لیلی للامی کی کتاب: امید اور دوسرے خطرناک مشاغل


اردو قارئین کا کتاب سے رشتہ جوڑنے اور مطالعے کو فروغ دینے میں جو کام اجمل کمال کی آج کی کتابوں اور آصف فرخی کی شہرزاد نے کیا ہے اس کی نظیر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں خاص طور پر عالمی ادب کے معیاری تراجم اور مناسب داموں میں نفیس اور دیدہ زیب کتابوں کی اشاعت شامل ہے۔ ایسی ہی ایک پیپر بیک مراکش کی لیلی للامی کی ’امید اور دوسرے خطرناک مشاغل‘ تھی۔ محمد عمر میمن نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا۔

امید اور دوسرے خطرناک مشاغل ایسے پرعزم افراد کی کہانی بیان کرتی ہے جو بہتر زندگی کی تلاش میں اسپین ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے رستے میں رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں مگر وہ مصروف عمل رہتے ہیں۔ وہ معاشرہ کی جکڑ سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ انہیں پردیس کی سختیوں کا اندازہ ہے۔ لیکن خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں یہ قدم اٹھانا پڑے گا۔ ان کی زندگی میں کہیں یادوں کی ٹھنڈی چھاؤں ہے اور کہیں انتظار کی کڑی دھوپ۔ وعدوں کے سائے طویل ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی امید انتہائے کار پاش پاش ہو جاتی ہے۔ آنے والے وقت کی فکر میں انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا حال ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔

مشعل کی پہلی کتاب میں نے گھر میں دیکھی تھی۔ مگر مشعل کی کتابوں سے باقاعدہ تعارف یونیورسٹی کے زمانے میں ہوا۔ میں جوہر ٹاؤن میں اپنے ہوسٹل میں موجود تھا۔ جب معلوم ہوا کہ مشعل بکس کا دفتر برکت مارکیٹ کے آس پاس کہیں واقع ہے۔ فوراً روٹ کی بس پکڑی اور وہاں پہنچ گیا۔ بلڈنگ ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ ایڈریس کے مطابق تو یہی بلڈنگ تھی مگر کہیں کوئی کتاب نظر نہیں آ رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ دفتر فلیٹ کی کسی منزل پر ایک اپارٹمنٹ میں واقع ہے۔

بیل بجائی۔ اندر سے ایک شخص برآمد ہوئے۔ مجھے ایسا لگا کہ میں نے ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی کر دی ہے۔ میرا مدعا سن کر وہ مجھے اندر لے گئے۔ ہر طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں جو میرے لئے کسی بھی طرح ناخوشگوار نہ تھا۔ میں نے کچھ کتابیں خریدیں اور ہوسٹل واپس آ گیا۔ پھر مشعل کی ویب سائٹ پر بہت سی کتابوں کے پی ڈی ایف دیکھے۔ وہیں سے مراکش ہی کی لیلی ابو زید کا ناول ’عام الفیل‘ ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا۔

یہ ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو بے بس اور منتشر اپنے شہر میں لوٹتی ہے۔ اس کا سارا خاندان قبرستان میں دفن ہے۔ شہر بدل گیا ہے۔ وہ خود کو اجنبی محسوس کرتی ہے۔ چلتے چلتے وہ ماضی کی یادوں میں کھو جاتی ہے۔ وہ آزادی کے نشے میں مخمور شہر سے گئی تھی۔ مگر خوشی کے دن عارضی ثابت ہوئے۔ کوئی چیز دائمی نہیں۔ اب وہ تنگ گلیوں سے گزر رہی ہے تو اسے اپنے قدموں کی چاپ کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ بہت گہری دھند ہے۔ بے وفائی کی بو آ رہی ہے۔ ماضی کیا ہے؟ ایک واہمہ۔ حقیقت تو وہ ہے جو آج ہے۔ وہ کام، یقین اور دوسری بہت سی چیزیں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

میں کمپنی کے پراجیکٹ کے سلسلے میں جکارتہ گیا ہوا تھا۔ یاد نہیں ہوٹل کی بلند عمارت کی کس منزل پر تھا اور کون سے کمرے میں تھا۔ اس روز تیز بارش نے شہر کو جل تھل کر کے رکھ دیا تھا۔ اور اب ایک روشن دن نم سڑکوں اور گھروں کو سکھا رہا تھا۔ اس روز میں آسٹریلوی رائیٹر جیرالڈن بروکس کی Nine Parts of Desire پڑھ رہا تھا۔ یہ کتاب ہمیں مسلم ممالک کی خواتین کی پوشیدہ دنیا میں لے جاتی ہے۔

وہ لکھتی ہے کہ اسلامی دنیا کے سنگم قاہرہ ائرپورٹ پر اسلامی لباس کی تقریباً ہر تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔ حجاب پر ہجوم گلیوں میں ایک مسلم خاتون کو تحفظ دیتا ہے۔ ان کے خیال میں آپ کا واسطہ ان کے ذہن سے پڑتا ہے، جسم سے نہیں۔ بیروت میں اسلامی فیشن فیکٹری کی مالکہ نے انہیں بتایا: میرا اسلام ایک ثقافتی انقلاب ہے، نظریات کا انقلاب۔ حجاب اسلامی بحالی کی سب سے بین علامت ہے۔ چادر مغربی اقدار کے خلاف ایک ڈھال ہے اور دوسری کھال ہے۔

لیکن کیا سکارف پہنے بغیر آپ انقلابی نہیں ہو سکتے؟ کیا اسلام مردوں سے بھی پردے کا تقاضا نہیں کرتا؟ کیا ان کے خیال میں تمام عورتیں خطرناک ہیں؟ اور وہ عورت جو سات پردوں میں لپٹی نہ ہو وہ بدکار ہے جو دنیا کے نظام میں تبدیلی لانے کا سوچ رہی ہے؟ مصنفہ کے ذہن میں ایسے بہت سے سوال گردش کر رہے تھے۔

وہ مشاہدہ کرتی ہے کہ لڑکی اپنے خاندان پر بھروسا کر کے رشتے کے لیے ہاں کہتی ہے اور طلاق کا معاملہ مشکل ہو جاتا ہے۔ قطعی اجنبی سے شادی کرنا پاگل پن ہے۔ جب آپ ایک ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے جا رہے ہوں جس کے ساتھ آپ کو محبت نہیں تو ہر چیز کامل ہونی چاہیے۔ بہت سی شادیاں نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے تلخ ہو جاتی ہیں۔

مصنفہ سفر کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہے : ہر کسی کا اپنے سفر کو یاد کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ڈائریاں لکھتے ہیں اور کچھ تصاویر لیتے ہیں۔ میں اپنے بیڈروم میں جا کر اپنی کپڑوں والی الماری کھولتی ہوں۔ وہاں میری یادیں لٹکی ہوئی ہیں۔

اس تحریر میں جن تین خواتین کا ذکر ہوا ہے ان میں سے دو مسلمان ہیں اور تیسری نے مسلم خواتین کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد پر آئے دن بات ہوتی رہتی ہے۔ ریلی، احتجاج، ٹویٹ اور مظاہروں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جمہوری معاشرہ یوں ہی اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ مکالمے کی بنیاد علم، تہذیب اور انسان دوستی پر ہونی چاہیے۔ تبھی ہماری کوئی سرگرمی پراثر، شفاف اور بامعنی کہلائے گی۔

ایک پرامید اور خواب دیکھنے والے معاشرے میں کتاب کلچر کا فروغ ضروری ہے۔ بقول فرانز کافکا کتاب ایک کلہاڑے کی طرح سماجی جمود کو توڑ دیتی ہے۔ اور بقول رے بریڈبری کتاب بارود سے بھری بندوق ہے جو جہالت کا خاتمہ کرتی ہے۔ یوں ایک فرسودہ اور بوسیدہ معاشرے کے لئے ہمارے مشاغل خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 35 posts and counting.See all posts by farhan-khalid