عبد القادر حسن۔ کالم نگار و دانشور! خدا حافظ


عبد القادر حسن! خدا حافظ، ابھی چند دن پہلے ( 28 نومبر 2020 ء) کی بات ہے عبد القادر حسن نے بیماری کے باوجود ایک کالم بعنوان ”اچھا دوست! خدا حافظ“ لکھا جو روزنامہ ایکسپریس میں اسی روز شائع ہوا۔ اس میں عبد القادر حسن نے اردو ڈائجسٹ کے روح رواں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، اسلام آباد کے شاہ جی سید سعود ساحر اور چودھری انور عزیز کی رحلت پر اپنے دلی دکھ، تعلق خاطر، غم اور صدمے کا اظہار کیا تھا۔ اگلے دن یعنی 29 نومبر کو بھی ان کا ایک کالم روزنامہ ایکسپریس کی زینت بنا جس کا عنوان تھا ”بے وفائی کی سزا“ اور 30 نومبر 2020 ء کی شب وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔

ان کی نماز جنازہ یکم دسمبر کی صبح مسجد اللہ اکبر ڈیفنس چوک فیز 1 میں ادا کرکی گئی۔ یہ ہے انسان کی حقیقت۔ عبد القادر حسن زندگی کی 89 بہاریں دیکھ چکے تھے، اس عمر میں بیماریوں کا ہونا کوئی خاص بات نہیں ہوتا لیکن وہ ہشاش بشاش اور ذہنی طور پر تندرست و توانا تھے۔ لکھنے کا عمل وہی شخص کر سکتا ہے جس کا ذہن توانا ہو، وہ سوچنے، سمجھنے، مشورہ دینے، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا تھے لیکن کالم نگاری کا سلسلہ ترک نہیں کیا تھا وہ بدستور مستقل مزاجی سے جاری رکھا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ سانسوں کا سلسلہ منقطع ہونے سے دو دن قبل بھی ان کا تحریر کردہ کالم اخبار کی زینت بنا۔

عبد القادر حسن نے 2006 ء سے تادم مرگ روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھ رہے تھے۔ اس سے قبل وہ کئی اخبارات سے وابستہ رہے۔ صحافتی زندگی کا آغاز ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ یہ وہ دور تھا جب برقی میڈیا کا وجود نہیں تھا اخبارات ہی خبروں اور کالم نگاری کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ جب کہ اخبار کا رپورٹر ان معلومات کو فراہم کرنے کا واحد ذریعہ تھے۔ پروگرام کے منتظمین پریس ریلیز اور دعوت نامے میں لکھا کرتے تھے کہ برائے کرم اپنے رپورٹر اور فوٹوگرافر کو تقریب میں بھیج کر تقریب کی کارروائی اخبار کے لیے محفوظ کر لیجیے۔

عبد القادر حسن نے اپنی کہانی بیان کی جسے عامر خاکوانی نے نقل کیا، یہ کہا نی ویب سائیٹ ”دلیل“ میں درج ہے۔ ”عبد القادر حسن کی کہانی خود ان کی زبانی“ میں کہتے ہیں کہ تعلیم کے تمام سلسلہ البتہ پرائیویٹ نوعیت کا رہا۔ اسے سیلف ایجوکیشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ کلاسیکل طرز تعلیم تھا جس میں مختلف اہل علم حضرات سے علیحدہ علیحدہ مختلف علوم سیکھے جاتے ہیں۔ میں نے رسمی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی۔ اس لیے میں تکنیکی طور پور پر اسمبلی کا انتخاب بھی نہیں لڑ سکتا (اس وقت اسمبلی کا رکن ہونے کے لیے بی اے کی شرط عائد ہو گئی تھی) ۔

میں نے راولپنڈی میں دلی کالج کے سابق پرنسپل عبدالجبار غازی سے انگریزی پڑھی، پھر ممتاز عالم دین مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی زبان پڑھی۔ اس کے بعد لاہور آ گیا۔ میرے بڑے بھائی جماعت اسلامی میں تھے، میں بھی سید ابو الا علیٰ مودودی کی محفلوں میں شریک ہونے لگا۔ میں نے مولانا مودودی اور امیر احسن اصلاحی سے اسلامی تعلیمات خصوصاً فہم قرآن حاصل کرنے کی کوشش کی (کوشش کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے ) ۔ اسی دوران مشہور اہل حدیث عالم دین علامہ داؤد غزنوی سے حدیث پڑھی اور فقہ کی تعلیم مفتی محمد حسن امرتسری (بانی جامعہ اشرفیہ، لاہور) سے لی۔

ان دونوں مفتی صاحبان کا مدرسہ نیلا گنبد میں ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ 1956 تک چلا۔ ان بڑے اساتذہ سے تعلیم لینے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھ میں نظریاتی زندگی بسر کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ پھر یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ میں اپنے آپ کو ایک کمزور اور بے عمل سہی مگر نظریاتی شخص سمجھتا ہوں، جس کا کوئی دین ایمان ہے۔ میں نے تمام زندگی اس نظریاتی شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس پر سٹینڈ لیا۔ دوران تعلیم میں جماعت اسلامی کا سیاسی کارکن اور صحافت کا سے نظریاتی اساس مزید پختہ ہو گئی۔

ان دنوں کافی ہاؤسز میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا۔ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم وہاں آتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کی تو جرات نہیں کر سکتے تھے، مگر ان سے رسمی تعارف سا ہو گیا۔ پھر میں جوہر آباد چلا آیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہا، پھر حمید نظامی صاحب کو خط لکھا اور صحافت میں آنے کی کوش کا اظہار کیا۔ ان کا جوابی خط آیا کہ یہ اتنا آسان پیشہ نہیں۔ میں جواب دینے کے بجائے لاہور میں ٹمپل روڈ پر واقع ان کے گھر پہنچ گیا۔ اس طرح میری صحافتی زندگی کا آغاز نوائے وقت سے ہوا ”۔

عبد القادر حسن کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ انہوں نے رپورٹنگ میں سیاست کو فوقیت دی اور ایک سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے اخبارات میں خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ بات اپنی جگہ انفرادیت لیے ہوئے ہے کہ وہ سیاسی رپورٹر تھے، سیاست پر کالم لکھا کرتے لیکن ان کے کالم کا عنوان ”غیر سیاسی باتیں“ تھا وہ اپنی زندگی کے اختتام تک ’غیرسیاسی باتیں‘ کے عنوان سے ہی کالم نگاری کر رہے تھے لیکن ان کے کالموں میں سیاست سر فہرست رہی۔

عبد القادر حسن کے لکھے ہوئے کالم عوام الناس میں پسند کیے جاتے تھے۔ ان کے لکھنے کا انداز منفرد اور دلیرانہ تھا۔ انہوں نے فوجی سربراہوں کے دور میں ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال و جواب کیے، اپنے کالموں میں غلط کو غلط اور سچ کو سچ لکھنے کی جرات کی۔ عبد القادر حسن جدید تعلیم اور صحافت کی رائج تعلیم یافتہ نہ تھے اس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی۔

عبد القادر حسن نے اپنی زندگی کا آخری تعزیتی کالم تین صحافیوں کے بارے میں لکھا جن کے نام اوپر درج کیے گئے ہیں۔ اپنے اس کالم میں انہوں نے لکھا ”مجھے تعزیتیں لکھنا نہیں آتیں شاید اس لیے کہ زندوں کی تعزیت اور عزاداری سے فرصت ملے تو کوئی اس دنیا سے اٹھ جانے والوں کو یاد کرے ور آنسو بہائے مگر بعض ایسے لوگ بھی ہم سے رخصت ہو جاتے ہیں کہ جن کے جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں وہ اپنے پیچھے محاورتاً اور رسماً نہیں واقعتاً خلا چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ہولناک خلا جس میں ڈر لگتا ہے تنہائی اور بڑھ جاتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرنے لگتا ہے۔ کسی ایسے آدمی کے چلے جانے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قحط الرجال کس قدر خوفناک ہوتا جا رہا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو نعم البدل سے محروم محسوس کرتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں کچھ اچھے لوگ کوٹے میں ملے تھے اور اب ہمارا کوٹہ ختم ہو گیا ہے۔ کوئی سوسائٹی رو پے پیسے کی کمی سے دیوالیہ یا فقیر نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو بگڑتی ہے وہ ایسے لوگوں سے محروم ہو کر ادھوری اور فاقہ زدہ ہوجاتی ہے جو اس میں آب حیات بن کر زندہ رہتے ہیں اور اعلیٰ روایات کے خزانے لٹا رہے اور یہ آب حیات اور یہ خزانے ان کی آنکھیں بند کرتے ہی خشک اور خالی ہو گئے“ ۔

دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے بارے میں عبد القادر حسن نے اپنے انتقال سے دو روز قبل تحریر کیے۔ سچ یہی ہے کہ عبد القادر حسن کے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے چاہنے والوں کے جذبات خاص طور پر صحافی اور کالم نگار عبد القادر حسن کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہی محسوس کر رہے ہیں کہ جیسا ان کی کوئی عزیز ترین شہ چھن گئی ہے۔ ان کی کمی کسی طور پوری نہیں ہو سکتی۔ وہ آب حیات بن کر زندہ تھے اور اعلیٰ روایات کے خزانے لٹا رہے تھے اور یہ آب حیات اور یہ خزانے ان کی آنکھیں بند کرتے ہی خشک اور خالی ہو گئے۔ وہ اس دنیا سے چلے ضرور گئے لیکن ان کی یادیں ہمارے دل میں رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، آمین ( 6 دسمبر 2020 ء)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).