آخر جنوری ہی کیوں؟


پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں کے کارواں نے ملتان میں پڑاؤ ڈالا اور کامیابیاں سمیٹنے کے بعد لاہور روانگی کے لیے اپنے خیمے اٹھا لیے۔ ملتان کے جلسے کو روکنے کا حکومتی اعلان حکومت کے لیے شرمندگی ثابت ہوا۔ سیاسی طور پر پختہ حکومت ایسے اعلانات نہیں کرتی کیونکہ عمومی طور پر عوامی جلسوں کو روکنا ناممکن ہوتا ہے۔ جلسہ روکنے کا اعلان ہونے کے بعد نہ روکے جانے کی صورت میں اسے اپوزیشن کی کامیابی سمجھا جاتا ہے جو اس مرتبہ بھی ہوا۔

بظاہر ملتان کا جلسہ حکومت کی پسپائی اور اپوزیشن کی کامیابی تھی لیکن معاملات کا بغور جائزہ لینے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلسے سے چند گھنٹے قبل اپوزیشن کو کھلی چھٹی دے دینا دراصل کسی بیک ڈور سمجھوتے کی وجہ تھی۔ اس مفروضے کو تقویت اس وقت ملی جب ملتان جلسے میں موجود پی ڈی ایم قائدین کی تقریریں سامنے آئیں۔ مریم نواز کے علاوہ پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں نے لو پروفائل کے ساتھ اپنا بیانیہ پیش کیا۔ یہاں تک کہ آصفہ بھٹو کی پہلے سے تیار کی ہوئی تقریر میں بھی سلیکٹرز کا لفظ کہیں موجود نہیں تھا۔

انہوں نے پوری تقریر میں ایک مرتبہ بھی سلیکٹرز کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ صرف سلیکٹڈ کو مخاطب کیا۔ مولانا فضل الرحمان کے ہاں بھی اس مرتبہ وہ جاہ و جلال نہیں پایا گیا جو ان کا کوئٹہ کراچی اور پشاور کے جلسوں کا خاصہ تھا۔ مزید یہ کہ مولانا فضل الرحمان، مریم نواز اور آصفہ بھٹو کی تقاریر کے علاوہ بلوچستان سندھ کے پی کے سمیت کسی اور رہنما کی تقریر براہ راست بعض چینلز پر نشر بھی نہیں کی گئی۔ پی ڈی ایم کے اس تقریری جلسے کو مریم نواز کے علاوہ ڈھیلی ڈھالی تقریروں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے ملتان پہنچنے پر جس شور شرابے کی توقع تھی وہ جلسے سے پہلے جلسہ کروانے کی جدوجہد میں ضرور نظر آیا لیکن جلسے کے سٹیج سے اٹھنے والے ٹھنڈے شعلے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ کہیں یوسف رضا گیلانی اینڈ کو نے اپنی مستقبل کی سیاست کو بچانے کے لیے خاص کارنرز کے ساتھ یہ سمجھوتہ کر لیا ہو کہ ملتان کے پی ڈی ایم جلسے سے اداروں اور اعلیٰ شخصیات کے خلاف تقاریر نہیں ہوں گی اور شاید اسی بناء پر جلسے کے میزبان یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کا ملتان میں جلسہ کرنے کی اجازت ملی ہوگی۔

یہ علیحدہ بات کہ مریم نواز ان کے سمجھوتے کا گھیرا توڑ کر باہر نکل گئیں اور دیگر باتوں کے علاوہ دو سلیکٹروں کا کہہ کر چہ میگوئیوں کا پھاٹک بھی کھول دیا۔ ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کی دوسری خاص بات آصفہ بھٹو کی پہلی سیاسی تقریر ہے۔ یعنی ملتان کے جلسے سے آصفہ بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی، بینظیر بھٹو کی بیٹی، آصف علی زرداری کی بیٹی اور بلاول بھٹو کی بہن کی مناسبت سے آصفہ بھٹو کی شخصیت اس جلسے میں بیشک خاص توجہ کا مرکز مانی جانی چاہیے لیکن مواد اور ڈیلیوری کے اعتبار سے ان کی تقریر ایک بڑے سیاسی خاندان کے رکن کی تقریر نہیں تھی۔

اگر کوئی کہے کہ آصفہ بھٹو کی یہ پہلی تقریر تھی تب بھی اپنی پہلی تقریر کی تیاری کے اعتبار سے یہ مکمل نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی کے کارکن آصفہ بھٹو سے جذباتی وابستگی کے حوالے سے ان کی تقریر پر کسی کمنٹس پر مائنڈ کریں لیکن ایک بڑے سیاسی خاندان کے رکن سے پہلی تقریر کے ساتھ بھی لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ ملتان کے جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے جمعہ ہفتہ اور اتوار کو ملک بھر میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ان کے اس فوری اعلان سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آیا یہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا اجتماعی فیصلہ ہے یا حسب روایت اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے اپنے انفرادی فیصلے کو پی ڈی ایم کے سٹیج سے اناؤنس کر دیا ہے؟ پی ڈی ایم نے اپنے جلسوں کا جو ہائی پروفائل لیول بنا لیا ہے اس میں ہلکی سی بھی کمی حکومت کو ہنسنے کا موقع دے سکتی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان کے جمعہ ہفتہ اور اتوار کے جلسوں کے اعلان میں ایسا خدشہ موجود ہے۔

مولانا فضل الرحمان پچھلے برس اسلام آباد میں اپنی جماعت کے دھرنے کے خاتمے پر ایسے اعلانات کرچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے ہاں جلدبازی کے ایسے اعلانات کو لپیٹتے وقت زیادہ شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا لیکن پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیے جمعہ ہفتہ اور اتوار کے جلسوں کی ناکامی کی شرمندگی کو سمیٹنا مشکل ہوگا۔ پی ڈی ایم کے ان جلسوں کے آخری پڑاؤ کا وقت آن پہنچا ہے جو کہ لاہور میں 13 دسمبر کو منعقد ہوگا۔

جب پی ڈی ایم نے اپنے احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا تھا تو ان کے دعوے تھے کہ لاہور کے جلسے سے پہلے ہی موجودہ حکومت رخصت ہو جائے گی۔ اب لاہور کا جلسہ قریب ہے۔ اگر لاہور کے جلسے کے بعد بھی موجودہ حکومت کی چھٹی نہ ہوئی تو پی ڈی ایم اپنے دعوے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرے گی جس کی گونج ملتان کے جلسے میں سنائی دینی شروع ہو گئی ہے۔ مثلاً ملتان میں پی ڈی ایم کے قائدین نے پی ٹی آئی کو غیرت دلواتے ہوئے کہا کہ وہ خود حکومت چھوڑ کر چلے جائیں۔

اس حوالے سے اگر پی ڈی ایم والا کوئی رہنما بتا سکے کہ کبھی کوئی خود حکومت چھوڑ کر گیا ہے تو پی ٹی آئی کو بھی یہ عرضی دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے قائدین نے لاہور کے جلسے کے بعد اسلام آباد کی طرف سفر کا اشارہ دیا۔ گویا پی ڈی ایم والوں کو کچھ کچھ پتا چل گیا ہے کہ لاہور 13 دسمبر کے جلسے کے بعد بھی ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ پی ڈی ایم کے قیام اور احتجاجی جلسوں کے دعوؤں کے بعد یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت کی رخصتی کی تاریخیں جنوری سے مشروط کیوں کر رکھی ہیں؟ آخر جنوری میں کس بات کا امکان ہے جس سے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت ختم ہو سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).