ہمالہ سے اونچی اور سمندر سے گہری دوستی کے بارے میں کچھ میدانی باتیں


کہا جاتا ہے کہ محبت میں انسان اندھا ہوجاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ محبت کرنے والوں کو اگر ان کے محبوب کی کوئی برائی بتائی جائے تو ایسا کرنے والے ان کو زہر لگتے ہیں۔ عموماً ایسینیکی مہنگی پڑجاتی ہے۔ جس کی برائی بتائی جائے خبر فوراً اس تک پہنچ جاتی ہے اور وہ فوراً ’خبری‘ کی خبر لے لیتا ہے۔ محبت اندھی جو ہوتی ہے۔ بعض اوقات دوستی بھی اندھی ہوجاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دوست کی برائی دوسرے دوست کو

بتائی جائے تو وہ فوراً راشن پانی لے کر ایسا کرنے والے پر چڑھ جاتا ہے۔ جب بات ہو عالمی سیاست کی تو دوستی اور محبت اب بڑی حد تک عنقا نظر آتی ہے۔ ماضی میں دوستی اور محبت نے بڑی بڑی ریاستوں کو زمین بوس کیا۔ جرمنی کے قیصر ولیم نے اپنے دوست کے قتل کا بدلہ لینے کے چکر میں اپنی حکومت گنوائی اور ترکی کے خلیفہ نے ولیم کی دوستی میں خلافت عثمانیہ کو جنگ میں جھونکا۔ خیر کچھ بھی کہئے مگر یہ سب اصولی مردانگی کی مثالیں تو ہیں ہی اور جنگ عظیم اول کے قصے میں کم از کم دوستی ہر جانب سے نبہائی توگئی ہے مگر ایک صورت وہ بھی ہوتی ہے کہ جب ایک فریق تو کسی کو اپنا دوست اور خیر خواہ تصور کرے مگر دوسرا صرف مفادات کی خاطر تعلق قائم رکھے۔ عالمی سیاست اب ہے ہی مفادات پر مبنی تعلقات کا نام۔

چند ملکوں کا نام ہمارے ملک میں بڑی محبت اورخلوص سے لیا جاتا ہے۔ ان سے کسی کو یہ نہیں لگتا کہ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے یا ان کا پاکستان کے ساتھ کچھ برا کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک اہم بات اس ضمن میں یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ دوسرے کا ارادہ برا ہی ہو مگر ہم کیوں کسی بھی ملک کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر کسی مروت میں آ جاتے ہیں یا ڈر جاتے ہیں؟ پھر ایک بات سوچنے کی یہ بھی ہے کہ جس ملک کا اپنے ملک کے باسیوں کے ساتھ جو رویہ وہ عالمی معاملات میں اس سے برا ہی کچھ کسی غیر ملک کے ساتھ کر سکتا ہے، اس سے اچھا تو نہیں کر سکتا۔

اور چین اپنے وطن میں کیا کرتا ہے؟ جی ہاں چین۔ یہ تمہید میں چین ہی کی بابت کچھ معروضات پیش کرنے کے لئے باندھ رہا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ پاک چین دوستی ہمالہ کی اونچائی سے بھی زیادہ اونچی ہے اور سمندر کی گہرائی سے بھی زیادہ گہری ہے مگر پھر بھی اس بلندی اور گہرائی کے بجائے کچھ میدانی باتیں ہوجائیں تو شاید زیادہ بہتر ہے۔

ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان (کم از کم دعوے کی حد تک ہی) ایک اسلامی جمہوریہ ہے جس کا وجود ہی دین کے نام پر ہوا تھا اور اسے سارے عالم میں اہل اسلام کی سب سے مضبوط آواز بننا تھا۔ ہم سارے عالم کے مسلمانوں کی پشت پناہ کیا بنتے ہم تو برصغیر کے مسلمانوں کے حقیقی حامی بھی نہ بن سکے۔ کشمیر تو اصولاً ہمارے ہی ملک کا نقشہ ہے مگر ہم تو اپنے وطن کے اس حصے کے محکوم عوام کی بھی حمایت نہ کرسکے۔ کیا ہمارے ملک کے عوام میانمار کے مسلمانوں کا غم محسوس نہیں کرتے؟

کیا ہمارے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ہزاروں لاکھوں سوشل میڈیا پوسٹس نہیں ہوئی تھیں؟ (کیونکہ اب تو ہم سب کچھ صرف سماجی میڈیا پر ہی کرنے کے قابل بچے ہیں ) تو کیا ہمارے معصوم عوام اور عظیم حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں کہ میانمار کے بودھ دہشت گردوں اور ظالم فوج کا حقیقی پشت پناہ کوئی اور نہیں چین ہی ہے۔ چین نے میانمار کے خلاف علمی برادری کے ہر اقدام میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

یادش بخیر میانمار بھی اسی one belt one route (OBOR) منصوبے کا حصہ ہے جس کا ایک حصہ CPECبھی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ میانمار سے مسلمانوں کے بے دخل کرنے کے عمل میں محض چین کی حمایت ہی شامل نہیں بلکہ امکانی طور پر یہ عمل کیا ہی جب گیا جب چین نے سبز جھنڈی دکھائی۔ یہ بات شاید حسن اتفاق معلوم ہو کہ چین کے قدم بڑی تیزی سے سری لنکا میں بھی گڑگئے ہیں اور سری لنکا بھی one belt one route (OBOR) کا حصہ ہے اور وہاں وہاں بھی چین نے ہوائی اڈے اور بندر گاہیں بنوائی ہیں۔ آج سے دو سال قبل وہاں بھی بدھ انتہا پسندی جس طرح بڑھی اور انٹی حلال مومنٹ کے علاوہ کینڈی کے مسلم کش فسادات بھی اس کی واضح نظیر ہیں۔ امکانی طور پر اس میں بھی چین کا ہی دخل ہے کیونکہ سری لنکا کے بودھ انتہا پسند بھی میانمار کی انتہا پسند بودھ تحریک سے منسلک ہیں۔

پھر سوال یہ بھی ہے کہ چین خود اپنے اندر بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟ عالمی میڈیا کے مطابق پچھلے چند سالوں میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کو چین جبراً indoctrination camps میں بھیج چکا ہے جہاں لوگوں کو دنوں مہینوں بلکہ سالوں تک رہنا پڑتا ہے اور سخت جبر سے چینی حب الوطنی ان میں بھری جاتی ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کو کہ گرفتار نہیں کیا گیا بس ”سدھارا“ جا رہا ہے۔ کیمپس میں بھیجے جانے کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

نیویارک ٹائمز کے مطابق اکتالیس سالہ عبد السلام محمد کو وہاں محض اس لیے بھیجا گیا انہوں نے ایک جنازے پر ایک قرآنی آیت کی تلاوت کردی تھی۔ کئی لوگوں کو ایسے کیمپس میں اس لیے بھیج دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اچانک داڑھی کیوں بڑھالی، کسی لڑکی نے پردہ کیوں شروع کر دیا، کسی نے شراب پینا کیوں چھوڑ دی، روزے رکھنے کیوں شروع کردیے، سڑک یا کسی عوامی مقام پر نماز کیوں پڑھی۔ ایغور مسلمانوں کو مسجد جانے کے لئے رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے۔

آسٹریلوی نیشنل یونیورسٹی کے مائیکل کلارک (جو کہ ایغور مسلمانوں کے علاقے ’جن جیانگ‘ پر ماہر کا درجہ رکھتے ہیں ) کے بقول ”ایغور قوم کا وجود ہی چین کے نذدیک ایک بیماری ہے۔“ کتنی عجیب بات ہے کہ جن جیانگ میں تو چین کی محض 1.7 فیصد آبادی رہتی ہے مگر پچھلے سال پورے ملک کی 02 فیصد گرفتاریاں اسی خطے میں ہوئیں۔ چین کے اس دور افتادہ علاقے میں مسلمان ہونا بڑی آزمائش ہے۔ لوگوں کو محض ایغور قوم کی تاریخ پڑھنے پر بھی غائب کر دیا جاتا ہے۔

مگر ان سب باتوں کے باوجود بھی ان مظلوم مسلمانوں حق میں کبھی کوئی کچھ بھی نہیں بولتا۔ اگر کوئی یہ حقائق بیان کرے تو اسے CPEC (یعنی پاکستان کی ترقی؟ ) کا دشمن قرار دیاجاتا ہے، امریکا اور بھارت کا حامی گردانا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمکسی بات پر اسرائیل، امریکا اور بھارت پر تنقید کرتے ہیں تو اسی بات پر ہم چین پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے وطن میں بہت سے لوگ 2012 ء میں کہا کرتے تھے کہ سماجی میڈیا پر میانمار کے حوالے سے آنے والی تما م ہی باتیں جھوٹ ہیں۔ مگر پھر ثابت یہ ہواتصاویر تو اکثر نقلی تھیں لیکن خبریں اصلی تھیں۔ تمام روہنگیا مسلمان بالآخر میانمار سے ملک بدر کیے گئے۔ بالکل اسی طرح ہمارے عوام و خواص کو آج ایغور مسلمان نظر ہیں نہیں آرہے۔ اگر چین میں مسلمانوں پر جبر کی بات جائے تو اسے چین کے دشمنوں کا گھڑا جھوٹ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔

پھر یہ CPEC جس کا اس قدر چرچہ ہے اس کی سلامتی کے لاحق ہر خطرے کو چین نے اپنی سلامتی کا خطرہ قرار دے دیا ہے۔ اور چین کی اس ’سلامتی‘ (یعنی CPECسے ) ہم کو مل بھی صرف انگریزی میں ”peanuts“ رہے ہیں۔ اگر کل کو چین کی سرخ فوج اپنی ’سلامتی‘ کے دفاع کے لئے سست بارڈر سے نیچے اترآئی تو پاکستانی عوام کمپنی بہادر اور برطانوی راج کی دو صدیوں کی ذلت و رسوائی کو بھول جائیں گے۔ چینی تو ویسے ہی سارے جاندار بڑے مزے سے کھا جاتے ہیں۔

ہم ان کی راہ گزر تو بن ہی گئے ہیں کہیں خدا نخواستہ کشور کمار کے گیت والا ’راستے کا پتھر‘ نہ بن جائیں۔ آزادی و خودمختاری سے بڑی اس دنیا میں بس ایک ہی نعمت ہے اور وہ ہے ایمان۔ غلامی میں ایمان کی نعمت بھی دھند زدہ ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستان بننے سے آج کے دن تک مکمل خود مختار تو کبھی ہوئے نہیں مگر اگر یہ محدود خود مختاری بھی ہم سے چھن گئی تو صدیوں تک ہماری نسلیں اسی طرح پچتائیں گی جیسے ایغور اور روہنگیا مسلمان اپنی ریاستوں کے چھن جانے کے بعد آج تک پچتارہے ہیں۔

ہم کو CPEC کا معاہدہ کرتے وقت کھرا دکاندار بن کر صرف اپنا فائدہ سوچنے کی ضرورت تھی مگر وہاں ہم دوست بن گئے اور ہم کو میانمار اور جن جیانگ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں سچے دوست بننے کی ضرورت تھی مگر وہاں چین کے سامنے کچھ بھی نہ بول کر ہم ایک ایسا دکاندا ربن گئے جس کو صرف اپنا سودا عزیز ہے۔ معلوم نہیں ہم اصل میں ہیں کیا؟ دکاندار، دوست یا راستے کا پتھر؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).