مرد ظالم ہے یا دکھائی دیتا ہے


عورت کی مظلومیت کے اتنے قصے سنے ہیں کہ جی چاہتا ہے اس پہ یقین کر ہی لوں۔ لیکن جب بھی یقین کرنے لگتی ہوں، آنکھوں کو کچھ اور دکھائی دے جاتا ہے اور کان کچھ اور سن لیتے ہیں۔ سو اپنی سن گن لینے کی گندی عادت کسی برے مرد کا اچھا سا تاثر ڈال دیتی ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عورت پہ ظلم ہوتا ہے۔ لیکن جب عورت کی مظلومییت کی بات کرتے ہوئے صرف مرد ہی کو ظالم کہا جاتا ہے تو پتہ نہیں کیوں مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔

کیونکہ جب بھی عورت پہ ظلم کی بات ہوتی ہے گھریلو تشدد کی بات ہوتی ہے تو مجھے مرد شطرنج کا مہرہ لگتا ہے، اس کے پیچھے زیادہ تر اصل محرک عورت دکھائی دیتی ہے۔ کہ عورت پہ ظلم ڈھانے میں زیادہ تر مرد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد میں مرد جب عورت پہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو بہت سارے کیسز میں اس کو ایسا کرنے پر دوسری عورت ہی اکساتی ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ عورت اور مرد دونوں میں زیادہ ظالم کون ہے۔ (تشدد پر اکسائے جانے کی اس دلیل سے ان عناصر کا خیال آتا ہے جو کہا کرتے ہیں کہ سیاستدانوں نے فوج کو چار بار دستور شکنی پر اکسایا۔ مدیر)

خواتین سے معذرت کے ساتھ لیکن ایک مرد کو ظالم بنانے کے پیچھے اکثر ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ عورت ہی ہوتی ہے جو ایک بچے کے ناپختہ ذہن میں یہ بات کسی مذہبی عقیدے کی طرح بٹھا دیتی ہے کہ وہ مرد ہے، حاکم ہے اور اپنی عورت کو محکوم بنا کے رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ سب کہتے ہوئے وہ بھول جاتی ہے کہ وہ خود بھی ایک عورت ہے اور ساری باتیں عورت کے خلاف، اپنے خلاف کر رہی ہے۔ ایک ماں مرد کو بتاتی ہے کہ ماں بننے کے مرحلے کے دوران کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی، تم جیسے چاہو اپنی عورت کو برتو۔

اس بات سے قطع نظر ہر کسی میں برداشت کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، عورت (ماں) مرد کو بتاتی ہے کہ اس نے بارہ بچے جنے اسے تو کچھ نہ ہوا، تمھاری عورت ایک بچہ پیدا کرتے ہوئے تماشا کیوں لگارہی ہے۔ ایک عورت مرد کو بتاتی ہے عورت پیروں میں رہنے کے لیے بنی ہے۔ ایک عورت ہی ہوتی ہے جو مرد کو ترغیب دیتی ہے تیری بات نہیں مانتی تو دھنک کے رکھ دے اس کو، آخر تو مالک ہے اس کا۔ پتہ ہے جب ایک سال کے اندر عورت کے ہاں اولاد نہ ہو تو اسے بانجھ قرار دینے والی اکثر ایک عورت ہی ہوتی ہے۔ جو بیٹے کو میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا نہیں کہتی لیکن بہو کو بنا ڈاکٹری رپورٹ کے بانجھ قرار دے دے گی۔

ایک عورت ہی ہے جو بیٹی کی پیدائش پہ رونا ڈال کے بیٹھ جاتی ہے۔ بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں بیٹے کی دوسری شادی کرواتی ہے۔ میں نے ایک مرد کو بیٹی کی پیدائش پہ اتنا پریشان نہیں دیکھا جتنا ایک دادی کو پوتی کی پیدائش پہ سیاپا ڈالتے دیکھا ہے۔ میڈیکل سائنس کی رو سے عورت میں ایکس کروموسوم سرے سے ہوتے ہی نہیں لیکن بیٹی پیدا کرنے کا جرم عورت (ساس ) ہمیشہ عورت (بہو) کے کھاتے میں ڈالے گی۔

یہ عورت ہی ہے جو عورت کو مارنے پہ اکساتی ہے اور پھر خوش ہوتی ہے اگر بیٹا بیوی کی بات مان لے تو وہ زن مرید عرف عام میں ’تھلے لگا ہوا‘ کہلاتا ہے۔ ایک عورت کم ہی برداشت کرتی ہے کہ بیٹا بیوی کی بات مانے۔ میں نے دیکھی ہیں وہ عورتیں جو چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کا گھر کبھی نہ بسے، وہ اپنی ضرورت کے لیے بے شک باہر کی عورت کے ساتھ منہ مارتا پھرے، لیکن گھر میں بیوی کبھی نہ لائے یا اگر لے آئے تو بیوی کو اہمیت نہ دے۔

وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں کہ ان کو اپنی راجدھانی خطرے میں لگتی ہے۔ اپنی حکومت کرنے کی چاہ میں دوسری عورت کے ساتھ جان بوجھ کے غلاموں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ عورت ہمیشہ مرد کو ماں کی عظمت کے قصے سناتی ہے، فرمانبردار بیٹے کی خواہش رکھتی ہے۔ ماں کی اطاعت کی حدیثیں نکال نکال کر سناتی ہے۔ لیکن جہاں بیوی کے حقوق کی بات ہو تو مرد کی حاکمیت کا راگ الاپنا شروع کردیتی ہے۔ کبھی کسی نے سنا کہ کسی عورت نے مرد کو بیوی کے حقوق بتائے ہوں، وہ عورت ہونے کے باوجود ہمیشہ مرد کو بیوی کے صرف فرض یاد دلاتی ہے اور ماں کے حقوق۔ یہ سب ماں کے روپ میں ایک عورت ہی کرتی ہے۔ جسے یہ دھڑکا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بیٹا بیوی کا ہو کر اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

پہلے پہل عورت بہو کے روپ میں برداشت کر لیتی ہے لیکن پھر جب اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے تو ظلم کا یہ حساب وہ سود سمیت لوٹاتی ہے۔ یعنی ایک بار پھر ایک عورت دوسری عورت کے خلاف محاذ کھولتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے کہ اس نے ماں پہ ظلم کیا۔ لیکن حقیقت میں عورت مرد کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کے رکھتی ہے۔ باہر سے تھکا ہارا آیا مرد وہی دیکھتا ہے جو عورت اس کو دکھاتی ہے۔ مردگھر سے چلا جاتا ہے پیچھے رہ جاتی ہیں دو عورتیں ساس اور بہو۔ دونوں ایک دوسرے کی دشمن، دونوں ایک دوسرے سے نالاں، دونوں عورتیں ایک دوسری کو زیر کرنے چکر میں۔ عورت ہی ہے جو دوسری عورت کے ہر کام میں نقص نکالتی ہے۔ اس کی ہر بات پہ اعتراض کرتی ہے۔ گھر واپسی پر ایک عورت مرد کو دوسری عورت کے خلاف بھڑکاتی ہے اور وہ سچ سے بے خبر کسی ایک طرف جھک کر دوسری کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔

کبھی آپ نے ایسی عورت کی آنکھوں میں نظر آتی اذیت کو سمجھا ہے جس کا گھر ایک دوسری عورت برباد کرتی ہے، سوتن بن کے، اس کے مرد کی محبوبہ بن کے، دل لگی کا سامان بن کے۔ ایک عورت جو اپنے مرد کے ساتھ خوش ہے، مطمئن پر سکون زندگی گزاررہی ہے، کہ اچانک کوئی دوسری عورت اس کے مرد کی زندگی میں آ جاتی ہے، اور پہلی عورت کے حصے کی خوشیاں خود سمیٹ لینا چاہتی ہے۔ ایسی خواتین اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ انھیں زندگی ایک بار ملنی ہے اور ان کا پورا حق ہے کہ وہ زندگی سے اپنے حصے کی ساری خوشیاں سمیٹ لیں۔ تو ایسی خواتین سے نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ دوسری عورتوں کو بھی زندگی ایک ہی بار ملی ہے، اور اتفاق سے وہ بھی اپنی زندگی میں خوشیوں کی طلب رکھتی ہیں۔ اگر کسی خاتون کو کسی شادی شدہ مرد سے محبت ہو گئی ہے، کوئی اچھا لگا ہے، تو اس پہ اس کی پکڑ نہیں، کوئی الزام نہیں کہ یہ فطری جذبہ ہے۔ لیکن جب پتہ ہو کہ مرد کا ایک ہنستا بستا خاندان ہے تو خدا کے لیے پھر محبت کے نام پر اپنی منہ زور خواہشات کو لگام ڈال لینی چاہیے۔

اور کسی شادی شدہ مرد کی طرف اپنے اٹھتے قدم صرف یہ سوچ کر روک لینے چاہیے کہ وہ عورت جو اس کی زندگی میں پہلے سے موجود ہے، وہ اس مرد سے نہ صرف محبت کرتی ہے، بلکہ اپنی زندگی کے قیمتی سال اس مرد کی جھولی میں ڈال چکی ہے، وہ اپنی کشتیاں جلا چکی ہے۔ اس کے پاس واپسی کے لیے کچھ نہیں بچا، تو اب اس مرد کے گھر میں موجود عورت کا گھر برباد نہ کیا جائے۔ یقیناً آپ کے لیے بھی کچھ اچھا یا شاید بہت اچھا لکھا ہوگا، ممکن ہے اس سے بڑھکر خوشیاں آپ کی منتظر ہوں۔

کچھ خواتین جو اپنی شادی شدہ زندگی سے کسی وجہ سے غیر مطمئن ہوں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسری خواتین کی زندگیوں سے بھی اطمینان چھین لیں، ان کی خوشیاں بھی برباد کر دیں۔ ایسی خواتین اپنے شوہر کو تو دھوکہ دیتی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ کسی دوسری خاتون کا گھر بھی خراب کر دیتی ہیں۔ خدا کے لیے عورت عورت پہ رحم کرے۔ مرد کی جارحیت کی بات سبھی کرتے ہیں، عورت کی مظلومیت کا رونا سب روتے ہیں لیکن مرد کو ظالم بنانے والے عوامل کو بھول جاتے ہیں۔ اگر عورت عورت کے خلاف سازش کرنا چھوڑ دے تو مردوں کے ظلم میں واضح کمی دیکھنے میں آئے گی۔

گھریلو جھگڑوں میں ساس بہو کی لڑائی میں میں نے مرد کو عورت کے ہاتھوں مجبور ہو کے روتے دیکھا ہے، سسکتے دیکھا ہے ایک عورت کے کہنے پر دوسری عورت (کبھی بیوی تو کبھی ماں) پہ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے۔ ایک عورت کے کہنے پر دوسری عورت کو طلاق دینے کے بعد میں نے اسے پچھتاتے دیکھا ہے۔ یقین کریں میں نے بہت سارے مردوں کو عورت کے ہاتھوں بے بس دیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).