کم سن ماہواری شادی کی سند ہے؟


میں نے چند روز قبل ایک مرد اور عورت کو بحث کرتے سنا۔ ماجرا کچھ ایسا تھا کہ ایک آدمی کی موت کا تذکرہ کیا جا رہا تھا۔ جس کی موت کے غم میں بیوی اپنے حواس کھو چکی تھی۔ آدمی کی شادی کے وقت عمر پینتیس سال جبکہ دلہن کی عمر گیارہ برس معلوم ہوئی۔ اب وہ دو بچوں کی ماں اور عمر میں پندرہ برس کی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ خاتون اس بابت مبحث تھیں کہ ان کے سامنے بیٹھا شخص آخر کیسے ایک گیارہ سالہ کمسن لڑکی کی شادی کی مجرمانہ انداز میں حمایت کر سکتا تھا۔ جبکہ کم سن دلہن بارہ اور چودہ برس کی عمر میں متواتر حمل سے بھی رہی۔ جبکہ خاتون کے روبرو بیٹھا شخص گیارہ سالہ کم سن لڑکی کی شادی کے حق میں مذہبی نوعیت کے دلائل بنا تحقیق کیے فخریہ انداز میں پیش کرتا رہا۔

اب پندرہ برس کی عمر میں معصوم بچی بیوہ ہو چکی تھی جس کی شادی غالباً اس کے تیس بتیس سالہ برادر نسبتی جو مرحوم کا چھوٹا بھائی تھا سے بھی طے کر دی گئی تھی۔ جیسے ہی عدت ختم ہوگی بچی کا دوبارہ سے نکاح کر دیا جائے گا۔ مجھ سے کافی دور میز پر بیٹھی خاتون کی دانش یہ بات قبول ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ اس دور میں میمنے اور معاشرے میں بچی کے حقوق ایک جیسے ہیں بھی یا نہیں۔ جس کو جس گلی لگاؤ وہ لگ جاتی ہے، جس جگہ سے باندھو بندھ جاتی ہے۔

بڑا بھائی تو کبھی چھوٹا بھائی۔ بڑا نہیں رہا تو چھوٹا ہی سہی جب تک ماہواری آتی رہے گی ایک سے دوسرے کے عقد میں وہ منتقل ہوتی رہے گی۔ قصہ مختصر ہیجانی طلب مکمل ہوتی رہے اور اولاد نرینہ کے حصول کی جدوجہد بھی جاری رہے۔ جب تک متوقع عدد حاصل نہ ہوں، عورت کے رحم سے جنم ہوتے رہیں یہاں تک کہ اس کا اپنا جنم ختم ہو جائے۔

یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارا معاشرتی سانحہ ہے جو ہر روز وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کسی ایک کم سن لڑکی یا عورت کی ہی کہانی نہیں بلکہ ہمارے بیچ موجود بہت سوں کی روداد ہے جو کسی نہ کسی موقع پر بندھنے کے خدشے میں مبتلا رہتی ہیں۔ پاکستان میں سنہ 2017 کے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق دس سے اٹھارہ سال سے کم عمر ”شادی شدہ“ بچیوں کی تعداد اٹھارہ فیصد تھی۔ جن میں پیدائش سے سترہ برس کی بچیوں کی تعداد 38,006,294 جبکہ پیدائش سے انیس سال کی بچیوں کی تعداد 18,844,204 تھی۔ جس کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر شادی شدہ بچیوں کی تعداد اڑسٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک بڑی عمر کا آدمی کسی کم سن سے شادی کیوں کرتا ہے۔ چار چار سال کی چار ہوں ہوں سولہ سال کی بے شمار، ایک عورت کا بدن ہو اور اس کے کئی ٹکرے ہوں، تب تلک ہوں تب تک اس کی زندگی جواب دے کر فنا نہ ہو جائے۔

یہ سوچئے گا بھی مت کہ ایسی شادیاں یتیم بچیوں کی کفالت یا انسانی ہمدردی کے نام پر کی جاتی ہیں۔ اگر کسی نے نیکی کمانی ہے تو کم عمر لڑکیوں سے کوسوں میل دور رہ کر ان پر بری نظر رکھے بنا بھی ان کی معاشی ذمہ داری اٹھائی جا سکتی ہے، جس کی مہذب دنیا میں بے تحاشا امثال موجود ہیں۔ ہمارے درمیان ہماری عاقبت کی اسناد تقسیم کرنے والے پیش علماء اور عمائدین خاندان کم عمر بچیوں کے نکاح کو کفالت کے علاوہ محبت کے نام پر بھی جائز قرار دیتے نہیں شرماتے۔

ان میں پدرسری کا نتھرا پانی نوش کرنے والی معدوم تعداد میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ ایک کم سن بچی کو لے کر رومانوی خواہشات رکھنے والے آدمی کے خصائل سے واقفیت رکھ کر اس کو انجام تک پہنچانا سمجھدار اور معقول سماج کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے ورنہ انجام تو ہر روز ہمارے سامنے ہوتا ہی ہے۔ کم سن اور بالغ اور عمر میں بہت بڑے مرد اور عورت سے شادی اس لئے غیر اخلاقی اور مجرمانہ ہے کہ بچی اور بچے کو تعلیم اور زندگی میں عاقل اور کامل ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ کس کے ساتھ رہنا ہے، کون کیسا ہے، دنیا کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے کے بہت سے سوال تلاشنے اور سمجھ بوجھ آنے میں پختگی اور ذہنی دانست درکار ہوتی ہے۔ زندگی کا آغاز ہی ہم بستری اور حمل سے ہوگا تو ریاست کی وہ شہری اپنے حقوق اور فرائض نہیں نبھا پائے گی۔

مجھے بہت اچھے سے ادراک ہے کہ بظاہر غیرت کے خدا، بیٹیوں کی پہلی ماہواری کے منتظر رہتے ہیں کہ کم سن بیٹی جو بیوی کے رحم میں بیٹے میں تبدیل نہیں ہوئی، جس کو پیٹ میں تلف نہیں کیا جا سکا، کب اس کا رحم لہو کی دھاریاں گرانا شروع کرے اور کب کسی اپنے جیسے، اپنے ہم عمر مرد کے عقد جو لڑکی کی لحد سے کم نہیں ہوتا میں دے دیا جائے۔ گیارہ بارہ سالہ بچیاں جب نکاح کی پہلی شب اپنے نازک بافت ریزہ ریزہ ہوتے دیکھتی اور درد کے پھوٹتے شرارے محسوس کرتی ہوں گی، کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ لمحے معصوم بیٹیوں پر کیسے گزرتے ہوں گے۔

وہ ”مشفق“ باپ اور غیرت مند بھائی جو کم سن لڑکیوں کو اپنے جیسے آدمیوں سے قانونی ہم بستری کے لئے پیش کرتے ہیں، کبھی ایسی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں نہ ہی کبھی چاہیں گے کیونکہ یہ ان کے سر کا درد نہیں جب تک ان کی انا روایت کی دی گئی تاویل کی ہنڈیا پر پکتی نہ رہے۔ ایک دس سالہ بچی اسکول جائے تو پدرشاہی کے افتخار کو ٹھیس پہنچتی ہے مگر اس معصوم سے کوئی نکاح کے عوض مباشرت کرے تو احترام اور عظمت بڑھ جاتا ہے۔

صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ بیٹیوں کی پہلی ماہواری پر تاک لگانے سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی مناسب کام کیا جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسے افراد اپنی سو بیٹیاں بھی خود ساختہ عزت پر قربان کریں گے جو کہ کرتے بھی آئے ہیں۔ یہی لوگ معاشرے میں بربادی کا قرہ لئے بچوں اور عورتوں پر ہیجانیت زدہ ہیولے بن کر منڈلاتے ہیں۔ آخر میں اتنا کہوں گی بچیوں کی ماہواری فطرتی عمل ہے، خلوت اور تولیدگی کی سند نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).