دیارِ غیر کی ڈائری (2)



مارچ 2008 کے آتے ہی ہمارے بچوں نے ان کے اسکول سے آئے ہوئے نوٹس پرایک ادھم مچا کر رکھا ہوا تھا کیوں کہ بچوں کو 23 مارچ یوم پاکستان کی مناسبت سے کپڑے پہنا کر بھیجنا ہے تاکہ پاکستانی بچے اس تاریخ کی اہمیت کو پہچانیں اور قدر کریں

چوں کہ ہمارے بچے ایک پاکستانی مینیجمنٹ غرناطہ انٹرنیشنل اسکول جدہ میں پڑھتے تھے اور ہم والدین نے بھی اپنی پسند کے حساب سے اپنے بچوں کو تیار کروا کراس دن بھیجنا تھا

تین چار دن پہلے ملے نوٹس پر ہنگامی تیاری کرنی تھی، سوچا کہ بیٹے کو شیروانی اور جناح کیپ خرید لیتے پر قائد بننا اور نظرآنا کس کو پسند نہیں لہذا عظیم شخصیت کی پہلے ہی بکنگ ہو چکی تھی پھر ہمارے صاحب زادے کو ان کے والد نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی جرسی سوٹ کے ساتھ اس کی کٹ اور بیٹی کو ڈاکٹروں والا لیب کوٹ اور میڈیکل ایپریٹس کھلونے کی کٹ دلائی، ہم دونوں میاں بیوی نے جدہ کے علاقے عزیزیہ کی مارکیٹ جہاں پاکستانی کیمیونٹی کافی زیادہ تعداد میں آباد ہے او اسی وجہ سے وہاں پاکستانی اشیاء آسانی سے دستیاب بھی ہوجاتی وہاں جاکر اس پوری شاپنگ کو مکمل اور بھرپور لطف اٹھایا

یہ گردش ہے زمانے کی میں تم سے دور ہوں لیکن
میں جتنا دور جاتا ہوں تم اتنا یاد آتے ہو

صبح ہمارے بچے اسکول کے جاگنے والے وقت سے پہلے ہی جاگے ہوئے تھے اور دونوں ہی خاصے پرجوش، ہم نے بھی ان کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی

تیاری کے دوران ہمارے صاحب زادے کافی مچل رہے تھے
امی مینار پاکستان کدھر ہے؟ ہمارے بیٹے نے ہم سے سوال کیا۔
لاہور میں ہے۔
یہ لاہور کہاں ملتا ہے؟
بیٹا یہ کوئی چیز نہیں یہ پاکستان کا ایک شہر ہے
بیٹے نے دوبارہ ہم سے کہا
تو کیا لاہورمیں بھی قائد اعظم سوتے ہیں؟
نہیں، ہم نے جواب دیا اور پھر ہم نے پوچھا کہ قائد اعظم اور ان کا وہاں سوتے رہنا کیوں پوچھ رہے؟
ہمارے بیٹے نے ہم کو کچھ یاد دلاتے ہوئے بولنا شروع کیا کہ

امی یاد ہے! ابھی جب ہم پاکستان گئے تھے توایک دفعہ آپ نے ہم سے کہا تھا جب ہم ٹیکسی سے رات میں واپس گھرجا رہے تھے تو دور سے ایک سفید رنگ کی گول گول سی چوکور بلڈنگ بہت برائٹ تھی ہم نے پوچھا تھا کہ یہاں بھی شادی ہوتی ہے؟

آپ نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ یہ گھر ہے اور آپ نے کہا تھا کہ پاکستان کے بابا کا گھر ہے، ہم نے آپ سے کہا بھی تھا کہ چلیں ابھی ان سے بھی چل کرملتے ہیں تو آپ نے کہا کہ وہ ابھی سو رہے ہیں، تنگ نہیں کرو رات بہت ہو گئی ہے سیدھا اپنے گھ چلتے ہیں بعد میں آئیں گے پھرآپ ہمیں لے کر بھی نہیں گئی تھیں، بیٹے نے ہم سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور مزید بولے کہ

کیا پاکستان کے بابا اس گھر میں اکیلے رہتے ہیں یا ان کے بچے بھی ہیں؟

ہم بیٹے کی اس بات پر مسکرائے کہ کیوں کہ ہم میاں بیوی دونوں کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے تو ہمارے صاحب زادے کراچی کو ہی پورا پاکستان سمجھتے اور یاد آیا کہ جس چمکتے سفید رنگ کے گول گول سی چوکور گھر کا ذکرکر رہے وہ قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار (مزار قائد) ہے

باتوں باتوں میں بچوں کے اسکول جانے کا وقت سر پر آ گیا اور بچے اپنے والد کے ساتھ اپنے اپنے پہنے ہوئے مختلف کپڑوں اور کٹس کے ساتھ بہت خوشی اورشور مچاتے ہوئے اسکول روانہ ہو گئے

کدھر بھاگے جا رہے ہو؟ کپڑے تو تبدیل کر کے باہرجاؤ

ہم نے اپنے بیٹے کو شام کے وقت اپنی بلڈنگ سے باہر سامنے جامعہ مسجد کے عقب میں بنی بڑی سی اوپن پارکنگ میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر شرارت سے روکتے ہوئے ہلکا سا تنگ کرنا چاہا کیوں کہ وہ اسکول کے 23 مارچ یوم پاکستان والے فنکشن کی واپسی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جرسی کٹ جو وہ پہنے ہوئے تھے اسے اتار ہی نہیں رہے اوراسکول سے آنے کے بعد شام ہونے کا انتظار بہت بے چینی سے کرے جا رہے تھے

نہیں امی! صاحب زادے نے انتہائی خوشی اور زور سے جواب دیا کہ ”آج سے یہی میرے کھیلنے کا کپڑا ہے میں یہ روز پہن کر شام میں باہرکھیلنے جایا کروں گا،

پتا ہے آپ کو صاحب زادے ہمارے بہت قریب آئے اوراپنی پہنی ہوئی سبزرنگ کی شرٹ پر اپنے ہاتھوں کی چھوٹی چھوٹی سی انگلیاں رکھتے ہوئے بہت خوشی سے اشارہ کرتے ہوئے ہم سے کہا کہ اس شرٹ پر میرے پاکستان کا فلیگ اسٹاراور مون بھی بنا ہے اور آج اسکول میں سارے ٹیچرز اور بڑے بچے کوئی مجھے چھوٹا کپتان عمران خان اور کوئی مجھے میانداد کہہ کر پکار رہے تھے

ہم اپنے بیٹے کی اس کے چہرے پر پھیلی خوشی سے محظوظ ہو رہے تھے

دروازے کی بیل بجی اور ہمارے صاحب زادے اپنی چھوٹی بہن کے ہمراہ بہت تیزی سے اپنے آئے ہوئے انڈین اور پاکستانی دوستوں کے ساتھ روز کی طرح باہر کھیلنے یہ جا وہ جا۔ دس منٹ بھی نہیں گزرے کہ  ہم کو زور زور سے ایک بچے کی آواز سنائی دی
امی بچائیں امی بچائیں
ہم نے کھڑکی سے باہر جھانکا کہ دیکھیں کہ کس کا بچہ پکار رہا ہے۔ دیکھا تو سکتے میں آ گئے کہ ہماری اپنی بیٹی گراؤنڈ سے دوڑتی روتی اپنی بلڈنگ کی طرف اپنے ننھے قدموں کی اسپیڈ کے ساتھ گرتی پڑتی ہم کو ہی پکاررہی تھی

ہم ابایا چڑھا کرفوراً نیچے باہرکی طرف بھاگے اوراپنی بیٹی کوگلے لگایا جو کہ گراؤنڈ کی طرف اپنے بھائی کی طرف ہمیں اشارہ کر کے کچھ بتانا چاہ رہی تھی

سامنے دیکھا کہ ہماری بلڈنگ کا چوکیدار جو دن بھر قریب کے رہائشیوں کی کھڑی گاڑیاں بھی صاف اور دھونے والا عبدالرشید جو انڈیا کیرالہ سے تعلق رکھتا تھا وہ ہمارے پانچ سالہ بیٹے کو ایک ہاتھ سے پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے گراؤنڈ میں موجود دوسرے عربی لڑکوں سے لڑتے انہیں دھکیلتا ہوا ہمارے بیٹے کو ساتھ لیے ہماری طرف آ رہا اور بیٹے کو ہمارے حوالے کرتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی ہندی اردو مکس میں بولا کہ آپ بچے گھر لے جاؤ۔

ہم نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو مستقل روئے جا رہا تھا اوراپنی بیٹی کو بھی چپ کرایا جو کہ اپنے بھائی کو پٹتے دیکھ کر روئی اور مدد کے لیے ہمیں پکارنے کو گھر کی طرف دوڑی۔ امی ہم سب بچے کرکٹ کھیل رہے تھے مسجد کے قریب والے مدرسے سے کچھ عربی لڑکے آئے میرا کرکٹ کا بلہ چھین کر اپنے پاس رکھ لیا اورمجھے تھپڑ مارتے جاتے اورمیری اس پیاری گرین کلر کی مون اور اسٹار والی شرٹ کو کھینچتے اور زور زور سے حرامی حرامی کہتے جا رہے اور آپس میں ہنستے جاتے۔ (عربی زبان میں حرامی کو چور کہا جاتا ہے)

ہمارا بیٹا گھر آ کر اپنی انتہائی پسندیدہ چمکتی سبز رنگ کی چاند تارے والی شرٹ کو اداسی کے ساتھ اتارتے اور روتے ہوئے اچانک چپ ہوا اور ہم سے اپنے معصوم لہجے میں پوچھا کہ ”امی! میں تو ان عربی لڑکوں کو جانتا بھی نہیں لیکن وہ سارے میری اس گرین شرٹ کو پکڑ کر میرے ساتھ ایسا کیوں کہہ رہے تھے؟

ہم آخر اس ننھے ذہن کو کتنا اور کیسے سمجھاتے کہ ”بیٹا ہمارے بزرگوں نے تو ہزاروں لاکھوں قربانیوں اور انتھک کوششوں کے بعد اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حاصل کرنے کے بعد اس کا نام اس دنیا کے نقشے پر لائے اور روشن کیا مگر اب اس کو چند ضمیر فروش اپنی چھوٹی بڑی خودغرض خواہشات کی تکمیل اور چند کرنسی کے ٹکڑوں کے خاطر ملک کے اندر اور ملک سے باہر برباد اور بدنام کرنے میں ذرا سا بھی اس کا خیال اوراحساس تک نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).