظر ہے۔

کسی نے ٹھیک کہا کہ جانوروں کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی شکر کی بات ہے کہ جانور سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ایسا ہوتا تو نہ جانے ”مذہبی عقیدہ“ کاون کے لئے کس بڑی مصیبت کا باعث بنتا۔ اور اگر کاون کی کوئی ”سیاسی وابستگی“ ہوتی تو عین ممکن ہے اس پر کوئی مقدمہ بن جاتا۔ اسے نیب کی پیشیاں بھگتنا پڑتیں اور کسی گھناونے الزام کے نتیجے میں اسے ECL پر ڈال دیا جاتا اور وہ یہیں سسک سسک کر مرجاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک کاون کی بد حالی کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دے کر لاتعلق ہو جاتے اور وہ یہیں مر جاتا۔ نہ امریکہ کی نیک دل گلوکارہ شیر (Cher) اس کے لئے آواز اٹھاتی اور نہ چار لاکھ ڈالر اس کی کمبوڈیا منتقلی کے لئے وقف کرتی۔

لیکن کاون نے اپنی عمر کے تقریباً 35 سال اس ملک میں گزارے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ جہاں کے عوام کی بھاری اکثریت مسلمان ہے۔ جہاں کے لوگ نبی آخر الزمان ﷺسے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی سے بجا طور پر ان کا خون کھول اٹھتا ہے۔ لیکن مرغزار چڑیا گھر میں زنجیروں میں جکڑے ایک بے بس و لاچار، بیمار اور نفسیاتی مریض بن جانے والے ہاتھی پر سب سے زیادہ بھرپور آواز بھی اٹھی تو باہر ہی سے۔

جس پاکستانی طالبہ ثمرخان نے پہلی بار 2015 میں کاون کی خستہ حالی پر آواز اٹھائی وہ بھی برسوں سے امریکہ میں زیر تعلیم تھی۔ جانوروں کا علاج معالجہ ثمر کا خصوصی شعبہ تھا۔ اسی دلچسپی کے سبب اس نے کاون کے بارے میں سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کیا۔ پھر اس کی آواز میں بہت سی آوازیں ملتی گئیں۔ جب 72 سالہ امریکی گلوکارہ، جو جانوروں کی رہائی کے حوالے سے ایک این۔ جی۔ او چلا رہی ہے، اس طرف متوجہ ہوئی تو پھر اس آواز کو بہت طاقت مل گئی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام پر ایمان رکھنے اور حضورﷺ سے بہت زیادہ محبت و عقیدت رکھنے والے ہم لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جانوروں سے حسن سلوک کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے۔ مسلم شریف میں بیان کی گئی ایک حدیث ہے ”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضو ر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایک بد کار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنویں کی طرف ہوا جس کے قریب ہی ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا۔

قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہو جائے۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لئے کوئی ڈول نہ تھا۔ عورت نے اپنا چرمی موزہ اتار کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا۔ عورت کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنا مقبول ہوا کہ اس کی بخشش کر دی گئی“ ۔ صحیح بخاری شریف میں بیان کی گئی ایک حدیث ہے۔ ”رسول ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت اس لئے عذاب کی مستحق ٹھہری کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی۔ نہ کچھ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ کھلا چھوڑتی کہ وہ کچھ کھا پی آئے“ ۔ اس مضمون کی درجنوں اور احادیث بھی موجود ہیں لیکن ہمارے عمل کی دنیا، انفرادی طور پربھی اور ریاستی سطح پر بھی حضور ﷺ کے ان ارشادات کی روح سے خالی ہے۔

اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ مرغزار کا چڑیا گھر عام شہریوں ہی نہیں، سفارت کاروں کی دلچسپی کا مرکز بھی تھا لیکن اس کے حالات کی تصویر اب میڈیا میں آ رہی ہے۔ نہ صرف جانوروں کو رکھنے کی جگہیں تنگ اور ان کے فطری ماحول کے برعکس تھیں بلکہ انہیں بد سلوکی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ انہیں پوری خوراک نہیں ملتی تھی۔ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (CDA) کے متعلقہ اہلکاروں کے گھر کے خرچے، جانوروں کی خوراک پر چلتے رہے۔

ہاتھی کے سکون کے لئے لائی گئی شراب، مارگلہ ریسٹ ہاؤس کی نذر ہوتی رہی۔ اس کے لئے خریدے گئے گنے، بچوں کے ہاتھ بیچے جاتے رہے۔ چڑیا گھر میں جانوروں کے علاج معالجے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ جانور تواتر سے مرتے رہے لیکن کسی کو جوابدہ نہ ٹھہرایا گیا۔ دو شیروں کی ہلاکت کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں کیا تھا جنہیں پنجروں میں دھکیلنے کے لئے آگ کا الاو روشن کیا گیا۔ شیر اور شیرنی دم گھٹنے سے مر گئے۔

دس سے زائد چڑیا گھر، حکومت کے زیر اہتمام ہیں اور سب کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ پشاور میں دو سال پہلے، 2018 میں ایک چڑیا گھر قائم کیا گیا۔ تقریباً دو سال کے عرصے میں تیس جانور موت کا شکار ہو چکے ہیں جن میں ایک برفانی چیتا بھی شامل ہے۔ ایک زیبرا پشاور، ایک کراچی اور ایک لاہور چڑیا گھر میں مر گئے۔ 2011 میں، ، مرغزار میں شیر کے چار ننھے بچے مر گئے۔ 2000 میں ایک ہاتھی بہاولپور میں مر گیا۔ لاہور کی مشہور ہتھنی ”سوزی“ بھی ہم سے نہ سنبھالی گئی۔ 2019 میں چار نیل گائے سرد موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے مرغزار میں مر گئیں۔ ایک قیمتی شتر مرغ بھی چل بسا۔

پاکستان کے تقریباً سارے ہی چڑیا گھر اس زبوں حالی کا شکار ہیں۔ تربیت یافتہ افراد کہیں بھی تعینات نہیں جو جانوروں کے رویے، ان کی نفسیات، ان کی بیماریوں، ان کی خوراک کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں۔ پاکستان دنیا کے چڑیا گھروں کی تنظیم کا بھی حصہ ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال، خوراک اور علاج معالجے کے لئے جو رقم مہیا کی جاتی ہے، اس کا بڑا حصہ اہل کاروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے چڑیا گھروں کی حالت زار کو بدلنے کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ جسٹس صاحب کا کہنا ہے، ”یہاں پر تو لوگ بے زبان جانوروں کا کھانا تک کھا جاتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ کیا سلو ک ہوتا ہو گا۔ کیوں نہ جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ دار لوگوں کو ان پنجروں میں بند کر دیا جائے جن میں یہ جانور رہتے تھے“ ۔

دنیا میں اب یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ کیا صرف تماشے اور لطف اندوزی کے لئے جانوروں کو قید کر کے رکھنا چاہیے؟ دنیا میں اب محدود پناہ گاہ یا پنجروں والے چڑیا گھر ختم ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے سفاری پارک بن گئے ہیں جہاں جانور قدرتی ماحول میں بڑے بڑے قطعوں کے اندر آزادانہ گھومتے ہیں۔ ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ معصوم اور بے زبان جانور کب تک پنجروں میں بند اذیتوں کا نشانہ بنے رہیں گے۔

کالم لکھ چکی ہوں تو اطلاع ملی ہے کہ بھارت کی ازلی پاکستان دشمنی کاون کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ بھارت نے طیارے کی فضائی حدود سے گزرنے پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔ کاون کی تنہائی کا قصہ دنیا بھرکے میڈیا میں زیر بحث ہے۔ امید ہے کہ بھارت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ کاون تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اپنے نئے ٹھکانے تک جا پہنچے گا۔ کاون جہاں رہو، خوش رہو۔ بس ہمیں معاف کر دینا۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).