اے پی ایس کے بچے سب سے الگ کیوں؟


ہم جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ منافقت اور دوہرا معیار کس قدر حاوی ہو چکا ہے ہم سب پر، مطلب ایک ہی قانون کی خلاف ورزی پر چند سزا کے مرتکب ٹھہرتے ہیں جبکہ بہت سے اس سے بری الذمہ قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ یا تو وہ پیسے والے ہیں یا پھر کسی بڑی شخصیت کے جاننے والے ہیں۔ حضرت علی کا قول جو ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی اکثر بیان کرتے نہیں تھکتے کہ ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے، مگر ظلم اور نا انصافی کا نہیں“

اس سے پہلے بھی قومیں اس لیے تباہ ہوئی جہاں طاقتور کے لیے الگ قانون تھا جبکہ کمزور کے لیے الگ، یہ الفاظ بھی ہم اکثر سنتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے یہی چیز ہمارے معاشرے میں بھی ہے۔ یہاں تعلیم کا معیار سب کے لیے الگ ہے امراء، وزرا، اور بہت سے لوگوں کے بچے اچھے پرائیویٹ سکولوں یا بیرون ممالک سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کا نصاب بھی سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے مختلف ہوتا، اسی طرح علاج کی سہولت بھی سب کے لیے الگ ہے امیر تو پرائیویٹ سے علاج کروا لیتا جبکہ غریب کو سرکاری ہسپتالوں میں ذلیل ہونا پڑتا۔

اسی طرح ہمارے ملک میں دہشتگردی کی وجہ سے بہت سے بے گناہوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے، آئے دن خود کش دھماکے اور اموات روز کا معمول بن چکا تھا، ہماری سیکورٹی فورسز اور ریاست کی کاوشوں کی وجہ سے اللہ نے ہمارے ملک سے دہشتگردی کافی حد تک ختم کر دی ہے،

مگر صرف ایک آدھ واقعہ کو ہی کیوں ہر سال یاد کیا جاتا ہے؟

فیصل آ باد سے سکول کے بچوں سے بھری بس ٹرپ پر گئی کھائی میں گر گئی درجنوں بچے شہید ہوئے۔ کراچی میں بھتہ کے نام پر انڈسٹری جلا دی گئی جس میں اڑھائی تین سو سے زائد ماؤں کے بیٹے، بیویوں کے سہاگ، بچوں کے باپ اور بہنوں کے بھائی مرے۔ ماڈل ٹاؤن میں سو سے زائد مردوں اور عورتوں پر سیدھی فائرنگ کی گئی جس میں پریگننٹ عورتیں بھی شامل تھی۔ ستر ہزار پاکستانی اب تک پندرہ بیس سالوں میں دہشت گردی اور اپنوں کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے۔ تھر میں قحط اور پانی کی قلت کی وجہ سے بچے روز مر رہے ہیں سینکڑوں سے بھی زائد مر چکے ہیں جبکہ سوکڑا اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

مان لیا ہے اے پی ایس والا واقعہ بہت ہی دلخراش اور نا بھولنے والا ہے۔ اللہ دشمنوں کو نیست و نابود کرے بچے تو ویسے ہی جنت میں ہوں گے۔ کیا باقی بچے جو مرتے ہیں وہ انسانوں کے نہیں ہیں؟ کراچی فیکٹری میں جو لوگ جل جل کے مرے وہ کیا پتھر کے تھے؟ قصور میں سینکڑوں بچے جو پہلے تو زیادتی کا شکار ہوتے پھر درد ناک طریقے سے اذیت دے دے کر مارا گیا ان کو کبھی سال بعد یاد کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان کو درندوں سے بچانے کا کیوں نہیں سوچا جا رہا؟ وہ بھی تو بچے ہیں؟ ان کو میڈیا کوریج کیوں نہیں ملتی؟ بچے تو سبھی ایک جیسے نہیں ہوتے؟

اس وقت جو تقریباً بیس ملین بچے سکول سے باہر ہیں ان کو ورکشاپوں، ہوٹلوں، اور موچی بن کے کام کرنا پڑتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی طرف آپ کو روز دس، بارہ سال کے بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ان کے لیے کیوں نہیں بولتے؟ لاکھوں بچے جو زندوں میں ہیں نا مردوں میں ان بچوں کے کون والی وارث ہیں؟ دسمبر لوٹ آیا ہے تو فلاں ہو گیا فلاں گیا، جو زندہ ہیں اور روز مر رہے ہیں ان کا کیا؟ کیوں کہ وہ عام شہریوں کے بچے ہیں؟ ہمارے عوام بھی بہت معصوم ہیں جدھر میڈیا اور سوشل میڈیا لے کر جاتا ہے چل پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).