کیا مشین آدمی کو انسان بنا سکے گی؟


لو جی اب تو اڑن کھٹولے بھی اڑنے لگے۔ ہوائی ٹیکسیوں کا دور آ گیا۔ یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ سائنسی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیالی دوستیاں۔ کھلونوں سے شادیاں۔ اور سوشل میڈیا پر بڑھتے سماجی تعلقات۔ آپس میں سماجی دوری ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی اپنے موبائل کے ساتھ زیادہ وقت دیتے ہیں جبکہ ساتھ رہنے والے سانس لیتے ہوئے دوسرے جانداروں کو کم۔ قریب ہوتے ہوئے بھی آپس میں بہت دور۔ کیا زمانہ آ گیا ہے ماں سے زیادہ گوگل کو جناب کے روزمرہ کا علم ہے۔ بیوی کو نہیں پتہ شوہر صاحب کب کہاں کیا گل کھلا کر کے آیا کب سویا کب جاگا پر گوگل خوب جانتا ہے۔

بندہ بندے کو جانے نہ جانے پر گوگل شریف سب جانے ہے۔ شوہر بیگم کی سالگرہ بھول سکتا ہے بیگم جان کو کون سا رنگ پسند ہے کبھی سوچا ہی نہ ہو شاہد پر موبائل فون کو سب خبر ہے۔ یہ اسمارٹ فون بھی کیا غضب ڈھائے ہے کم بخت سارے راز جانے ہے۔ آدمی آدمی کو پہچانے نہ پہچانے پر یہ اسمارٹ فون سب خبر رکھے ہے۔ رات کمبل میں گھس کر چھپ چھپا کر کیا دیکھے ہو سب پتہ ہے اسے۔ نکمے آدمی کا اسمارٹ فون۔ آدمی اب تک یہ نہ جان سکا یہ موبائل فون اس کا دوست ہے یا دشمن؟ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ذہانت کو بڑھایا جا رہا ہے یا کنٹرول کیا جا رہا ہے؟ خوابوں کو ریکارڈ کرنے کی ٹیکنالوجی اب خواب بھی کنٹرول کرے گی۔

برقی دنیا کی برق رفتار دوڑ میں آنکھوں پر پیسے کا چشمہ ٹانگے آدمی بے سمت دوڑے چلا جا ریا ہے۔ اور اس دور میں آدمی کب روبوٹ بن گیا اور روبوٹ کب آدمی بن جائے۔ سمجھ نہیں آتا یہ اسمارٹ ٹیکنالوجی آدمی کو قابو کرنے کی دوڑ میں کہاں جا کر روکے گی یا آدمی کو ختم کر کے اس سے آگے نکل جائے گی؟

سپیس ایکس جیسے پروگرام حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ زمین سے آگے زمین کی تلاش جاری ہے۔ خلا میں اسٹیشن بن چکے ہیں جہاں خلائی گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ زمین پر ماحولیاتی آلودگی کو خطرناک حد تک پہچانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد آدمی اب خلا میں آلودگی کی گندگی پھلانے کی طرف رواں دواں ہے۔ ایٹمی ایندھن اور ہتھیاروں کی دوڑ میں اب تک اٹیمی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا ایسا جامع طریقہ ایجاد نہیں ہو سکا جو مستقبل میں ماحول اور جانداروں کی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں ہو گا۔ جینیٹکلی موڈیفائیڈ فصلوں کے ساتھ جانور آرڈر پر حسب منشا بخوبی تیار کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ تجربات آدمیوں کی تیاری پر بھی سائنسی معاشی اور معاشرتی طور پر جاری ہیں۔

آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) اور اے آئی ( مصنوعی ذہانت ) کے ذریعے نہ صرف آدمی بلکہ اس کی خواہشات کو بھی قابو کیا جا چکا ہے۔ جانوروں اور آدمیوں کے جسموں میں ڈیجیٹل چیپ بآسانی امپلاٹ کی جا رہی ہے۔

اور تو اور آدمی اور آدمی کے بچوں کے کھیل بھی ڈیجیٹل ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تو کھیل کے میدان شادیوں اور جلسوں کے اجتماعات کے لئے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔

یہ صدی تو کمپنیوں کی حکومت رہے گی۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ڈیجیٹل کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ذریعے ساری دنیا کی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ مشرق وسطٰی کا تیل ہو یا ہندوستان کے کسان کے مسائل ان کا حل حکومتوں کی پہنچ سے دور بین الاقومی کمپنیوں کے قابو میں ہے۔ حکومیتیں تو بس کمپنی کے مفاد کی پہرہ دار ہیں۔

یہ دور اسمارٹ فون والے اسمارٹ آدمی کا ہے۔ اور انٹر نیٹ شریف سماج میں آکسیجن کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ انٹر نیٹ تک رسائی بنیادی حق میں شمار ہوتی ہے۔ زندگی کی علامت یہ انٹرنیٹ ہے کیا؟ اور یہ سوال بھی ہے کیا واقعی آدمی کی زندگی انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں؟

سائنس اتنی ترقی کرتی جا رہی ہے۔ اس ترقی کی انتہا کب کیا اور کیسے ہو گی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ایک بنیادی سوال کی صورت میں چیلنج ہے سائنس کے لئے۔ کیا سائنسی ترقی اس بنیادی سوال کا جواب دے سکے گی؟

کیا کبھی آدمی کو واپس انسان بھی بنایا جا سکے گا؟

تب تک سائنس فکشن میں انسان کی تلاش جاری رکھیے۔ اگر اس صدی میں انسان دریافت ہو گیا تو اگلی صدی تبدیلی کی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).