کیا بھارت ہی پاکستان کا واحد اور اصل دشمن ہے؟


[contact-form][contact-field label=”Name” type=”name” required=”true” /][contact-field label=”Email” type=”email” required=”true” /][contact-field label=”Website” type=”url” /][contact-field label=”Message” type=”textarea” /][/contact-form]

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار اور وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے بھارت کو پاکستان کے استحکام وسالمیت کے لئے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل نے نیوز ویب سائٹ ’گلوبل ویلیج پیس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک کے خلاف بھارتی کارروائیوں ، معاشی، سفارتی اور معلومات کے شعبہ میں جارحانہ حکمت عملی پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ جبکہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران بھارت کی فوجی تیاریوں اور اسلحہ کی خریداری کو علاقائی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ کہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی خارجہ و سیکورٹی پالیسی ہمیشہ ایک دوسرے پر مرکوز رہی ہے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برس سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر مواصلت میں کمی اور بات چیت سے انکار کی صورت حال نے بھی تناؤ میں اضافہ کیاہے۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کو خطرہ بتا کر رائے عامہ تیار کی جاتی ہے۔ اس طرح ایٹمی صلاحیت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان ایک طرف سیاسی کشیدگی اور سرحدی گولہ باری کا ماحول ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر ناراضی اور غم و غصہ میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے پاکستان دشمنی کے لئے مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی کو بھی استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں پہلے سے ہی بھارت دشمنی کو مذہبی شناخت کا سوال بنا کر ماحول میں گرمی پیدا کی جاتی ہے۔
دونوں ملکوں میں مذہبی شدت پسندی کے فروغ کی وجہ سے محاذ آرائی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بھارت کے مذاکر ات سے مسلسل انکار کے بعد اب پاکستان بھی بات چیت کے لئے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینے اور مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدامات ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس طرح فوری طور سے دونوں ملکوں میں باقاعدہ مذاکرات کے لئے کسی پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت میں باہمی سفارتی تعلقات طے کرنے اور متنازعہ امور حل کرنے کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس سے رائے عامہ میں نفرت کا عنصر فروغ پارہا ہے۔ برصغیر میں پائیدار امن کے حوالہ سے یہ افسوسناک صورت حال ہے۔
پاکستان اور بھارت یکساں طور سے اقوام متحدہ، دیگر عالمی اداروں یا اہم ممالک کو علاقائی تنازعہ میں فریق بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن کسی کو بھی اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بھارت گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتا رہا ہے۔ اس بنیاد پر ایک طرف اس نے پاکستان سے کسی معنی خیز بات چیت سے انکار کیا ہے تو عالمی سطح پر پاکستان کو سفارتی طور سے تنہا کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ بھارت کو اپنے حجم اور معاشی و سفارتی دسترس کے باوجود اس مقصد میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔ اب پاکستان بھی بھارت کے خلاف یہی سفارتی مہم جوئی شروع کرنے کا اعلان کررہاہے۔
گزشتہ ماہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں کے ثبوتوں و شواہد پر مشتمل ایک ’ڈوزئیر‘ جاری کیا تھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ’ناقابل تردید‘ ثبوت موجود ہیں۔ اب آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اسی ڈوزئیر کو اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کے سامنے پیش کرنے اور بھارت کے خلاف سفارتی کوششیں تیز کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے خاص طور سے بھارت کی فوجی تیاری، اسلحہ کی خریداری اور پروپیگنڈا حکمت عملی کو علاقائی امن و سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور اسٹریٹیجک عدم توازن کا سبب قرار دیا ہے۔ ترجمان کا دعویٰ ہے کہ اس کے برعکس پاکستان اور چین کا تعاون علاقے میں امن و استحکام کا موجب ہے۔
ایک ہی تصویر کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہوئے اسی قسم کا نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کا کوئی ترجمان پاک چین تعاون کو برصغیر میں امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے گا اور بھارت کو ان دونوں ملکوں کی ’توسیع پسندی‘ کا نشانہ بناکر پیش کرے گا۔ خطے میں موجود حالات کو کسی ایک ملک یا واقعہ سے منسلک کرکے مجموعی صورت حال کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی الزام تراشی کے موجودہ ماحول میں بہتری اور مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مذاکرات ہی واحد ذریعہ ہیں لیکن پاکستان اور بھارت فی الوقت میز پر بیٹھنے ، اپنی بات سمجھانے اور دوسرے کی سننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک بڑ ی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے معاشی اور سفارتی تعلقات انہیں مخالف سمتوں میں کھینچ رہے ہیں۔ بھارت کا اپنی معیشت اور علاقائی بالادستی استوار کرنےکے لئے امریکہ پر انحصار بڑھ چکا ہے ۔ وہ ایک طرف اس کا دفاعی شراکت دار ہے تو دوسری طرف بھارتی حکومت کارپوریٹ امریکہ کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو ملکی معیشت کے لئے اہم سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا امریکہ پر انحصار کم ہؤا ہے، اس کی بجائے اب چین پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ سی پیک منصوبہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مضبوط ستون کی صورت اختیار کرچکا ہے تو اس کے ساتھ ہی امریکی و بھارتی حکومتیں اسے اپنےمعاشی و اسٹریٹیجک مفادات سے متصادم سمجھتی ہیں۔
برصغیرکے دو ملکوں کا تناؤ دراصل اب دنیا کی دو بڑ ی معیشتوں کے درمیان کھینچاتانی کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ فی الوقت امریکہ پاکستان پر دباؤ کے ذریعے سی پیک کو مؤخر کروانا چاہتا ہے جبکہ بھارت تخریبی کارروائیوں اور پاکستان دشمن عناصر کی امداد کے ذریعے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے اپنے انٹرویو میں انہی بھارتی کوششوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ پاکستان کو کئی محاذ پر بھارتی جارحیت کا سامنا ہے۔ ان میں سی پیک کے خلاف تخریب کاری، کارکنوں پر حملے، لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کے علاوہ ففتھ جنریشن وار میں شدت شامل ہے۔ ان کے بقول پاکستان اور اس کے اداروں کو مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان ان حملوں کا جواب ’شفافیت اور درست معلومات ‘ سامنے لا کر دیتا ہے۔
معیشت، سفارت کاری، علاقائی مفادات اور اسٹریٹیجک ضرورتوں کے اس ماحول میں یہ بات تو طے ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر فریقین کو مل بیٹھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے۔ چینی حکومت کی بنیادی حکمت عملی معاشی تعاون بڑھا کر سیاسی و سفارتی پوزیشن مضبوط کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے اور امریکہ کے ساتھ بھی اقتصادی تعلقات کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی اپنی تمام تر چین دشمنی کے باوجود کبھی چین کے ساتھ بر اہ راست تصادم کی خواہش نہیں کرے گا۔ ضرورت پڑنے پر دونوں ممالک کسی بھی موضوع پر بات چیت پر بھی آمادہ ہوں گے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کی حکومتیں عوام کے اذہان کو اپنے اہم ہمسایہ ملک کے بارے میں مسلسل زہرآلود کررہی ہیں۔ اس طرح سفارتی و سیاسی تنازعہ و اختلاف کی صورت حال باہمی نفرتوں میں تبدیل ہورہی ہے۔ برصغیر میں پائیدار امن اور پاکستان و بھارت تنازعات حل کرنےکے لئے اس نفرت کو کم کرنا اہم ہوگا۔ اس وقت دونوں ممالک مخالف سمت جانے پر مصر ہیں۔
پاکستان کے دو اہم نمائیندوں نے جو بیانات دیے ہیں، ان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سارا فوکس بھارت پر ہے۔ اسلام آباد اپنی تمام تر وسائل و صلاحیت اسی ایک دشمن سے ’نمٹنے‘ پر صرف کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ بھارت کی جارحیت و انسان دشمنی کے نام پر تیار کی گئی رائے عامہ کے لئے تو یہ حکمت عملی مناسب اور قابل قبول ہوگی لیکن کیا یہ پالیسی علاقے میں پائیدار امن اور پاکستان کے محفوظ معاشی مستقبل کے لئے بھی مناسب ہوگی؟ پاکستان کو بھارت پر توجہ مبذول کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور ہمسایہ ملکوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ خاص طور سے امریکہ میں جو بائیڈن کے برسر اقتدار آنےکے بعد مشرق وسطی، ایران اور جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ پاکستان خطے کا اہم ملک ہے۔ اسے ان تبدیلیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان سے پاکستان کے لئے نئے امکانات بھی پیدا ہوں گے اور وہ ماضی کی بعض غلطیوں سے ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی کرسکے گا۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت دشمنی کے روائیتی طریقے کو تبدیل کیا جائے۔ اور سفارتی کامیابی و کامرانی کا مرکز و محور صرف بین الافغان مفاہمت کو نہ سمجھ لیا جائے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ’ بھارت اب اپنی ہی مشکلوں میں گھرا ہؤا ہے ۔ پاکستان کو بھارت کی طرف سے جنگ کا کوئی بہت بڑ ا خطرہ نہیں ہے۔ اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات ملک کے لیے سب سے بڑا اندیشہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے ‘۔ ان کا مشورہ ہے کہ ’پاکستان آرام سے بیٹھ جائے کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے‘۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایک تجربہ کار جنرل اور سفارت کار کی اس رائے پر غور کرنا چاہئے۔ اس طرح بھارت کو واحد اور اصل دشمن سمجھنے کے دباؤ سے نکل کر دیگر خطرات و امکانات کا احاطہ کیا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali