فرانسیسی ملکہ انٹونیٹ کا کیک اور ترک ڈرامہ یونس ایمرے


تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کے رویے ہمیشہ سے ایک جیسے رہے ہیں۔ بادشاہت ہو یا شخصی آمریت یاپھر نیم جمہوری نظام جو بھی مسند نشیں ہوا اس کا لب ولہجہ عام انسانوں جیسا نہیں رہا۔ فرانسیسی عوام روٹی کو ترس رہے تھے اور آٹے کی قلت کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ ملکہ میری انٹونٹ نے عوامی احتجاج کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کم نصیب بھوکے ہیں اور آٹے کی قلت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تاکہ روٹی سے پیٹ کا دوزخ بھرسکیں۔

ملکہ نے حیرت سے کہا کہ اس پر احتجاج کی کیا ضرورت ہے اگر روٹی نہیں مل رہی تو ان سے کہیں کہ یہ کیک کھالیں۔ پھر کیا ہوا یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے ہمالیہ تلے کراہتے مظلوم عوام کو ان کے حاکم نے پچاس لاکھ نوکریاں، ارزاں نرخوں پر اشیاے خورد و نوش دینے کی بجائے نصحیت کی کہ وہ ترک ڈرامہ یونس ایمرے دیکھیں۔ ارطغرل ڈرامے کے بعد ایک اور ڈرامے کی نصحیت سے کیا عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ کیا یہ ڈرامہ دیکھنے سے روزمرہ کی اشیا سستی ہوجائیں گی اور بے روزگاروں کو روزگار مل جائے گا۔ تعلیم سستی اور صحت کی سہولتیں عام ہوجائیں گی۔

کیا ڈرامہ یونس ایمرے دیکھنے سے غربت کی شرح میں کمی ہو جائے گی اورفی کس آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیا واقعی یہ ڈرامہ ہمارے مسائل کا حل دے سکتا ہے ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یونس ایمرے جیسے ڈرامہ کو دیکھنے کی بجائے اس عہد کے لوگ ایک بہت بڑی سٹار کاسٹ کی کوئی فلم دیکھنے پر مجبور ہوں اور فلم بھی ایسی کہ جس کا پہلا شو ہی فلاپ ہو گیا ہو۔ فلاپ ہونے کی وجوہات کا اگر تعین کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ فلم کی کاسٹ کے ہر کردار کا انتخاب بڑی سوچ بچار کے بعد ہوا تاہم ڈائریکٹر سے سکرپٹ میں غلطی ہو گئی۔

فلم کا پہلا ہاف جو احتجاجی سیاست اور دلکش نعروں پر مبنی تھا ٹھیک رہا۔ ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ رقص نے فلم بینوں کو بور نہیں ہونے دیا۔ انٹرول کے بعد دوسرا ہاف کمزور اسکرپٹ، اداکاروں کی اوور ایکٹنگ کے سبب ایسا فلاپ ہوا کہ فلم بینوں کو وقت اور پیسے کے ضیاع پر افسوس ہونے لگا۔ مگر فلم کا اختتام تو دیکھنا ہے

اور اسی سبب فلم ناچاہتے ہوئے بھی دیکھی جا رہی ہے مگر کب تک کوئی فلاپ فلم کو دیکھ سکتا ہے۔ کتنی دیر برداشت کر سکتا ہے۔ بے سروپا کہانی، روایتی گھسے پٹے جملے، اوورایکٹنگ اور کمزور ڈائریکشن فلم بینوں کو کہاں متاثر کرتی ہے۔ مگر سینما ہال کے دروازے بند ہیں اور شرط ہے کہ فلم لازمی دیکھنی ہے۔ فلم بینوں میں بے چینی اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی جان چھڑا کرسینما ہال سے نکلنا چاہتا ہے۔ مگر اس کی اجازت نہیں مل رہی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر فلم کے پہلے شو کا یہ حال ہے تو فلم بقیہ دنوں میں کیسے چلے گی۔ ان حالات میں تو طے ہو گیا کہ بالکل نہیں چلے گی۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہوگا کیا۔ کیا کوئی نئی فلم بنائی جائے گی یاپھر اسی فلم میں ایڈیٹنگ کر کے اس کو دلچسپ بنایا جائے گا۔ دیکھنا پڑے گا کہ آنے والے دنوں میں فلم ڈائریکٹر اس پر کیا فیصلہ لیتا ہے۔

جہاں تک فیصلے کی بات ہے تو وطن عزیز میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اصولی طور پر طے ہوا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک اراکین اسمبلی سے استعفے لے کر جنوری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ اور ضرورت پڑنے پران استعفوں کو استعمال کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے نون لیگ میں فارورڈ بلاک بننے کی افواہوں کے پیش نظر نون لیگی اراکین اسمبلی کے استعفوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے 70 فیصد استعفوں کی شرط عائد کی ہے جبکہ اجلاس میں نون لیگی قیادت نے ان خدشات کو جھٹلاتے ہوئے صد فیصد نتائج کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بھی طے ہوا ہے کہ نون لیگی اراکین اسمبلی سے استعفے میاں نواز شریف خود طلب کریں گے۔ تاہم اجلاس میں نون لیگ سمیت سب جماعتوں کو 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے حاصل کر لیں۔ اس ضمن میں اطلاعات ہیں کہ جے یو آئی پہلے ہی اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے حاصل کرچکی ہے۔

اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے استعفے مولانا فضل الرحمن کے پاس جمع کرادیں تاکہ بوقت ضرورت وہ ان استعفوں کو اسپیکر کو جمع کرادیں۔ قومی اسمبلی کے اراکین اسمبلی کے استعفے پی ڈی ایم کے احتجاجی ایجنڈے کا سب سے آخری قدم ہوگا اور پی ڈی ایم کو شاید یہ یقین ہے کہ لانگ مارچ کی صورت وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرلے گی۔ اس لیے اجلاس میں زیادہ فوکس لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک جیسی تجاویز پر غور ہوتا رہا۔

ان حالات میں لاہور کے اقبال پارک میں 13 دسمبر کو ہونے والا جلسہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جس میں پی ڈی ایم اپنے آئندہ کے حتمی سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت کم و بیش تمام جماعتیں مذاکرات کررہی ہیں مگر یہ مذاکرات حکومت کے ساتھ نہیں ہورہے۔ 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت اس برسی پر منعقد ہونے والے جلسہ میں بھی شرکت کرے گی۔

وقت گزرتا جا رہا ہے اور یہ سیاسی فلم اپنے کلائیمکس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ فلم کے ہیرو کی خراب پرفارمنس سے بور ہونے والے فلم بینوں کی فلم میں دلچسپی ولن کے سبب دوبارہ پیدا ہونے لگی ہے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہوگی کہ فلم اپنے ہیرو کی بجائے ولن کی زبردست پرفارمنس سے چل پڑے اور فی الحال ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ڈائریکٹر کواپنی فلم کامیاب کرانی ہے اگر ولن کے کردار سے فلم چلتی ہے تو ڈائریکٹر اسی کو پروموٹ کرے گا۔ کیونکہ فلم انڈسٹری کی دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ ڈائریکٹر کو کسی خاص کردار سے نہیں بلکہ اپنی فلم سے غرض ہوتی ہے۔ اگر فلم ولن کے سبب چلتی ہے تو وہ ولن ڈائریکٹر کی نظر میں ہیرو ہے۔ رہی بات فلم دیکھنے والے عوام کی تو وہ تھرڈ کلاس فلم کے کسی ایک سین پر بھی خوش ہو کر سینما ہال سے سیٹیاں مارتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).