چین میں می ٹو مہم: مشہور ٹی وی اینکر کے خلاف جنسی ہراسانی کے مقدمے کی سماعت کا آغاز


Zhou Xiaoxuan
ژاؤ شیاشوان، جنھیں شیان زی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ٹیلی ویژن کے ایک معروف میزبان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں (اینکر) نے انھیں سنہ 2014 میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا
چین میں مبینہ جنسی ہراسانی کے واقعے کے چھ سال بعد بدھ کو بالآخر ایک مقامی عدالت نے اس کیس کی پہلی سماعت کی اور بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ کیس چین میں ’می ٹو‘ تحریک کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

ژاؤ شیاشوان، جنھیں شیان زی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ٹیلی ویژن کے ایک معروف میزبان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں (اینکر) نے انھیں سنہ 2014 میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔

تاہم ملزم نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ انھوں نے شیان زی ان کی ساکھ اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت ہرجانے کا دعویٰ بھی دائر کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں اس سطح تک جانے والا یہ بہت کم کیسز میں سے ایک ہے اور اس سے بہت سی چیزیں داؤ پر لگی ہیں۔

یاد رہے کہ اس کیس کی عدالتی کارروائی عام نہیں کی جائے گی۔ بدھ کو سماعت سے قبل شیان زی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’جو کچھ بھی ہو گا انھیں اس پر پچھتاوا نہیں ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

دفتروں میں جنسی ہراس کیا ہے؟

’میں بے باک لڑکی ہوں لیکن اس لمحے میرا سانس رُک گیا‘

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں جیت گئی تو اس سے دوسری عورتوں کو حوصلہ ملے گا کہ وہ سامنے آئیں اور اپنی کہانی سنائیں اور اگر میں ہار گئی تو میں اس وقت تک اپیل کرتی رہوں گی جب تک مجھے انصاف نہیں مل جاتا۔‘

بدھ کے روز ہیڈیئن ضلعی عدالت کے باہر تقریباً 100 افراد جمع ہوئے اور انھوں نے شیان زی کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ان میں سے اکثر نے ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ’ہم تاریخ سے جواب ملنے تک آپ کا انتظار کریں گے۔‘

می ٹو مہم

سنہ 2018 کی گرمیوں میں جب شیان زی کو پتا چلا کہ ہالی وڈ کے پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ ’وی چیٹ‘ پر بیان کریں گی، انھوں نے ایسا اپنی سہیلی کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کیا جو خود بھی ایک ریپ متاثرہ خاتون ہیں۔

اپنے تین ہزار الفاظ کے مضمون میں 25 سالہ خاتون نے بتایا کہ سنہ 2014 میں انھیں مبینہ طور پر چینی ٹیلی ویژن کے مشہور براڈ کاسٹر ’ژو جُون‘ نے جنسی طور پر ہراساں کیا۔ شیان زی کا الزام ہے کہ انھوں نے مقامی پولیس سٹیشن میں شکایت کی تاہم ان کے دعوے کو رد کر دیا گیا کہ ژو جُون ایک نمایاں ٹیلی ویژن میزبان ہیں اور ان کا معاشرے میں کافی مثبت اثر و رسوخ ہے اس لیے وہ اس بارے میں دوبارہ سوچ لیں۔

شیان زی کی تحریر جلد ہی چینی انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی جس کے بعد جنسی ہراسانی کا یہ معاملہ چینی میڈیا پر موضوع بحث بن گیا اور اس کی وجہ امریکہ اور یورپ میں کامیاب می ٹو تحریک اور چین میں بھی کچھ کامیاب شکایات کو سمجھا جاتا ہے۔

اسی برس بیجنگ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو ایک سابقہ طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا، جبکہ کچھ مہینے بعد ایک فلاحی ادارے کے سربراہ عطیات جمع کرنے کی مہم کے دوران سنہ 2015 میں ایک رضاکار کو ریپ کرنے کے الزامات کے تحت مستعفیٰ ہو گئے۔

یہ تصویر بیہانگ یونیورسٹی میں جنوری 17 2018 کو لی گئی تھی

یونیورسٹی کی طالبہ نے پروفیسر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا جس کے بعد وہ مستعفی ہو گئے

چینی میڈیا نے بھی شیان زی کی شکایت میں کافی دلچسپی لی کیونکہ انھوں نے جس شخص پر الزام لگایا تھا وہ ہر گھر میں پہچانے جاتے تھے۔ ’کئی خواتین اور مردوں نے اس الزام پر یقین کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ بہت جلد ہی مجھے بتایا گیا کہ میڈیا کو اس واقعہ کی رپورٹنگ سے منع کر دیا گیا ہے۔‘

کچھ ہفتوں بعد ژو جُون نے شیان زی اور ژو چاؤ کے خلاف اپنی ساکھ اور ذہنی صحت کو متاثر کرنے کے الزام میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ افسوسناک طور پر یہ وہ وقت تھا جب اس کہانی نے چینی میڈیا میں بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی۔ شیان زی کا کہنا تھا کہ ہراسانی سے متاثرہ سینکڑوں افراد نے ان کے ساتھ سوشل میڈیا پر رابطہ کیا ہے۔

ژو جن

ژو جن ایک مقبول ٹیلی ویژن میزبان ہیں

شیان زی نے بدھ کو سماعت سے قبل بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نے مجھے بہت نقصان پہنچایا، ایک موقع پر مجھے مجرم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ میں ایک ذہنی مریض ہوں اور مجھے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ میں ایک نارمل انسان ہوں۔‘

’سنہ 2014 میں ہونے والے واقعے کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے مجھے بار بار اس لمحے کو جینا پڑا اور ہر مرتبہ مجھے اذیت اور استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ژو چاؤ اب انگلینڈ میں زیر تعلیم ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر عدالت ژو جون کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں خواتین پر ہرجانے کا دعویٰ جاری رہے گا تاہم ان کا کہنا تھا ’میں دور رہ کر بھی اس مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

ژو جون مسلسل ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی نے ژو جون سے بات کرنے کی درخواست کی لیکن ان کے وکلا سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

’اب تک کوئی معذرت نہیں‘

زوشیان

’چینی قوانین کے مطابق کام کی جگہوں پر جنسی بدسلوکی ممنوع ہے لیکن اب تک جنسی ہراسانی کی کوئی قانونی تعریف سامنے نہیں آئی ہے۔‘

یہ کہنا تھا ڈیریئس لونگارینو کا جو پال سائی چائنا سینٹر میں چین میں اس طرح کے کسیز سے نمٹنے کے لیے قانونی نظام میں تبدیلی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا آج تک چین میں جنسی ہراسانی کے بہت کم معاملات ایسے ہیں جو سامنے آئے ہیں اور عدالت تک پہنچے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ درحقیقت جنسی ہراس کی اصطلاح سنہ 2005 میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کرنے والے قانون کی منظوری کے بعد سامنے آنا شروع ہوئی جس کے بعد سے مقامی اور صوبائی سطح پر اس کے نفاذ کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم زمینی حقائق دیکھے جائیں تو بہت کم تبدیلی آئی ہے۔

ایک مقامی این جی او بیجنگ یوان یونگ جینڈر ڈویلپمنٹ سینٹر کے مطابق چینی عدالتوں میں سنہ 2010 سے سنہ 2017 تک کے پانچ کروڑ مقدمات کے فیصلوں میں سے صرف 34 جنسی ہراسانی سے متعلق ہیں۔ ان میں سے صرف دو مقدمات ایسے ہیں جس میں متاثرین کو ہراساں کرنے والے کے خلاف مقدمات قائم کیے۔ دونوں ہی شواہد کی کمی کے باعث خارج کر دیے گئے۔

ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ چین میں چیزیں بدل رہی ہیں تاہم ایک ہائی پروفائل کیس میں گذشتہ برس ایک سوشل ورکر نے ایک تنظیم کے آمر کے خلاف جنوب مغربی چینی علاقے سے سیچوان میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا اور وہ جیت گئی تھیں۔ چینی میڈیا کے مطابق چین میں می ٹو تحریک کے آغاز کے بعد سے یہ پہلی قانونی کامیابی تھی۔

اگرچہ عدالت نے ملزم سے کہا کہ 15 دن میں معافی نامہ جمع کروائیں تاہم جولائی میں ایک رپورٹ کے مطابق مقدمہ جیتنے کے ایک سال بعد بھی متاثرہ خاتون اس کے انتظار میں ہیں۔

زمین پر بیٹھی خاتون

جنسی ہراسانی سے متعلق چند ہی کیسز چینی عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں

’اہم ترین لمحہ‘

مئی میں چینی اراکینِ پارلیمان نے ایک نیا سول کوڈ متعارف کروایا تھا جو یکم جنوری 2021 سے عمل میں آئے گا۔ اس کے تحت جنسی ہراس کی تعریف کچھ ایسے کی گئی ہے: ’کسی بھی شخص کی مرضی کے بغیر کیا گیا فعل چاہے وہ زبانی ہو، تحریری ہو، تصویر کے ذریعے یا پھر جسمانی حیثیت میں۔‘

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت، کمپنیاں اور سکول ایسے رویے کو روکنے کے لیے کوشش کریں۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ جنسی ہراس سے متاثرہ افراد کو محفوظ رکھنے کے لیے ابھی بھی ناکافی ہے۔ لونگارینو کا کہنا ہے کہ ’اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو ایسے دفاتر میں جنسی ہراس سے متعلق قوانین پر عمل کرنا ہو گا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

سنہ 2018 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ترقی یافتہ ساحلی شہروں سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ افراد کے مطابق 81 فیصد کمپنیوں کے پاس باضابطہ طور پر جنسی ہراسانی کی پالیسی موجود نہیں ہے جبکہ 12 فیصد کے پاس یہ پالیسی موجود ہے لیکن وہ اس پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ اس سروے کے مطابق سات فیصد افراد نے بتایا کہ ان کی کمپنیوں میں اس پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے۔

ان تمام کمپنیوں کے باوجود لونگارینو کا کہنا تھا کہ شیان زی کا کیس اگر یہاں تک بھی پہنچا ہے تو یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ چیزیں بدل رہی ہیں۔ ’اب یہ ایک اور انتہائی اہم ترین موڑ ہے جہاں ہم یہ دیکھیں گے کہ عدالتوں میں منصفانہ کارروائی ہوتی ہے یا نہیں۔‘

’صرف تب ہی ہم یہ کہہ سکیں گے کہ جنسی ہراسانی سے متاثرہ افراد کو معنی خیز حفاظت مل گئی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp