نور حسین: بنگلہ دیش کے شہری کے جسم پر پینٹ ہوئے نعروں کی تصاویر جنھوں نے ایک فوجی آمر کا تخت ہلا دیا


یہ سنہ 1987 کی بات ہے۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک نوجوان اپنے جسم پر جمہوریت کے حق میں نعرے پینٹ کر کے مظاہرہ کر رہا تھا جب پولیس نے اسے گولی مار دی۔

گولیوں سے چھلنی اس کے جسم کو پولیس کے قید خانے میں پھینک دیا گیا لیکن اس کی تصویر نے ایک آمر کو ہٹانے اور اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہونے میں مدد دی۔

بی بی سی کے نامہ نگار معظم حسین، جو اس روز اس نوجوان کے سیل کے ساتھ والے ایک سیل میں موجود تھے، نے اس نوجوان کی تصویر کے پیچھے موجود کہانی کو جاننے کی کوشش کی ہے۔

نومبر سنہ 1987 میں پورا ہفتہ ڈھاکہ میں حالات کشیدہ رہے تھے۔

ملک کے صدر حسین محمد ارشاد نے دارالحکومت ڈھاکہ کو ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ دیا تھا اور تمام مواصلاتی رابطے ختم ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

قیامِ بنگلہ دیش اور آپریشن ’جیک پاٹ‘ کی کہانی

بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟

جنرل ضیا الرحمٰن کا قتل اور بنگلہ دیش میں طاقت کی کشمکش

وہاں سکول، کالج، یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں تھیں اور طلبا سے کہا گیا تھا کہ وہ ہاسٹلز کو خالی کر دیں۔

شہر میں سیاسی مظاہروں اور ریلیوں پر پابندی عائد تھی۔ فوجی آمر صدر حسین محمد ارشاد نے ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی حمایت کرنے والے سینکڑوں کارکنان کو حراست میں لے لیا۔

لیکن حزب اختلاف میں موجود سیاسی قوتوں نے ہزاروں حامیوں کو متحرک کیا کہ وہ صدر پر زور ڈالیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔

دس نومبر کی صبح میں بھی ان ہزاروں کارکنان میں شامل تھا جو مظاہرہے کے لیے جا رہے تھے۔ میں اس سے پہلے کبھی ایسے مظاہروں میں شامل نہیں ہوا تھا۔

صبح کے تقریباً نو بج رہے تھے۔ جب مجھ سمیت دیگر بہت سے مظاہرین کو پولیس نے اٹھا لیا۔ ہمیں بُری طرح پیٹا گیا اور گاڑی میں دھکیل کر پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔

جوں جوں دن چڑھ رہا تھا، مزید سیاسی قیدیوں کو وہاں لایا جا رہا تھا۔

پورے ڈھاکہ میں جنگ کا سا سماں تھا۔

کچھ ایسے مظاہرین کو بھی وہاں لایا گیا جنھیں گولیاں لگنے کی وجہ سے زخم آئے تھے۔ ان میں سے ایک کے جسم پر نعرے پینٹ تھے اور اس کا سینہ ننگا تھا۔

اس کے مردہ جسم کی بھوری جلد پر سفید چمکدار پینٹ سے لکھے نعرے ’سائرہ چر نیپات جک‘ یعنی ’اس استبداد کو گرا دو‘ نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

یہ جسم نور حسین نامی شخص کا تھا۔ اس وقت ہم لاعلم تھے کہ وہ کون ہے۔

ہم نہیں جانتے تھے کہ جس جگہ اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا، بعد میں وہ اس ہی کے نام سے جانی جائے گی۔

ہم نہیں جانتے تھے کہ اس قربانی کی وجہ سے وہ بعد از مرگ کتابوں، فلموں، نغموں اور پوسٹ سٹیمپس کے ذریعے شہرت حاصل کرے گا۔

ہم نہیں جانتے تھے اس کی ایک تصویر جو اس کی موت سے چند لمحے قبل لی گئی تھی، ہماری نسلوں کی جمہوریت کے لیے طویل خون آلود جدوجہد کی علامت بن جائے گی۔

میں نے گذشتہ 33 برسوں میں بارہا نور حسین کی تصاویر کو دیکھا ہے۔

وہ پُرعزم دکھائی دیتے تھے۔ ان کا جوان جسم اور اس پر پینٹ کیے گئے نعرے سورج کی تیز روشنی میں مزید چمک رہے تھے۔

The police control room

نور کو مردہ حالت میں پولیس کنٹرول روم لایا گیا

26 برس کے نور کی موت کے ایک دن بعد پورے بنگلہ دیش کے اخباروں کے پہلے صفحے پر اس کی تصاویر دکھائی دی جس نے حکومت کو دہلایا اور لاکھوں لوگوں کو مسحور کیا۔

وہ اور میں سنہ 1987 کے جن مظاہروں میں شامل تھے انھیں پُرتشدد طریقے سے ختم کر دیا گیا لیکن تین سال بعد ایک اور مظاہرے کی تحریک صدر ارشاد کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوئی اور اس مظاہرے میں موجود بہت سے لوگ نور حسین کی تصویر سے ہی متاثر ہوئے تھے۔

اکثر میں حیران ہوتا ہوں کہ کس چیز نے ڈھاکہ کی ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو ایک غیر معمولی عمل پر اُبھارا۔

نور کے والد مجیب الرحمان آٹو رکشہ ڈرائیور تھے اور ڈھاکہ شہر کے قدیم حصے میں رہتے تھے۔

مجیب کا انتقال 15 برس پہلے ہو گیا تھا۔ لیکن میں نور کے بھائی علی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ انھیں اب بھی نور کی زندگی کے آخری ایام اچھی طرح یاد ہیں اور یہ آپ ان ہی کی زبانی سنیے۔

Ali Hossain

نور حسین کی موت کے بعد ان کے بھائی علی حسین ان کی لاش ڈھونڈتے رہے

’وہ دو راتیں گھر نہیں لوٹے تو والدین پریشان ہو گئے

ان کے بھائی علی نے بتایا کہ ’میرے والد جانتے تھے کہ نور سیاست میں شامل ہیں۔ وہ کئی بار گھر سے باہر رہے اور سیاسی ریلیوں میں حصہ لیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایک بار جب نور مسلسل دو راتیں گھر نہیں لوٹے تو والدین پریشان ہو گئے۔ سنہ 1987 کو 10 نومبر کی صبح انھوں نے اسے ڈھونڈا وہ شہر کی ایک مسجد میں تھا۔

’میرے والدین نے اس سے درخواست کی کہ تم گھر واپس چلو لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں بعد میں آؤں گا۔‘

علی کہتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی ’جب میرے والدین نے انھیں دیکھا۔‘

بعد میں نور مظاہروں میں شامل ہو گئے۔ اور مظاہروں میں تشدد شروع ہو گیا۔

مظاہرین پولیس پر اینٹیں اور دیسی ساختہ بم پھینک رہے تھے جبکہ پولیس ان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور براہ راست گولیاں برسا رہی تھی۔

اس کے نتیجے میں نور حسین سمیت تین افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔

لیکن اگلے روز آدھا دن گزرنے کے بعد نور کے خاندان کو پتا چلا کہ وہ مر گیا ہے۔

مجیب اور علی اس جگہ دوڑ کر پہنچے جہاں نور مظاہرہ کرنے گیا تھا۔ پھر وہ ہسپتال اور پھر پولیس سٹیشن گئے جہاں کے بارے میں انھیں پتا چلا کہ نور کی لاش وہیں رکھی ہے۔

وہاں باہر موجود افسران انھیں اندر نہیں جانے دے رہے تھے لیکن انھوں نے یہ تصدیق کی کہ اندر ایک لاش ہے جس پر پینٹ ہوا ہے۔ انھوں نے نور کے بھائیوں کو بتایا کہ اگر ہم تمھیں اس وقت اس کی لاش دے دیں گے تو فسادات شروع ہو جائیں گے۔

General Ershad

جنرل ارشاد جو فوجی بغاوت کے بعد بنگلا دیش میں اقتدار میں آئے تھے

نور کے قتل پر کسی بھی افسر کو موردِ الزام نہیں ٹھرایا گیا۔

باوجود اس کے کہ پولیس کی جانب سے ہزاروں مظاہرین کو قتل کیا گیا لیکن کبھی بھی کسی بھی افسر پر جنرل ارشاد کے دورِ اقتدار میں کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔

میں نے علی سے پوچھا کہ کیا انھیں یاد ہے کہ نور کے جسم پر اس دن وہ پُراثر نعرے کس نے درج کیے تھے۔ تو اس نے بتایا ہاں اس شخص کا نام اکرام حسین ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکرام اس وقت صدر ارشاد کے سٹاف کے کوارٹرز میں رہ رہے تھے اور ان کے بھائی صدر کے قاصد تھے۔

علی نے مجھے اکرام کا فون نمبر دیا۔

پینٹر اکرام: ’اس نے مجھ سے درخواست کی میرے جسم پر یہ نعرہ لکھو!‘

میں نے اکرام کو فون کیا۔ اس نے کہا ہاں میں ہی اکرام ہوں۔

سنہ 1987 میں اکرام کی عمر 18 برس تھی اور وہ سائن بورڈز آرٹسٹ تھے۔

وہ اپنے بڑے بھائی کے سات بانگہ بھابان میں رہتے تھے جو کہ ڈھاکہ میں صدارتی رہائش گاہ تھی۔ وہ اپنی ایک چھوٹی سی دکان موتی ہیل کے علاقے میں چلاتے تھے۔ وہ زیادہ تر سائن بورڈز اور بینرز بناتے تھے۔

اکرام نے مجھے بتایا کہ میں نور حسین کو پہچانتا تھا۔ وہ ایک کاروباری مرکز میں نوکری کرتا تھا جو استعمال شدہ فرنیچر بیچتے تھے۔ لیکن ہماری زیادہ بات چیت نہیں ہوئی۔

نو نومبر کو جب اکرام اپنا کام ختم کر کے شام پانچ بجے دکان کا شٹر گرانے کا سوچ رہے تھے تو ایسا کرنے سے پہلے نور حسین وہاں اپنی درخواست لے کر پہنچے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ مجھے قریب موجود ایک چھوٹی گلی میں لے گیا۔ وہاں اس نے دیوار پر چاک کے ساتھ ایک نعرہ لکھا۔ پھر اس نے اپنی قمیض اتار کر مجھ سے درخواست کی کہ اس کے جسم پر یہ نعرہ لکھوں۔‘

Ikram Hossain

پینٹر اکرام حسین نے نور کو بتایا تھا کہ ’میرا بھائی صدر کا قاصد ہے، میں ایسا نہیں کرسکتا‘

اکرام خوفزدہ ہو گئے۔

’میں نے اسے بتایا کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ میرا بھائی صدر کا قاصد ہے۔ وہ مشکل میں پھنس جائے گا۔ تم گرفتار کیے جا سکتے ہو۔ تمھیں مارا جا سکتا ہے۔‘

لیکن نور پرعزم تھا۔ اس نے اکرام سے کہا کہ تم پریشان نہ ہو کیونکہ اگلے دن سینکڑوں لوگ اپنے جسم پر اسی نعرے کو پینٹ کر کے آئیں گے۔

اکرام راضی ہو گئے اور نور کے جسم پر دو نعرے پینٹ کر دیے۔

سامنے کی جانب درج تھا ’سائرہ چر نیپات جک یعنی اس استبداد کو گرا دو‘ اور پشت پر یہ نعرہ پینٹ کیا ’گونوتونترا مکتی پاک (جمہوریت کو آزاد کرو)۔‘

پھر اکرام نے ہر نعرے کے بعد دو فل سٹاپ لگائے۔

وہ کہتے ہیں ’یہ میں نے اس لیے کیا تاکہ میں دیگر سینکڑوں لوگوں کے جسموں پر لکھے نعروں سے اپنے ہاتھ سے پینٹ کیے جانے والے نعرے کو پہچان سکوں گا۔‘

لیکن جب دوسرا دن چڑھا تو گلیوں میں اپنے جسم پر نعرے لکھے فقط ایک ہی شخص موجود تھا اور اس کی ہلاکت کے کچھ ہی لمحے قبل ہجوم میں اس کے جسم پر پینٹ ہونے والے روشن حروف فوٹوگرافرز کی توجہ حاصل کر گئے۔

فوٹوگرافر: ’اس نعرے نے میری توجہ فوراً حاصل کر لی‘

فوٹو گرافر پاول رحمان نے مجھے بتایا کہ وہ نور حسین کی پشت ہی دیکھ پائے۔ میں رحمان کے ساتھ ڈھاکہ کے ایک اخبار میں کام کرتا تھا۔ وہ تقریباً 50 سال سے فوٹوگرافی کے شعبے سے منسلک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پینٹ کی روشنی دیکھی اور جب نعرے کا مطلب سمجھے تو ان کے دل کو جا لگا۔

رحمان کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی کسی مظاہرہ کرنے والے کے اپنے جسم پر اس سے پہلے نعرہ لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس نعرے نے میری توجہ فوراً حاصل کر لی اور اس سے پہلے کہ وہ ہجوم میں گم ہو جاتا مجھے اس کی دو تصویریں لینے کا موقع مل گیا۔

ایک عمودی اور ایک افقی زاویے سے۔ یہ دونوں تصویر نور حسین کی پشت کی تھیں۔ رحمان کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس کے سینے پر کیا نعرہ درج تھا۔‘

اس شام رحمان اپنے اخبار کے دفتر کے تاریک کمرے میں اپنے کیمرے سے نکالی گئی فلمز کو ڈویلپ کر رہے تھے تو انھیں ان کے ایک ساتھی نے آ کر بتایا کہ جس مظاہرہ کرنے والے شخص نے اپنے جسم پر نعرے پینٹ کیے تھے وہ مر گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پھر ’یہ بحث ہوئی کہ کیا ہمیں یہ تصویر لگانی چاہیے۔ پہلے میرے مدیر اعلیٰ نے سوچا کہ یہ بہت پر خطر ہوگا حکومت کی جانب سے اس پر بہت شدید ردعمل آ سکتا ہے۔ پھر آخر میں ہم نے اسے چھاپنے کا فیصلہ کیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’صدر ارشاد بہت غصے میں تھے۔ حکومت کی جانب سے تجویز تھی کہ ہم نے جعلی تصویر بنائی ہے۔ میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ مجھے کئی روز تک روپوش ہونا پڑا۔‘

پاول کی تصویر پورے ملک میں پھیل گئی اور ایک پوسٹر بن گئی۔

لیکن کوئی نور حسین کا چہرہ نہ دیکھ پاتا اگر ایک اور فوٹوگرافر دینو عالم نہ ہوتے جنھوں نے سامنے سے نور کی تصویر لی۔

Nur Hossain mural

نور حسین وال

عالم نے بتایا کہ ’میں نے سامنے سے (نور کی) بہت سی تصاویر لیں۔ میں کچھ دیر تک اس کے اردگرد ہی رہا میں مکمل طور پر بے خبر تھا کہ اس کی پشت پر ایک اور نعرہ لکھا ہوا ہے۔‘

عالم کہتے ہیں کہ ’شاید میں نے نور حسین کے آخری لمحات کو محفوظ کیا۔‘

رات کا پہرہ دار

جب اکرام حسین نے دیکھا کہ وہ تصویر اگلے دن اخبار کے صفحہ اول پر موجود ہے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے دوست کی موت کا ذمہ دار خود کو ٹھہرایا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ اگر میں اس کے جسم پر نعرے نہ لکھتا تو وہ زندہ ہوتا۔‘

اپنے تحفظ کے پیشِ نظر اکرام روپوش ہو گئے اور کئی برسوں تک پولیس اور حکام سے بچتے رہے۔

تین برس بعد جب صدر ارشاد کی حکومت ختم ہو گئی تو اکرام نے خود کو محفوظ تصور کیا۔

پھر آخر کار نور کی قبر کے پاس ایک یادگار تعمیر ہوئی اور اکرام وہاں گئے۔

تقریب کے بعد وہ نور کے بھائی علی سے ملے وہ کئی برسوں تک خوف اور پشیمانی کی وجہ سے اس خاندان سے دور رہے لیکن اب وہ اپنی کہانی سنانا چاہتے ہیں۔ علی نے ان سے کہا کہ آپ کو میرے والد سے ملنا چاہیے۔

ان کے آبائی گھر پہنچ کر اکرام رو پڑے۔

انھوں نے معافی مانگی اور اپنے پچھتاوے کا اظہار کیا۔ لیکن نور کے والد نے اسے گلے لگا لیا اور کہا ’تم میرے بیٹے جیسے ہو۔‘

’ہم نے نور کو کھو دیا لیکن اب تم میرے بیٹے ہو۔ یہ تمھارے اور نور کی وجہ سے ہے کہ آج ہمارے پاس جمہوریت ہے۔‘

سنہ 1987 میں نور کے والدین کو ایک ہفتہ لگا یہ پتہ لگانے میں کہ ان کے بیٹے کی لاش کے ساتھ کیا ہوا۔

پولیس نے نور کی تدفین ڈھاکہ کے ایک قبرستان میں خفیہ طور پر ایک بے نشان قبر کی صورت میں کر دی تھی۔

ان کے ہمراہ دو اور ہلاک ہونے والے مظاہرین کو بھی سپرد خاک کیا گیا تھا۔

Nur Hossain in the crowd

اس مظاہرے میں نور حسین کو نیچے دائیں جانب دیکھا جاسکتا ہے

لیکن پھر ان کی لاشوں کو تدفین کے لیے تیار کرنے اور پھر دفن کرنے والے شخص سے اس بارے میں پتہ چلا۔

میں نے جوڑیاں قبرستان کی رکھوالی کرنے والے کو فون کیا یہ پوچھنے کے لیے کہ نور کی تدفین کہاں ہوئی ہے۔

وہ وہاں کچھ برس تک رہے لیکن انھوں نے مجھے محمد عالمگیر کا نام بتایا جو کہ سنہ 1987 میں جوڑیاں قبرستان میں رات کے وقت پہرہ دیتے تھے۔

کئی بار فون کرنے کے بعد میں ان تک پہنچ گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا انھیں وہ رات یاد ہے۔ عالمگیر نے مجھے بتایا کہ ’وہ تقریباً رات کے ڈھائی بجے کا وقت تھا جب وہ لوگ وہاں پہنچے۔‘

’میں رات کا پہرہ دار تھا لیکن مجھے اور کام بھی کرنے ہوتے تھے۔ قبروں کو کھودنا، لاشوں کو نہلانا دھلانا اور مردوں کو دفنانا۔‘

عالمگیر نے اس رات آنے والے ایک شخص کو بتایا کہ ہم شب 11 بجے کے بعد مردوں کو نہیں دفناتے لیکن اس نے زور دیا اور کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے ہیں۔ پھر عالمگیر نے لاشوں کو غسل دیا اور دیگر لوگوں نے قبروں کو کھودنا شروع کر دیا۔

انھوں نے بتایا کہ جس لاش کے جسم پر نعرے درج تھے ’اس کے چھاتی کے نیچے پیٹ کے پاس گولی کا سوراخ تھا۔‘

’میں نے پینٹ کو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔‘

عالمگیر نے یہی بات اکرام حسین کو بھی سنہ 1990 میں بتائی تھی جو ان سے اسی قبرستان میں ملے تھے۔

اکرام حسین جنھوں نے نور کے جسم پر پینٹ کیا تھا نے انھیں جواب دیا کہ ’ہاں وہ مشکل ہوا ہو گا، میں نے نعرے اینیمل پینٹ سے درج کیے تھے۔‘

بعد میں نور کے والدین کو ایک اور شخص ملنے آیا جس نے انھیں دیکھنے کے لیے برسوں انتظار کیا تھا۔

جنرل ارشاد جنھیں سنہ 1990 میں جیل بھیج دیا گیا تھا کو سنہ 1997 میں رہائی ملی۔

انھوں نے مجیبر اور ان کی اہلیہ مریم سے ان کے گھر میں ملاقات کی۔ وہ ان سے معافی مانگنے کے لیے آئے تھے۔

علی حسینی اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے میرے والد کو کہا کہ اگر آپ کا بیٹا آج زندہ ہوتا تو وہ جیسے آپ کا خیال کرتا میں اسی طرح آپ کا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا۔‘

اگلے کچھ برس تک جنرل ارشاد اس خاندان کے ساتھ رابطے میں رہے اور انھیں کبھی کبھار پیسے بھجواتے تھے۔

علی کہتے ہیں یہ تب تک رہا جب ایک بار ڈھاکہ یونیورسٹی میں مجیبر اپنے بیٹے کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے مخاطب ہوئے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں حاضرین سے کہا ’میں کبھی نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں ڈکٹیٹر شپ واپس آئے۔‘

علی کہتے ہیں اس خطاب نے ارشاد کو برہم کر دیا۔

’انھوں نے دوبارہ میرے والد کو کبھی فون نہیں کیا۔‘

جنرل

میں ایک بار جنرل ارشاد سے ملا۔ یہ ملاقات نور کی ہلاکت کے دس برس بعد ہوئی۔

یہ سنہ 1999 تھا اور ارشاد اس وقت اپوزیشن میں موجود سیاسی رہنما تھے۔ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے سفر کر رہے تھے۔

میں بنگلہ دیش کے جنوبی دریا کی جانب ان کے ایک دورے کے موقع پر ان کے ساتھ گیا۔

ان کے ایک ساتھی نے انھیں بتایا کہ میں زمانہ طالب علمی میں منحرف کارکن تھا اور پولیس نے مجھے جیل میں ڈال دیا تھا۔

ایک روز ناشتے پر ہنستے ہوئے انھوں نے اسے کہا ’میں نے سنا ہے تم بہت انقلابی تھے۔‘ جنرل جن کی موت گذشتہ برس ہو گئی ہے سہل پسند اور دلکش شخصیت کے مالک تھے لیکن ان کے بہت سے چہرے تھے۔

وہ اقتدار میں سنہ 1982 میں ایک خون آلود فوجی بغاوت کے ذریعے آئے۔

انھوں نے وہی طریقہ کار استعمال کیا جو دنیا بھر کے فوجی ڈکٹیٹر کرتے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کا وعدہ، حکومتی اصلاحات اور سیاست میں کلین اپ۔

انھوں نے اسلام کو بنگلہ دیش کا قومی مذہب کا درجہ دے دیا۔ مذہبی قدامت پسندوں کے لیے سیکولر آئین میں تبدیلیاں کیں۔

سنہ 1986 کے انتخابات میں ان کی کامیابی ووٹرز کے دھوکہ دہی کے الزامات اور اقتدار کے دوران ملک کا آئین معطل کرنے اور پارلیمنٹ میں سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہوئی۔

انھوں نے سنہ 1987 کے مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کنٹرول کرنے کی قیادت کی جس کے نتیجے میں وہ حوالات بھی گئے اور نور حسین نے اس کی قیمت زندگی گنوانے کی صورت میں ادا کی۔

سنہ 1990 میں ارشاد کا نو سالہ اقتدار ختم ہو گیا۔ جب انھیں بڑے پیمانے پر بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔

کچھ دن بعد انھیں قید کر دیا گیا۔

اس کے بعد ہزاروں لوگوں نے گاتے، ڈانس کرتے ہوئے ڈھاکہ کی گلیوں میں مارچ کیا۔

مجھے آج بھی اس دن کا جشن یاد ہے۔

ملک نے 1971 کی آزادی کے بعد سے اب تک ایسا کوئی دن نہیں دیکھا تھا۔

مجھے یہ ایک نئے سورج کے طلوع ہونے جیسا لگا۔ بنگلہ دیش کے لیے ایک نئی شروعات۔ لیکن یہ بہت تھوڑے عرصے تک رہ پایا۔

دو مرکزی جماعتوں عوامی لیگ اور بی این پی میں اقتدار کے لیے جلد ہی تلخ جنگ شروع ہوئی۔

آنے والی دہائیوں میں انھوں نے ملک پر حکمرانی باریوں کی صورت میں کی۔ انھوں نے اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جیسے سابقہ حکومتوں نے کیے تھے۔

اکرام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش نے جمہوریت کو بہت مختصر وقت کے لیے دیکھا ہے۔ ’اس کے مکمل جوبن پر، مکمل روشن چاند کی مانند جب وہ رات کو آسمان پر چمکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب وہ جمہوریت کہاں ہے؟‘

اکرام آج بھی سائن بورڈ آرٹسٹ ہیں۔ اگرچہ ان کا اب زیادہ تر کام ڈیجیٹل ہوتا ہے۔ اب بہت کم ضرورت پڑتی ہے، اینیمل پینٹ کی۔

ہٹکالا روڈ پر ان کی ایک چھوٹی سی دکان صدارتی سٹاف کوارٹرز سے چند سو میٹر کی دوری پر ہے جہاں وہ سنہ 1987 میں رہائش پذیر تھے۔

اس سے کچھ دوری پر اکرام کی پرانی دکان ہے۔ وہ گلی جہاں انھوں نے نور کے جسم پر نعرے لکھے تھے اور اس سے تھوڑا پیچھے وہ مقام ہے جہاں نور کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ جگہ اب نور حسین سکوائر کہلاتا ہے۔

یہ تصاویر یوسف تشہر نے بی بی سی کے لیے بنائیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp