یقینی سے بے یقینی کا سفر اور زندگی کی یکسانیت


زندگی میں کوئی بھی چیز بلیک اینڈ وائٹ اور کلیئر اینڈ کرسٹل نہیں ہوتی بلکہ یہ بہت سارے گرے ایریاز پر مشتمل ہوتی ہے اور انہی گرے ایریاز کی باریکی کو جاننے اور سمجھنے کا عمل دانائی کہلاتا ہے۔ دانائی کا سفر وسعت نظرو فکر اور قلب کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ دانائی کا سفر زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک ایسے جوہر کو کشید کرنے کا نام ہے جس کے ذریعے سے زندگی کی پراسرار تہہ میں اتر کر جاننے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔

سچائی کو ڈھونڈنے کے عمل کے دوران کتابیں ہماری راہنمائی کرتی ہیں اور ہمارے نقطہ نظر میں وسعت پیدا کرتی ہیں۔ لیکن فرانسس بیکن کے مطابق کتابیں صرف تھیوریٹیکل علم کا ذریعہ ہیں اور حقیقی علم زندگی کے وسیع تجربات اور مختلف الخیال لوگوں کے ساتھ گفت و شنید اور کثرت سفر سے حاصل ہوتا ہے۔ میں بیکن کے چند الفاظ کا حوالہ دینا چاہوں گا۔

”کتابیں علم سے سرفراز کرتی ہیں مگر وہ اس علم کا عملی استعمال نہیں سکھاتی۔
کتابوں کا عملی استعمال زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔
دانائی ہمیشہ کتابوں سے باہر موجود ہوتی ہے اور یہ کتابی علم سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
اس دانائی کو صرف زندگی کے سکول سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ”

سچائی اور علم کوئی فکس یا جامد چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک جہد مسلسل قسم کا عمل ہے۔ یقین کی منزل سے شروع ہونے والا یہ سفر بے یقینی اور بے چینی کے راستوں پر ڈال دیتا ہے اور ایک اچھے بھلے انسان کو یقین کے راستے سے ہٹا کر متشکک بنا دیتا ہے۔ روایتی لوگ روایتی کھلونوں سے بہل جاتے ہیں جبکہ غیر روایتی لوگ روٹین اور زندگی کی یکسانیت سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ وہ تحقیق و جستجو کی خار دار تار پر چلتے رہتے ہیں۔ ان کی نظر میں جاننے اور کھوجنے کا عمل ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ ہے۔

ایک علم کے طالب کی نظر میں ”ڈاؤٹ“ یعنی شک کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ڈاؤٹنگ ایٹی ٹیوڈ کی وجہ سے وہ ہمت اور جراءت پیدا ہوتی ہے جو ایک طالب کے لرننگ پراسس میں تحقیق کے نئے سے نئے در واکرتے چلی جاتی ہے۔ یہ زندگی کے طالب کے لیے ایک ایسا ”سٹیپنگ سٹون“ ہوتا ہے جو اسے بے خوف کر کے ”سٹیٹس کو“ چیلنج کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک طالب کو نئے سے نئے سوالات کھوجنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یہ یقین اور Dogmaکی مضبوط دیوار میں بڑے بڑے شگاف ڈال دیتا ہے بہت سے شاعر اور ادیب تو زندگی کی یکسانیت سے ہی تنگ آ جاتے ہیں اور انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں پر ایک نوجوان شاعر آنس معین کے ایک آخری خط کا حوالہ دینا چاہوں گا جو انہوں نے خود کشی سے پہلے اپنے والد کے نام لکھا تھا۔ آنس معین 29 نومبر 1960 ء میں پیدا ہوئے، 17 سال کی عمر میں 1977 ء میں شعری دنیا میں قدم رکھا اور 5 فروری 1986 ء کو 26 سال کی عمر میں خودکشی کر کے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ

”زندگی سے زیادہ عزیز امی اور پیارے ابوجان!

میری اس حرکت کی سوائے اس کے کوئی اور وجہ نہیں کہ میں زندگی کی یکسانیت سے اکتا گیا ہوں۔ کتاب زیست کا جو صفحہ بھی الٹتا ہوں اس پر وہی تحریر نظر آتی ہے جو پچھلے صفحے پر پڑھ چکا ہوتا ہوں۔ اس لیے میں نے ڈھیر سارے اوراق چھوڑ کر وہ تحریر پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے جو آخری صفحہ پر لکھی ہوئی ہے۔ ”

میں نے جب یہ خط پڑھا تو لرز کر رہ گیا کہ صرف زندگی کی 26 بہاروں نے اسے اتنا ذہنی بالغ بنا دیا تھا کہ وہ کتاب زیست کے صفحہ کو جلد جلد پڑھتا ہی چلا گیا اور جب اسے زندگی کی یک رنگی اور یکسانیت سے بوریت ہونے لگی تو اس نے کچھ اور نئے جہان کو کھوجنے کے لیے اپنی آنکھین ہی موند ہ لی۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے سماج کا یہ ذہین انسان ادراک کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے کتنا بے چین تھا بد قسمتی سے وہ ایک ایسے روایتی سماج میں پیدا ہو گیا تھا جہاں پر ”سر تسلیم خم“ کرنے کو فرما برداری اور سوال اٹھانے پر گستاخ ہونے کا فرمان جاری کر دیا جاتا ہے۔ ہائے آنس تم نے اپنے انداز میں ہمین ”یکسانیت“ کا مطلب سمجھا دیا لیکن اس بات کابہت افسوس رہے گا کہ ہم تم جیسے ایک بڑے ذہن سے محروم ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).