2020 کے اہم انکشافات


فائدے نقصان تو زندگی کا حصہ ہیں، بہتری اور بدتری بھی آتی جاتی رہتی ہے، ان پیمانوں پر سال کا جائزہ کیا لینا، بھیے! اصل چیز ہووے ہے ”جاننا“ ، یعنی کسی چیز کا انکشاف ہونا، کوئی نئی بات معلوم ہونا۔ ہم پاکستانی تو جاننے کے بے حد شوقین ہیں۔ اسی لیے ہمارے ایس ایم ایس، واٹس ایپ پیغامات اور فیس بک کے ان باکس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ”جان“ ہے، ہماری تحقیق تو یہی بتاتی ہے کہ لفظ جان، جان کی طرح ”جاننا“ سے نکلا ہے، آپ کو اختلاف ہے تو آپ کی مرضی۔ اپنی قوم کے جاننے کے رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے سوچا ”بیس سو بیس“ میں سامنے آنے والے اہم انکشافات ایک جگہ جمع کر کے پیش کیے جائیں تاکہ آپ کی خاطر جمع ہو۔

پہلا انکشاف، ہم سب جذباتی ہیں :

اب تک تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ ہم نالائق سویلین ہی جذباتی ہوتے ہیں، لیکن اس برس منکشف ہوا کہ ہوش والے ”سرکاری اہل کار“ بھی جوش وجذبے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اتنا کہ ”عوام“ کے دباؤ پر ”تیرے بیٹے ترے جاں باز چلے آتے ہیں“ کہتے سندھ کے آئی جی کو جا کر ”داب لیا“ یا بہ الفاظ دیگر ”دھڑ دبوچا۔“ دباؤ کا معاملہ یہی ہے، اسی لیے شاعر نے کہا تھا ”اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے“ ، شاعر نے یہ اسلام کی فطرت کے بارے میں کہا تھا، مگر ہم ”اس لام (ل)“ کی بات کر رہے ہیں جو اردو کا حرف ہے اور مارشل لا، لازمی، بلے اور بنی گالہ کے ساتھ آتا ہے، کہیں پہلے آتا ہے، کہیں بیچ میں، کہیں آخر میں۔

اور کبھی کبھی تو نظر ہی نہیں آتا، ویسے تو خیر وہ جاتا ہی کب ہے جو آئے گا! بہ ہر حال، اس واقعے نے قوم کو دو حقائق سے آشنا کیا۔ پہلا یہ کہ ہمارے ”اہل کاروں“ کی اہلیت جذبات میں آ کر دوچند ہوجاتی ہے، سو جذبات میں بعض اوقات وہ کچھ ایسا کرجاتے ہیں کہ بات بگڑ جاتی ہے۔ دوسری حقیقت یہ تھی کہ عوامی دباؤ تب ہی کام آتا ہے جب ”جھکاؤ“ بھی ساتھ ہو، اسی لیے کہتے ہیں ”گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو“ یہ نعرہ آج تک اپنی جگہ استقامت سے کھڑی کسی دیوار کے لیے نہیں لگا۔ ایک تیسری ضمنی حقیقت یہ سامنے آئی کہ عوام جتنے تھوڑے ہوں گے دباؤ اتنا زیادہ ہوگا، اور یہ تھوڑے عوام گنے ہوئے نہیں تولے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی ”سلیکٹڈ۔“

دوسرا انکشاف، بس کچھ لوگ ضروری ہیں :

آپ نے ایک نعرہ یقیناً سنا ہوگا ”ہم نہ ہوں ہمارے بعد۔“ اسی طرح کی ایک ”قومی دعا“ اس برس سننے کو ملی۔ دعا کرنے والے مولانا اس قدر رو رہے تھے کہ ہمیں ان کے لیے دعا کرنی پڑی ”یا ا اللھ! صبر جمیل عطا کر کے انھیں اسم باسمیٰ کردے۔“ مولانا کی دعا اس راز سے پردہ اٹھا گئی کہ عمران خان ”نیک سیرت، دیانت دار اور محنتی حکم راں“ ہیں۔ مولانا نے جس طرح وزیراعظم اور بری، بحری اور فضائی فوج کے سربراہان کی زندگی کے لیے گڑگڑا کر دعا مانگی اس سے قوم کو پتا چل گیا کہ ملک کی سلامتی کے لیے تین چار افراد کا سلامت رہنا ضروری ہے، باقی ہم آپ جیسے تو روز پیدا ہوتے روز مرتے ہیں۔ ”اے خدا مرے ابو سلامت رہیں“ والا اشتہار بہت پہلے چل چکا ہے، ورنہ ہم یہی سمجھتے کہ یہ اشتہار مولانا کی دعا کا چربہ اور ”ابو“ کو خوش رکھنے کا حربہ ہے۔

تیسرا انکشاف، کورونا کے بھی کچھ اصول ہیں :

دنیا بھر میں کورونا کی حقیقتیں ڈاکٹر اور طبی محققین سامنے لاتے رہے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ فریضہ سیاست دانوں اور حکم رانوں نے ادا کیا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر نے سر اٹھایا تو گلگت بلتستان کے انتخابات سر پر تھے اور حزب اختلاف حکومت کے خلاف سرگرم تھی۔ اب جوں ہی کورونا نے سر اٹھا کر یہ سرگرمیاں دیکھیں، سوچا جلسوں جلوسوں پر ہلا بولوں، لیکن یہ سوچتے ہی اس کا ضمیر جاگ اٹھا اور اس سے کہنے لگا، ”بے شرم!

جس ملک میں ایک سال سے رہ رہا ہے، وہاں کا کھا رہا ہے، اسی کی سیاست میں مداخلت کرے گا۔ ویسے بھی یہ حق تجھے حاصل نہیں“ بس پھر کیا تھا، کورونا کو اپنی سوچ پر رونا آ گیا اور اس نے ٹھان لی کہ ہم جلسوں جلوسوں میں نہ جاویں گے، بلکہ اسکولوں میں جاکر علم پاویں گے۔ کورونا کی اس ”پالیسی“ کا علم عوام کو حکومت اور حزب اختلاف کے اقدامات اور اعلانات سے ہوا۔ اگرچہ سرکاری تحقیق بتاتی ہے کہ کورونا صرف انتخابی سیاست میں، (وہ بھی اگر حکومتی جماعت کی ہو) مداخلت نہیں کرتا اور دور دور رہتا ہے۔

حکومتی جماعت پر اس مہربانی کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ گزشتہ برس جنم لینے والا کورونا وائرسوں کی عمر کے حساب سے ”یوتھ“ میں شمار ہوتا ہے اس لیے حکم راں جماعت کا حامی ہے۔ اب ظاہر ہے کورونا کوئی نیب تو نہیں، اس لیے حکومتی جلسوں کو چھوٹ دی تو حزب اختلاف کے جلسوں سے بھی چشم پوشی کرنی پڑی۔ کل ملا کر انکشاف یہ سامنے آیا کہ کورونا کے بھی کچھ اصول ہیں۔

چوتھا انکشاف، ملک مستحکم ہو گیا:

یکم جنوری کو وزیراعظم نے یہ کہہ کر قوم میں خوشی کی لہر دوڑادی کہ ان کی حکومت نے ”ملک مستحکم کر دیا، نیا سال خوش حالی کا ہو گا۔“ ہم نے بھی ٹھوک بجا کر دیکھا ملک واقعی مستحکم ہو گیا ہے، ورنہ پہلے جھڑ جھڑ کر گر رہا تھا۔ وزیراعظم کے دعوے کی تصدیق اس امر سے ہوتی ہے کہ مہنگائی اور بحرانوں کی یلغاروں نے لوگوں کی زندگیاں، روزگار اور کاروبار تباہ کر دیا، لیکن شکر الحمدللہ ملک مستحکم کا مستحکم ہی رہا۔ اب تو دوسرے ملکوں کے حکم راں ہماری حکومت سے پوچھ رہے ہیں کہ نئے پاکستان میں کون سی سیمنٹ اور بے جوڑ سریا استعمال کیا ہے؟

ہمیں بھی دو ہم بھی اپنا ملک مستحکم کر لیں گے، مگر خان صاحب نے صاف کہہ دیا ”میں نہیں بتاؤں گا۔“ سیدھی سی بات ہے وہ قومی راز کسی کو کیوں دیں۔ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ بیس سو بیس ملک میں خوش حالی کا سال ہوگا، ہمیں اس میں کوئی شک نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بیس سو بیس میں خوش حالی آ چکی ہے لیکن شاید ذخیرہ اندوزوں نے چار سو بیسی کرتے ہوئے گندم، پیٹرول اور گنے کی طرح اسے بھی چھپا لیا ہے۔ ممکن ہے پاکستان میں پہلی بار آئی ہے اس لیے کہیں شرمائی لجائی بیٹھی ہو۔ نئے پاکستان میں بننے والے لاکھوں گھروں اور لگنے والے پیڑوں کے جھنڈوں میں ڈھونڈا جائے تو شاید کہیں مل جائے۔

پانچواں انکشاف، غیرملکی ہمارے پیزوں پر پل رہے ہیں :

اس انکشاف نے تو ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا کہ امریکا اور متحدہ عرب امارات کے باشندے ہمارے ”پاک“ اور ”مضبوط“ ہاتھوں کا بنایا ہوا پیزا کھا رہے ہیں۔ ہمیں طعنے ملتے تھے کہ ہم دوسروں کا کھاتے ہیں، لیکن اب ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ دو امیر ملکوں کے شہری ہمارے پیزوں پر پل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ انکشاف بھی پاکستانیوں کے دل بڑھا گیا کہ ہمارے ”جوان“ پہرا ہی نہیں دیتے بیرون ملک پیزا دے کر بھی ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ بیرون ملک ان کے کاروبار اور جائیدادیں کمائی کے وسیلے نہیں دفاعی مورچے ہیں، تاکہ یہ ممالک اگر کبھی پاکستان پر حملے کی ٹھانیں تو پیزوں میں لال مرچیں بھر کر مفت کھلائی جائیں، یوں دشمن کا ہاضمہ اتنا خراب ہو جائے کہ اس کی نیت مزید خراب نہ ہو سکے۔

چھٹا انکشاف، زیادہ پانی آنے کی وجہ دریافت:

بلاول بھٹو نے یہ بتاکر کر سب کو دنگ کر دیا کہ ”زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔“ اس سے پہلے تک ملکی اور غیرملکی سائنس داں بس اتنا ہی جان سکے تھے کہ کم بارش ہوتی ہے تو کم پانی آتا ہے۔ ہم تو بھئی بلاول کی علمیت، قابلیت اور ذہانت کے قائل ہو گئے۔ انھیں سیاست داں کے بجائے سائنس داں ہونا چاہیے تھا، یوں وہ تحقیق کر کے ثابت کر سکتے تھے کہ جتنی زیادہ سیاست کی جائے اتنی زیادہ سیاست کرنے آتی ہے، اور ساتھ دولت بھی آتی ہے، لیکن یہ علم تو انھیں گھر سے ہی حاصل ہو گیا اس کے لیے جامعات میں سرکھپانے اور تحقیق میں دماغ لڑانے کی کیا ضرورت۔

البتہ سائنس یا سماجیات کے محقق بن کر وہ اس طرح کے انکشافات ضرور کر سکتے تھے۔ جسے زیادہ خارش ہو وہ زیادہ کھجاتا ہے، زیادہ زرداری ہوجائیں تو ان میں سے دوچار کو بھٹو بننا پڑتا ہے، زیادہ پیسہ آ جائے تو قریب رکھنے کے بجائے بہت زیادہ دور جمع کرانا پڑتا ہے۔ بلاول بھٹو کے اس انکشاف کی ذیلی حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی راج دہانی کراچی میں بارش ہو تب ہی پانی آتا ہے ورنہ جتنے زیادہ ٹینکر ہوں اتنا زیادہ پانی آتا ہے۔

ساتواں انکشاف، وزیراعظم کا بھی گزارہ نہیں ہوتا:

وزیراعظم نے یہ کہہ کر ہمیں رلا دیا کہ انھیں جو تنخواہ ملتی ہے اس سے ان کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ بیان سنتے ہی ملک کا ہر غریب ”پھوٹ پھوٹ کر“ گانے لگا، ”دنیا میں کتنا غم ہے، میرا غم کتنا کم ہے۔“ قوم سوچ رہی ہے کہ وزیراعظم کا تو کوئی پڑوسی بھی نہیں جس سے آٹا، نمک، شکر مانگ کر گزارہ کر لیں۔ پھر اتنے بڑے گھر کے کی صفائی ستھرائی، دھلائی کے لیے رکھے گئے نوکروں کا خرچہ۔ حیرت ہے، اخراجات کم کرنے کے لیے وہ مرغیاں کیوں نہیں پال رہے۔

ویسے وہ پارٹ ٹائم ملازمت کے ذریعے بھی اخراجات کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں، جیسے کسی ادارے کے سربراہ بن کر، لیکن شاید وہ ”ریٹائرڈ“ حضرات کی حق تلفی نہیں کرنا چاہتے۔ بہرحال، وزیراعظم کے اس انکشاف نے لوگوں کو باور کرا دیا کہ میاں وزارت عظمیٰ کی ”نوکری“ میں کچھ نہیں رکھا، گھر تک تو چلتا نہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ۔ چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا۔

ساتواں انکشاف، شمالی علاقہ جات کی خفیہ سیر کا رجحان:

سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل ایک روز اچانک لاپتا ہو گئے، پھر جیسے گئے تھے ویسے ہی چل پھر کے آ گئے۔ لوگوں نے ان کے غیاب میں نہ جانے کیا کیا افواہیں اڑا دیں، لیکن انھوں نے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کے سیرسپاٹے کے لیے نکل گئے تھے۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی غائب ہونے کے پے درپے ہونے والے واقعات سے پردہ اٹھ گیا اور قوم نے جان لیا کہ ان کے بعض ہم وطنوں میں شمالی علاقہ جات کی خفیہ سیر کا رجحان پرورش پا چکا ہے۔

پہاڑوں کا سفر ایڈوینچر تو ہوتا ہی ہے مزید ”ایڈوینچرانے“ کے لیے دورۂ شمال محبوب سے وصال کی طرح خفیہ رکھا جانے لگا ہے، اتنا خفیہ کے اکثر جانے والے کو خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ شمالی علاقوں کی سیر کرنے جا رہا ہے۔ اخفا کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ سفر کے لیے ٹریول ایجنسیوں کی جگہ ”خفیہ ایجنسیوں“ کی مدد لی جاتی ہے، اور وہیں جانتی ہیں کہ۔ راستے یا مکاں سے اٹھنا ہے۔ یہ مسافر کہاں سے اٹھنا ہے۔

آٹھواں انکشاف، سب کچھ ”وہی“ ہیں :

وفاقی وزیرریلوے شیخ پیش گوئیوں کے لیے مشہور ہیں، کسی ٹرین کے روانہ ہونے اور پہنچنے کے وقت کے علاوہ وہ ہر پیش گوئی کر سکتے ہیں، اگرچہ وہ نجومیوں کی طرح ستاروں پر تو نظر نہیں رکھتے، لیکن ”چار ستاروں“ تک رسائی کے باعث مستقبل کا کچھ نہ کچھ حال جان ہی لیتے ہیں۔ لیکن اس سال انھوں نے اپنی پیش گوئیوں سے کہیں بڑا انکشاف کیا۔ انھوں نے فرمایا، ”فوج ہی ملک کی جمہوریت، معیشت اور استحکام ہے۔“

اس انکشاف کی روشنی میں آئندہ ”جمہوریت سے زیادہ ملک اہم ہے“ ، ”جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟ اور“ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ”جیسے جملوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ ہم حیران ہیں کہ شیخ صاحب نے“ ہی ”کی اس فہرست میں عدلیہ، میڈیا، شوبز، آرٹ، قانون اور اخلاق کو شامل کرنے سے کیوں گریز کیا؟ شیخ رشید کا انکشاف سن کر ہمیں فلم “وجود ”میں نانا پاٹیکر کی پڑھی ہوئی نظم یاد آ گئی،“ کیسے بتاؤں میں تمھیں میرے لیے تم کون ہو، تم دھڑکنوں کا گیت ہو، جیون کا تم سنگیت ہو، تم زندگی، تم بندگی، تم روشنی، تم تازگی۔ ”

نواں انکشاف، وی وی آئی پی کلچر کی تعریف تبدیل:

ہمارے صدر عارف علوی دانتوں کے ڈاکٹر ہیں، اسی لیے موقع بے موقع دانت ضرور نکالتے ہیں، تاکہ ان کے چمکتے دانت دیکھ کر لوگ دانتوں کی صفائی کی طرف مائل ہوں۔ خیر ان کے دانت ان کی مرضی۔ اس وقت تو ہم ان دانتوں کا ذکر کر رہے ہیں جو جناب صدر کے تکا کھانے پر پیسے گئے۔ ایک دن ہوا یوں کہ صدرصاحب کا راولپنڈی کے بابو محلے کے تکے کھانے کا دل چاہا۔ یوں تو کوئی تین سال سے قوم کی تکا بوٹی کی جا رہی ہے، لیکن آخر منہ کا ذائقہ بھی تو بدلنے کا دل چاہتا ہے۔

صدر صاحب بہ نفس نفیس بابو محلہ جا پہنچے۔ صدر کی آمد پر ان کے سیکیوریٹی اسٹاف نے پورا بازار بند کرا دیا اور شہریوں کو بازار میں داخل ہونے سے روک دیا۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وڈیو کے ذریعے سامنے آیا تو قوم نے جانا کہ وی وی آئی پی کلچر کی تعریف تبدیل ہو چکی ہے۔ اب تکے کھانے جیسے قومی امور کے لیے راستے اور بازار بند کرنا ”وی وی آئی پی“ کلچر نہیں رہا بلکہ ”پی ٹی آئی بھی“ کلچر کے تحت لازمی قرار پاگیا ہے۔

اچھا ہوتا کہ شہریوں کے لیے بازار کے داخلی راستوں پر لکھ کر لگا دیا جاتا، ”راستہ بند ہے، صدرمملکت تکے تناول فرما رہے ہیں۔ من جانب وزارت خوراک“ تو شہری خاموشی سے پلٹ جاتے، یہ بھی ممکن ہے اپنی بوٹیاں کاٹ کر پیش کردیتے کہ کہیں تکوں کے لیے گوشت کم نہ پڑجائے۔ لیکن یقیناً اسے اہم ملکی راز سمجھتے ہوئے اعلان سے گریز کیا گیا۔

دسواں انکشاف، ایک سالن پہ قناعت:

صحافی اور تجزیہ کار محترم ہارون الرشید نے کار دفاع کرنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا، ”جنرل کیانی نے کبھی حرام مال نہیں کمایا، ان کے گھر میں ایک سالن بنتا ہے، انہیں کبھی دولت کمانے میں دل چسپی تھی ہی نہیں۔“ تعجب ہے۔ تو ہی ناداں ایک ”سالن“ پر قناعت کرگیا۔ ورنہ کھانے کے لیے طرح طرح کے مربعے۔ معاف کیجیے گا مربے موجود تھے۔ قوم اپنے جرنیلوں سے ہارون صاحب کے مقابلے میں کہیں زیادہ حسن ظن رکھتی ہے، اس کا اب تک یہی خیال تھا کہ جرنیلوں کے ہاں بس کھچڑی پکتی ہے۔

یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ان کے گھر میں ایک ہی سہی سالن بھی پکتا ہے۔ اس انکشاف نے ہمیں جنرل کیانی کے فقر ونفس کشی کے ساتھ ہارون الرشید صاحب کی معلومات کا بھی قائل کر دیا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ تجزیہ کار ہونے کے ساتھ ”تغذیہ کار“ بھی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنرل کیانی کے باورچی خانی امور سے ہارون صاحب کو یہ واقفیت ”ساجھے کی ہنڈیا“ کے باعث حاصل ہوئی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).