مذہب سے فلسفے کی غلامی تک


اس دور میں ایک طبقہ مذہب اور تعصب کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب مذہب ریاست پر حاوی ہوجائے تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے ہیں۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ضمن میں بہت سے مضبوط دلائل بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ میں نظر دوڑائیں تو طالبان کی ریاست کی بنیاد مذہبی نظریات پر تھی۔ کیا نتیجہ نکلا؟ عورتوں کی تعلیم تو ایک طرف رہی ان کے گھر سے نکلنے پر ہی پابندیاں لگ گئیں۔ نہ صرف قتل و غارت کا طوفان برپا کیا بلکہ خود فخر سے ان کی ویڈیو مشتہر کیں۔ حلال حرام کا فیصلہ بھی اپنے مفادات کو دیکھ کر کیا گیا۔ پہلے افیون کی کاشت ممنوع تھی۔ جب اس کے کاروبار سے مالی منفعت ضرورت پڑی تو یہی کاشت حلال ہو گئی۔

داعش کی خلافت قائم ہوئی تو انہیں سب سے ضروری کام یہی نظر آیا کہ لونڈیاں بنانے کی اجازت دی جائے۔ یہی گل نائیجیریا میں بوکو حرام نے کھلائے۔ سعودی ریاست میں بھی مذہبی اقدار کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اب سارا زور اس بات پر ہی لگ رہا ہے کہ ایک خاندان کی موروثی بادشاہت کو قائم رکھا جائے۔ خواہ یمن میں قتل عام کرنا پڑے یا کسی صحافی کو قتل کر کے اس کی بوٹی بوٹی کرنی پڑے۔

آج سے صدیوں پہلے چلے جائیں تو کیتھولک چرچ کی مذہبی عدالتوں یعنی انکوئزیشن میں پہلے مسلمانوں اور یہودیوں کو گھسیٹا گیا تاکہ یا تو وہ مسیحی بن جائیں یا سپین کو چھوڑ دیں۔ پھر خود مسیحی دنیا ان کے شعلوں کی زد میں آ گئی اور ہزاروں عورتوں کو صرف چڑیل یا جادو گرنی قرار دے کر زندہ جلا دیا گیا تاکہ باقی لوگ راسخ العقیدہ رہیں۔

ہم سب اس قسم کےواقعات کے تجزیے ایک عرصہ سے پڑھ رہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور پہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ تاریخ میں جب دنیا کے چوٹی فلاسفروں نے مذہبی عقائد سے الگ ہو کر کوئی نظام تجویز کیا تو وہ کیا تھا؟ کیا اس تجویز کردہ نظام میں زیادہ آزادیاں دی گئی تھیں۔ کیا اس نظام کی بنیاد انسانی مساوات پر تھی۔

جب ہم قدیم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک ایسا ہی نظام افلاطون  (Plato)نے تجویز کیا تھا۔ ایک آئیڈیل ریاست۔ اس ریاست کا نام یوٹوپیا (Utopia)ہے۔ اور یہ نام ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔ فلسفے کی تاریخ میں یہ پہلا قابل ذکر ریاستی نظام تھا جو کہ کسی فلسفی نے تجویز کیا تھا۔ اور اب تک فلسفہ کی دنیا میں افلاطون کے خیالات کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے۔

اس تجویز کردہ نظام میں افلاطون نے بیان کیا تھا کہ شہریوں کو تین طبقات میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ ایک طبقہ عام شہریوں کا ہو گا۔ ایک طبقہ سپاہیوں کا ہو گا۔ اور ایک قلیل لوگوں کا طبقہ اس ریاست کے ” سرپرستوں ” کا ہوگا۔ ساری سیاسی طاقت ان ” سرپرستوں ” کے ہاتھ میں ہو گی۔ اور یہ سرپرست فلاسفر ہوں گے۔ گویا اس نظام کی بنیاد ہی یہ تھی کہ انسانی مساوات کو ختم کر دیا جائے۔ اور جو جس طبقے میں پیدا ہو گا اسی طبقے میں رہے گا۔

 اب یہ دیکھتے ہیں کہ فلاسفروں کی اس ریاست میں تعلیم کا نظام کتنا آزاد ہوگا۔ شروع ہی سے طلباء کو جو کچھ پڑھنے کو ملے گا اسے ریاست سنسر کرے گی۔ یہاں تک کہ نوجوان جو موسیقی سنیں گے وہ بھی ریاست سے منظور شدہ ہو گا۔ تاکہ ان کی پروان ریاست کی خواہش کےمطابق ہو۔ اور یہاں تک کہ مائیں بچوں کو جو کہانیاں سنائیں گی وہ بھی ریاست یا فلاسفروں کے اس صاحب اقتدار طبقہ سے منظور شدہ ہوں گی۔

فلاسفروں کی یہ حکومت لوگوں کے باورچی خانوں میں بھی کافی دخل اندازی کرے گی۔ شہریوں پر پابندی ہوگی کہ وہ گوشت اور مچھلی اچھی طرح بھون کر کھائیں۔ چٹنیوں اور مٹھائیوں پر پابندی ہو گی۔

پڑھنے والے سوچتے ہوں گے کہ اس فلسفیانہ ریاست میں لوگ شادی کیسے کریں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس طرح شادیاں نہیں کریں گے جیسے دنیا میں کی جاتی ہے۔ بلکہ بہت سے مردوں کی بہت سی بیویاں ہوں گی۔ اور ریاست یہ فیصلہ کرے گی کہ کس نے کس کے گروپ میں شامل ہونا ہے تاکہ اچھی نسل حاصل کی جا سکے۔ اور کسی کو نہیں پتہ ہوگا کہ وہ کس کی اولاد ہے۔ اور بچوں کو پیدا ہونے کے بعد ماں باپ سے لے کر ریاست کی تحویل میں لے لیا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں فلاسفروں کی اس ریاست میں انسانوں سے وہ سلوک ہوگا جو کہ گھوڑوں سے اصطبل میں اور جانوروں سے ڈیری فارم میں ہوتا ہے۔ کیا یہ آزادی ہے؟

(The History of Western Philosophy , by Bertrand Russel, published by SIMON AND SCHUSTER, NEW YORK p 108-110)

ان گذارشات پر شاید یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ تو قبل مسیح دور کی باتیں ہیں۔ اس وقت فلسفہ ابھی خام حالت میں تھا۔ اب تو فلاسفر بالغ ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب ہم فلسفہ کے اس دور میں داخل ہوتے ہیں جسے جدید دور کہا جاتا ہے۔ یعنی انیسویں صدی کا آخر۔ ہم جرمن فلاسفر نیچہ [Nietzsche] کی مثال پیش کریں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیچہ کا شمارجدید دہریہ فلسفے کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔

1882 میں جرمن فلاسفر نطشے نے ایک تمثیل لکھی جس کا نام تھا  The Parable of the Madman۔ اس میں تمثیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے دن کے وقت لالٹین ہاتھ میں لی اور باہر نکل کر آوازیں لگانی شروع کیں کہ خدا کہاں ہے؟ اور پھر اس نے اعلان کیا کہ ہم نے خدا کو قتل کر دیا ہے۔ میں اور تم اس کے قاتل ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے یہ خون کون صاف کرے گا؟

اس تمثیل کے تین سال بعد 1885 میں نطشے نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام  Thus Spoke Zarathustraتھا۔ اس کتاب میں انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ انسان تو بندر سے بھی زیادہ بندر ہے اور اعلیٰ ترین انسان بھی ننگے ہیں۔ دنیا بھر کے انسانوں کا یہی مقصد ہے کہ وہ غلاموں کی طرح ایک برتر قسم کا انسان  Supermanبنانے کی کوشش کریں۔ اس برتر انسان کی راہ میں خدا کا تصور حائل تھا۔ اب یہ تصور ختم ہو گیا ہے تو یہ فرضی برتر انسان ظہور کرے گا۔ یہ فرضی انسان ایک علیحدہ مخلوق معلوم ہوتا ہے۔

انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ انسانیت کو نظر انداز کر کے اس برتر انسان کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ اور جن انسانوں کو انہوں نے اپنے زعم میں خدا کی غلامی سے آزاد کرایا تھا ، ان کے لئے یہ لائحہ عمل تجویز کیا کہ وہ اپنے آپ کوایک فرضی برتر انسان کا غلام بنا دیں۔

نطشے نے عورتوں کے حقوق پر بھی کافی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ عورتیں اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان سے دوستی کا تعلق رکھا جائےمردوں کو چاہیے کہ انہیں اپنی جائیداد سمجھیں۔ ایک عورت کی سطح گائے اور بلی سے زیادہ نہیں ہے۔ جس طرح جنگ کے لئے مردوں کی تربیت کی جاتی ہے، اسی طرح عورتوں کو اس بات کی تربیت دینی چاہیے کہ وہ ان مردوں کا دل بہلائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت ایک پہیلی ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ اسے حمل ہو جائے۔ اگر مضبوط مرد انہیں قابو نہ کریں تو یہ عورتیں بالکل نا قابل برداشت ہو جائیں۔ عورتوں کا اہم ترین مصرف یہ ہے کہ وہ ایک برتر قسم کے مرد کو جنم دیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب افلاطون اور نطشے جیسے فلاسفر دنیا کے لئے کوئی نظام تجویز کرتے ہیں تو اس مقصد یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو آزادی دلائی جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنے فلسفے کا غلام بنایا جائے۔ افلاطون اور نطشے تو کسی ریاست کے حکمران نہ بن سکے لیکن اس دور میں اشتراکیت کے فلسفے کو ایک نہیں بلکہ کئی ممالک میں حکومت نصیب ہوئی۔

کیا ان ممالک میں یہ دور سوچ کی آزادی کا تھا۔ میرے خیال میں اس کا جواب صرف نفی ہی میں دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں جسے مذہب سے پاک کیا گیا تھا شہریوں کو سوچ کی یا اظہار خیال کی کوئی آزادی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ خدا کی عبادت پر تو پابندی لگادی گئی لیکن جب لینن کا انتقال ہو ا تو ان کی لاش کو حنوط کر کے مستقل نمائش کے لئے رکھ دیا۔ اور شہری اس لاش کی زیارت کرتے تھے۔ جس طرح بعض لوگ مزاروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ روس کے گھروں میں اور پبلک مقامات پر روایتی طور پر حضرت عیسیٰ کی شبیہ آویزاں کی جاتی تھی۔ ان تصویروں کو تو اتار دیا گیا لیکن یہ دیواریں خالی نہیں رہیں۔ ان پر لینن اور سٹالن کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کر دی گئیں۔ کمیونسٹ لیڈروں کے بڑے بڑے مجسمے ہر جگہ اتنی بڑی تعداد میں نصب کئے گئے جو کسی بت پرست قوم نے بھی نصب نہیں کئے۔

ایسے معاشروں میں مذہب کی نفی تو کر دی جاتی ہے لیکن ان معاشروں کے کرتا دھرتا اپنے آپ کو دیوتا کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ اور یہ امید کرتے ہیں تمام انسانیت ان کے آستانہ پر سجدے کرے۔ اور اپنے فلسفے کے نظریات کو عملی طور پر مقدس قرار دے کر جو ان سے روگردانی کرے اسے گردن زدنی قرار دے دیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).