اماراتی شیخ نے اسرائیل کے ’انتہائی نسل پرستانہ‘ فٹبال کلب میں سرمایہ کاری کیوں کی؟
چار دسمبر کو جب 100 کے قریب مداحوں نے جب ’بیتار یروشلم‘ نامی فٹبال کلب کے پریکٹس سیشن کے دوران گراؤنڈ پر دھاوا بولا تو اس بات پر احتجاج نہیں کر رہے تھے کہ یہ کلب اسرائیلی لیگ کی ریلیگیشن زون کے انتہائی قریب بنایا گیا ہے۔
وہ اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ کلب میں سرمایہ کاری کے لیے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ایک شخص سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں۔
ادھر سات دسمبر کو کلب نے اعلان کیا کہ انھوں نے شیخ حماد بن خلیفہ النہیان کے ساتھ سرمایہ کاری کا ایک معاہدہ طے کر لیا ہے۔
بیتار کلب کے مداحوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عرب مخالف، مسلم مخالف ہیں اور ان کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب اور اسرائیل کی یہ بڑھتی قربت کیوں؟
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا قانون ختم کر دیا
اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟
اس اعلان سے قبل گراؤنڈ پر دھاوا بولنے کے علاوہ مداحوں نے سٹیڈیم کی دیواروں پر غیر مناسب پیغامات بھی لکھ ڈالے تھے۔
ادھر اس معاہدے کو عرب دنیا میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
کھیلوں کے ایک ریڈیو شو کے میزبان سعید جسنین نے نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ’شرمناک‘ ہے۔
انھوں نے خصوصاً اس بات پر تنقید کی کہ ایک ایسے کلب میں سرمایہ کاری کی گئی ہے جو کہ عرب مخالف ہے۔
بیتار کلب اسرائیلی لیگ کی 14 ٹیموں میں سے 11ویں درجے پر ہے۔ اس کو خریدنے کے لیے شیخ النہیان نے آئندہ دس سالوں میں 92 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے عوض انھیں اس کلب میں 50 فیصد ملکیت دی گئی ہے۔
یہ معاہدہ ان کئی معاہدوں میں سے ایک ہے جو ستمبر میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد طے پائے ہیں۔
اگرچہ یہ ان معاہدوں میں سب سے اہم نہیں، تاہم بیتار کا معاہدہ شاید سب سے زیادہ متنازع معاہدوں میں سے ایک ہے۔
یہودی اور عرب کھلاڑی اسرائیل میں اکثر اکھٹے کھیلتے ہیں اور قومی ٹیم میں بھی ایسا ہے۔ مگر اس کلب نے کبھی کسی عرب کھلاڑی کو جگہ نہیں دی تاہم ان کی جونیئر ٹیموں میں عرب کھلاڑی ہیں۔
سنہ 2013 میں مبینہ طور پر مداحوں نے بیتار کے دفاتر کو آگ لگا دی تھی کیونکہ انھوں نے چیچنیا کے دو مسلمان کھلاڑیوں کو خریدا تھا۔
میچوں کے درمیان نسل پرستانہ نعرے جیسے کہ ’عرب مر جائیں‘ اور نازیبا بینر تو عام بات ہیں جبکہ کلب کے مالک نے کوشش کی ہے کہ ایسا نہ ہو۔
نئے مالکان، پرانے مسائل
موشے ہگگ کا تعلق آئی ٹی کی صنعت سے ہے اور وہ لکھ پتی ہیں۔ انھوں نے سنہ 2018 میں بیتار خریدا تھا۔ وہ خود اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے مگر ان کے والد تیونس اور والدہ مراکش سے تھیں۔
دسمبر 2019 میں بی بی سی کے ایک انٹرویو میں انھوں نے کلب کی نسل پرستانہ کارروائیوں کو روکنے کی اپنی کوششیں بیان کی تھیں جن میں امتیازی سلوک کرنے والے مداحوں کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی بھی شامل تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کسی کی زندگی تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا مگر میں کسی کا ماں یا باپ نہیں ہوں۔ میں انھیں کچھ سیکھانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔‘
’مگر جب آپ اپنا رویہ سٹیڈیم میں لے کر آتے ہیں تو یہ سارے مداحوں اور ہماری قوم کی بےعزتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کسی عرب کھلاڑی کو اس لیے نہیں خریدیں گے کہ وہ عرب ہے مگر کھیل کی وجوہات پر وہ ایسا کرنے سے روکیں گے بھی نہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’میں کسی کھلاڑی کے مذہب کے بارے میں یا اس کی رنگت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا وہ ہمیں کامیابی دلانے کے قابل ہے، کیا وہ اچھا فٹبالر ہے؟‘
شیخ النہیان کے ساتھ معاہدے کے بعد موشے نے قدرے متوازن لہجہ اختیار کیا۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ہم مل کر اس کلب کو نئے بھائی چارے کے ساتھ آگے لے کر جائیں گے۔
ادھر شیخ النہیان کا کہنا ہے کہ انھیں اس کلب میں دلچسپی موشے کے ساتھ کئی سالوں کی دوستی کی وجہ سے تھی۔ ان کے موشے کے ساتھ دیگر کاروباری روابط بھی ہیں۔
انھوں نے معاہدے کے بعد اعلان کیا کہ وہ اس معاہدہ کا حصہ بننے کے بعد بہت خوش ہیں۔ ’میں نے کلب میں تبدیلیوں کے بارے میں بہت سنا ہے اور میں اس کا حصہ بننے پر خوش ہوں۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).