تعلیم کو چار فیصد دو اور قوم کو سدھار لو


اکثر لوگ سائنس کی زبان کو ہضم نہیں کر پاتے کیونکہ وہ عام فہم اور سمجھ سے باہر ہوتی ہے۔ دنیا میں کم لوگ ہوں گے جو سائنس کی بھول بھلیاں سمجھ سکے ہیں۔ لیکن سائنس اپنے اندر بہت طاقت رکھتی ہے جس کی وجہ سے ہم سہولیات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ دنیا میں اکثر سیاسی یا عسکری لیڈروں کو نیوکلیر فزکس کا نہیں پتہ البتہ بم کے اثرات کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ سولہوی صدی میں مشہور فلسفی فرانسس بیکن نے ایک سائنسی مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”نیا آلہ“ جس میں وہ لکھتا ہے کہ علم طاقت ہے اور علم کا معیار سچائی ہرگز نہیں بلکہ یہ انسان کو طاقتور بنا دیتا ہے۔

سچائی کی تلاش وہ طاقت ہے جس کی وجہ سے آج ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ تقریباً پانچ سو سال پہلے سائنس کی اہمیت اتنی نہیں تھی بلکہ اس کو زندگی سے الگ پہلو سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ اٹھارہویں صدی تک لوگ مضبوط عسکری طاقت اور کاروبار وغیرہ میں مہارت چاہتے تھے مگر سائنس پر خرچ نہیں کرتے تھے۔ عوامی نمائندے تعلیمی اداروں کو سہولیات فراہم کرتے تھے تاکہ ان کی روایات کو آگے لے جا سکیں اور صرف روایتی تعلیم دے سکیں۔

آج بھی اکثر پاکستانی تعلیمی ادارے اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں سائنس نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔ اس زمانے میں اکثر لوگ ان پڑھ تھے لیکن ٹیکنیکل کام جاننے کی وجہ سے چیزیں بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے حالانکہ نہ وہ سائنسی علم جانتے تھے نہ ہی ان کے پاس آج کے دور کی سہولیات تھی اور نہ ہی سائنسی ادارے۔ اس سب کے باوجود انھوں نے نت نئی یجادات کی۔ ’کبھی جہاز بنانے کی کوشش کی تو کبھی بجلی کا بلب اور ٹیلی فون بنایا۔

تاوئسٹ کیمیا دان Choe Museon نے آب حیات بناتے ہوئے گن پاوڈر بنا ڈالا جو قدیم چین میں عسکری قیادت یا فلسفی نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ ان کی ڈیوٹی میں نیا اسلحہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ سائنسی ارتقا سے پہلے انسان ترقی پہ یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ انسانی ترقی کا دور گزر چکا ہے اور کچھ چیزیں ناگزیر ہیں جیسا کہ غربت، بیماری اور قحط سالی وغیرہ۔ لیکن جب سائنس نے ان کے سارے مسائل حل کر دیے اور باور کرا دیا کہ ہر مسئلے کا حل علم میں پوشیدہ ہے بہت سی چیزیں جیسے کہ غربت، بیماری کا خاتمہ وغیرہ جو محض جہالت کی وجہ سے نا ممکن تھے اور اس وقت کے انسان کی یہ سوچ کہ آسمانی بجلی خدا کی کلہاڑی ہے جو گناہ گاروں پر گر رہی ہے۔ جس کو بعد میں بنجمن فرنکلین نے آسمانی بجلی چمکنے کے دوران پتنگ اڑا کے غلط ثابت کیا۔ اسی طرح ان ممالک میں سائنس نے صرف خطرناک ہتھیار نہیں بنائے اور نہ ہی صرف مورچے بنا کے بیٹھے بلکہ ان ممالک نے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ اس لیے امریکہ اربوں ڈالر نینو ٹیکنالوجی پر خرچ کر رہا ہے جس کا فائدہ اس کو بایونیک اسپائے فلائس کی شکل میں ہوا جس کی وجہ سے وہ افغانستان کے غاروں کے اندر کی معلومات حاصل کرتا ہے۔

ان ممالک نے اربوں ڈالر یونیورسٹیوں میں ریسرچ پروجیکٹ پر لگا رکھے ہیں۔ ناممکن کو ممکن بنانے اور روایتی سوچ کو بدل کر زندگی میں آسانیاں پیدا کیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ سوچ ابھی تک نہیں آئی۔ تعلیمی ادارے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں تعلیم پر سالانہ بہت کم خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کل بجٹ کا صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ہائر ایجوکیشن اصرار کر کے تھک چکی ہے کہ ”تعلیم کو چار فیصد دو، قوم کو سدھار دو“ ۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات ابھی تک نہیں بدلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).