دانشور بمقابلہ دانش فروش


انسان میں شعور بیدار ہونے تک انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو انسان تعلیم حاصل کرتا ہے۔ پھر اس حاصل ہونے والی تعلیم سے انسان کے اندر علم کی شمع جلتی ہے۔ جیسے ہی علم کی شمع انسان کے اندر جلنا شروع ہوتی ہے تو وہ انسان کے اندر ”دانش“ یعنی عقل کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اور پھر اس دانش کا مثبت استعمال اور عملی مظاہرہ انسان کے اندر شعور بیدار ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ مثال کے طور پر ایک انسان انجینئر بننا چاہتا ہے۔ تو سب سے پہلے وہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرے گا۔ جس میں اسے گزشتہ تجربات، انجینئرنگ کی مختلف اقسام، اس کے تھیوریٹیکل پرسپیکٹو (theoretical perspectives ) سمیت ہزاروں سینکڑوں مختلف پہلو پڑھے گا۔ پھر ان تعلیمی مشاہدات سے جو اس کو علم حاصل ہوگا وہ اس کے مطابق مختلف تجربات کرے گا، کچھ نیاء کرنے کی کوشش کرے گا، ہو سکتا ہے ہزار بار ناکام ہو پر اس کا علم اس کو بات کی یقین دھیانی کرواتا رہے کہ کوشش مت چھوڑنا اور وہ ایک دن کامیاب ہو جائے گا۔

کسی نا کسی نئی چیز کو تخلیق دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اور اس سارے عمل سے اس میں دانش پیدا ہوگی، یعنی اس کی عقل اس قابل ہو جائے گی کہ وہ ہنر مند انسان کہلانے کے قابل ہے۔ اور پھر وہ انسان اپنے اس ہنر کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکے مثال کے طور پر جیسے گاڑی بنانے والے نے سفر آسان کر دیا تو موبائل بنانے والے نے رابطے آسان کر دیے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب وہ یہ عمل کرے گا تو باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسان باشعور انسان بن گیا ہے۔ پھر اس کی پہچان دانشمندوں میں ہونے لگے گی۔ ان سارے مراحل میں سب سے اہم بلکہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی جو چیز ہے وہ ہے لٹریچر جو کہ کتابوں اور عملی تجربوں سمیت کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے لیکن یہ سارے کا سارا سفر اس کے بغیر ادھورا ہے۔

بات تھوڑی لمبی ہو جائے گئی لیکن ایک واقع سنانا چاہوں گا، میرے ایک بہت ہی محترم استاد وجاہت مسعود صاحب، جنہیں ہم طلباء چلتی پھرتی لائبریری کا نام دیا کرتے تھے وہ گجرات یونیورسٹی میں بطور مہمان اسپیکر ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جو کہ ایک ایسے استاد کی یاد میں رکھا گیا تھا جن کو مذہبی انتہا پسندی کے کالے چشمے پہنے لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔

اس سیمینار سے خطاب کرتے کچھ لوگوں نے ان انتہا پسندوں کو جاہل کا لقب دیا تھا لیکن وجاہت مسعود صاحب نے اسے ایک دوسرے زاویے سے پیش کیا جو کہ درج ذیل ہے۔ انہوں نے کہا یہ جاہل نہیں بلکہ تعلیم انہوں نے حاصل کر رکھی ہے اور مقتول بھی تعلیم یافتہ تھا۔ علم و دانش ان عناصر میں بھی ہے اور مقتول جیسے افراد میں بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ اپنے اس علم و دانش کو لوگوں کی بھلائی اور اچھائی کے لیے استعمال کرتے ہیں جنہیں ہم اس معاشرے میں دانشور یا باشعور جیسے القاب سے نوازتے ہیں تو دوسری جانب کچھ وہ لوگ ہیں جو کہ علم و دانش کا یعنی کے اپنے ہنر کا اپنے مفادات و لالچ کی خاطر غلط استعمال کرتے ہیں جنہیں ہم جاہل نہیں بلکہ دانش فروش سمجھیں تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ علم اور عقل ان میں بھی ہے لیکن وہ اپنے مقاصد اور مفادات میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی اس دانش کا غلط استعمال کر کے دانش فروش بن جاتے ہیں۔

دنیا کی کروڑوں مثالیں تو ایک طرف لیکن اگر پاکستان کی تاریخ و حال پر ہی نظر ڈالی جائے تو لاکھوں مثالیں ایسی ملیں گئی جس میں دانشور اور دانش فروشوں میں واضح فرق کیا جاسکتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، ڈاکٹر عبدالسلام، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر قدیر خاں، فیض احمد فیض، حبیب جالب، سمیت لاکھوں نے اپنے علم و شعور کا لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کر کے دانشور ہونے کا ثبوت دیا اور جبکہ دوسری جانب کئی ایسے بھی افراد ہیں جن کی مثال واضح طور پر دی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے دانش فروشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کے لیے تباہی کا سبب بنے جن میں سب سے بڑی مثال جنرل ضیاءالحق ہیں جنہیں آج بھی تاریخ میں سیاہ حروف سے یاد کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ درجنوں ایسی مثالیں ہیں جس میں مختلف شعبہ زندگی میں لوگوں نے مفاد پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے جس میں مولوی، سیاستدان، کاروباری شخصیات، جرنیل، وکلاء، اساتذہ، ڈاکٹرز، سرکاری افسران سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سر فہرست ہیں۔

اور اگر آج کے موجودہ پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ حالات دانشور بمقابلہ دانش فروش کی عکاسی کرتا دکھائی دے گا۔ اب بس فیصلہ ہم لوگوں کو کرنا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے کسی بھی صورت میں معاشرے کی بھلائی اور امن و بھائی چارہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر کے دانشور یعنی کہ باشعور ہونے کا ثبوت دینا ہے یا پھر اپنے مفادات اور لالچ کو اہمیت دیتے ہوئے دانش فروش بننا ہے جو کہ وقتی طور پر پرلطف ہو سکتا ہے لیکن موت تک نا تو تسکین قلب حاصل ہوتی ہے اور بلکہ موت کے بعد وہ نعمتیں حاصل ہونے کی امید بھی کم ہوجاتی ہے جس کا خدا نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ تاریخ بھی آپ کو معاشرتی ناسوروں کا نام دیتی رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).