ایک ڈوبتا ہوا شہر اور منگلیش ڈبرال


یہ کہانی ایک جیتے جاگتے شہر کی ہے، کسی خواب کا بیان نہیں۔ اسے ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ  (The wasteland) کے ایک چھوٹے سے حصے ”پانی سے موت“  (Death by Water) کا بدلا ہوا روپ بھی کہا جا سکتا ہے۔ زندگی اور انسانی تقدیر سے وابستہ اچھے برے تجربے، مختلف زمانوں میں، ہمارے احساسات پر طرح طرح سے وارد ہوتے ہیں!

اس کہانی اور اس شہر میں ہماری دلچسپی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس کا براہ راست تعلق منگلیش ڈبرال سے ہے۔ وہ اسی شہر کے ایک گاﺅں ”کا پھل پانی“ کے رہنے والے ہیں۔ ایک عرصے سے ان کا قیام دلی میں ہے لیکن ان کی حسیت کے کینوس پر، یہ شہر (ٹہری گڑھوال) اور اس کے ہرے بھرے گاﺅں کی تصویریں، اس کے مناظر، اس کے موسم اور اس کی روایتیں ابھی جاگ رہی ہیں، اپنے سارے روپ رنگ، مہک اور معاشرت کے ساتھ۔ شاید اسی لیے، منگلیش ڈبرال کی شاعری میں بیان کی، سطح اور تجربے کی تصویر ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی ….

عام زندگی کے تماشے ہر آن بدلتے رہتے ہیں اور کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ اسی طرح منگلیش کی نظموںمیں بیان کئے جانے والے تجربوں کی بھی بہت سی شکلیں ہیں۔اتر کھنڈ کے شہر ٹہری اور اس کے مضافات سے میری آنکھیں بہت مانوس ہو چکی ہیں۔ صدیوں سے آباد ایک بھرا پرانا تاریخی شہر دیکھتے دیکھتے غرقاب (ڈوب) ہو گیا اور ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ بن گیا۔ اس شہر کی گلیاں اور محلے، بازار، شوالہ، مسجد، کوتوالی اور ڈاک خانہ …. سب سے زیادہ اس کا تاریخی گھنٹہ گھر جس میں ایک انوکھی اور بے مثال گھڑی نصب تھی، لندن کے بگ بین کلاک ٹاور (1859 ئ)کے ہاتھ کی بنائی ہوئی….ان سب کو اپنی آبادی سمیت، جو بہت تھوڑی سی باقی بچی تھی، شہر کے زیادہ تر لوگ ’نیو ٹہری ٹاﺅن‘ (New Tehri Town )میں بسا دیے گئے تھے …. میں روز دیکھتا تھا کہ دھیرے دھیرے سب ڈوبتے جا رہے ہیں، پانی کے اس بے حساب ذخیرے میں جو ایشیا کے (زیر تعمیر) سب سے بڑے ڈیم کی وجہ سے ایک بہت بڑی جھیل میں بدلتا جا رہا تھا ۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں گاﺅں اجاڑ اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ان بے گھر ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو ایک شہر کے ساتھ اپنی یادوں کو ڈوبتا ہوا بھی دیکھ رہے تھے۔ ان میں بہت سہانی یادیں بھی تھیں جنہیں بھلا دینا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔

 وہ روز شام کو جمع ہو کر اپنی پرانی یادوں کو گیتوں سے سجاتے تھے۔ اس چھوٹے سے خوبصورت شہر پر جو تجربہ وارد ہوا، اس عہد کی (ٹکنالو جیکل) کامرانی میں چھٹے ہوئے المیے اور انسانی زندگی کے کمال میں گندھے ہوئے زوال کی ایک غیر معمولی کہانی سناتا ہے۔ منگلیش ڈبرال کا ٹہری کے ایک گاﺅں سے تعلق، پھر ایسی بستی کو پیش آنے والا (غرقابی کا ) تجربہ، دونوں میرے لیے توجہ طلب تھے۔ مجھے اتفاق سے اس پورے علاقے کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ وہ اس طرح کہ میری بیٹی نے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ تقریباً دس سال یہاں گزارے۔ ہر سال دو تین ہفتے، کبھی ایک مہینے کے لیے میں یہاں آتا تھا۔ رشی کیش سے ٹہری تک کا راستہ فطرت کے حسن سے مالامال ہے۔ ہم بالعموم سڑک کے راستے سے سفر کرتے تھے۔ دائرہ در دائرہ گھومتا ہوا چکر دار راستہ، ہمالیہ کے پربتی سلسلے کو چھوتا ہوا، جنگلوں اور چھوٹے چھوٹے گاﺅں کو پار کرنے کے بعد ہماری منزل تک پہنچتا تھا۔

ہری بھری وادیاں، چشمے، چھوٹی چھوٹی آبادیاں، ڈھابے، خاموش ، جادو بھرا ماحول، بازار کے نام پر دو چار دکانیں، دو چار گاہک، بکنے کے لیے بھی بس دو چار چیزیں۔ کہیں پھل، مٹھائیاں، سبزیاں، کہیں تھوڑی سی پکائی چیزیں، ہماری شور شرابے میں ڈوبی ، ہنگاموں سے بھری دنیا میں یہ ایک اور دنیا تھی، زندگی اور انسانی سماج کا سارا سکھ، سارا سکون اور شانتی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے۔ چمبا سے ٹہری تک کے سفر میں ایک عجیب و غریب محویت اور حیرانی کا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم جب بھی ٹہری جاتے کچھ دیر کے لیے چمبا میں ضرور رکتے تھے اور ہاتھ کے بنے ہوئے مفلر، ٹوپیاں، موزے واسکٹ وہاں سے خریدتے تھے۔ یہ چیزیں اس علاقے کے دیہاتوں کی ”کاٹیج انڈسٹری“کا تحفہ کہی جا سکتی ہیں۔چھوٹا سا بازار، گنتی کی دکانیں، اپنائیت کا ماحول، نہ تو خریدنے والا خریدار لگتا ہے ، نہ بیچنے والا دکاندار۔منگلیش ڈبرال کے گاﺅں کا راستہ چمبا کے پاس سے ہو کر نکلتا تھا۔ یہاں زمین و آسمان دونوں بالکل بدلے ہوئے نظر آتے ہیں …. صاف، شفاف، سبز اندر سبز، یہاں فطرت کتنی مہربان اور مخیر ہو جاتی ہے!

منگلش کی شاعری میں ان کے بچپن، گھر ، روزمرہ زندگی اور گمشدہ وقت کے ساتھ کھوئے گئے لوگوں کی صورتوںکا بیان ، صرف نئے دور کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی قدروں، رسموں، روایتوں کا بیان نہیں ہے۔ یہ صرف اجتماعی خسارے کا ماتم بھی نہیں ہے۔ یہ ایک نجی دکھ کا بیان ہے۔ یہ ایک گہری، نیم فلسفیانہ اداسی کا بیان ہے جس سے ایک تو ان کی نظموں میں متانت اور اداسی کا ماحول مرتب ہوتا ہے۔ دوسرے ان کی حسیت کے اس پہلو سے بھی پردہ اٹھتا ہے کہ وقت کے ساتھ گم ہو جانے والی چیزیں ان کے لیے صرف چیزیں نہیں ہوتیں، گھر ، خاندان، پاس پڑوس اور بستی کے گم شدہ لوگ صرف لوگ نہیں ہوتے۔ یہ تو ہمارا اپنا وجود ہوتا ہے، دوسری چیزوں ، لوگوں اور روایتوں میں بٹا اور بکھرا ہوا، ان کی نظموں کے یہ کچھ حصے دیکھئے۔

میں اپنی اداسی کے لیے

شما نہیں مانگنا چاہتا تھا

میں نہیں چاہتا تھا معمولی

اکشاﺅں کو چہرے پر لے آنا

میں بھول نہیں جانا چاہتا تھا

اپنے گھر کا راستہ ….

                                (گھر کا راستہ)

میں اپنے دادا جتنا لمبا نہیں ہوا

 شانت اور گمبھیر نہیں ہوا

پر مجھ میں کچھ ہے ان سے ملتا جلتا

 ویسا ہی کرودھ، ویسا ہی معمولی پن

میں بھی سر جھکا کر چلتا ہوں

جیتا ہوں اپنے کو ایک تصویر کے خالی فریم میں

بیٹھے دیکھتا ہو

                                (دادا کی تصویر)

یہ ایک لمبی رات ہے۔ ایک سرنگ کی طرح

یہاں سے ہم دیکھ سکتے ہیں ایک اسپٹت، درشید

ہم دیکھتے ہیں مار کاٹ اور الاپ

بچو، ہم نے ہی تمہیں یہاں بھیجا تھا

ہمیں معاف کر دو

ہم نے جھوٹ کہا تھا کہ جیون ایک یدھ ستھل ہے

پیارے بچو جیون ایک اتسو ہے جس میں ہنسی کی طرح پھیلے ہو

جیون ایک ہراپیڑ ہے جس پر تم چڑیوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہو

 جیسا کہ کچھ کویوں نے کہا ہے، جیون ایک اچھلتی گیند ہے

اور تم اس کے چاروں اور ایکتر چنچل پیروں کی طرح ہو

پیارے بچے اگر ایسا نہیں ہے تو ہونا چاہیے ….!

                (بچوں کے لیے چٹھی )

’معمولی پن‘ ہماری زندگی کا، معاشرے کا، تاریخ اور وقت کا عام رنگ ہے، صبح سے شام تک کے معمول کا بیشتر حصہ۔ بہت سے شعر کہنے والے اس ’معمولی پن‘ سے ڈرتے ہیں۔ یہ سوچ کر گھبراتے ہیں کہ اس ’اس معمولی پن‘ دوسرے لفظوں میں روزمرہ زندگی کے تجربوں اور احساسات کا بیان انہیں کہیں ’معمولی‘ بنا کر نہ رکھ دے۔ تو کیا نرالا معمولی تھے، سمترا نندن پت کے مقابلے میں۔ یہ سوال مجھے بار بار شاعری یا تخلیقیت کے مزاج اور موسم پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے…. یہ کہ کیا واقعی ’تخلیقی حسیت‘کے اظہار کی زبان ’نثری ‘ (Prosaic) نہیں ہو سکتی۔ میرے نزدیک یہ ایک احمقانہ سوال ہے اور اس سوال کی روشنی میں ہم پابلونرودا ہی نہیں، دنیا کے بہت سے بڑے شاعروں کے ’طرز احساس‘کو سمجھنے سے قاصر رہ جائیں گے جن کی زبان پیچیدہ اور مبہم نہیں ہے۔ ایسی زبان جو صرف اوپری سطح کے مفہوم کی پابند نہیں ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو منگلیش کی شاعری بھی، بظاہر ہر طرح کی سجاوٹ، اوپری بناﺅ سنگھار اور ابہام سے عاری ہونے کے باوجود غیر شاعرانہ یا نثری نہیں ہے۔ ”پہاڑ پر لال ٹین“ سے لے کر ”شہنائی کے بارے میں بسم اللہ خاں“ تک (یہ ان کی آخری نظم ہے جو میری نظر سے گزری) مجھے منگلیش کی زیادہ تر نظموں میں ایک طرح کی عنصری (Elemental) سادگی دکھائی دیتی ہے، جیسے کوئی شخص اپنے جانے پہچانے راستے پر جا رہا ہو۔ اسے اپنے ’جینے‘ اور اس راہ سے گزرنے میں کوئی دقت نہ ہو رہی ہو۔ شاعری کی زبان کو راستے کا پتھر، جھاڑ جھنکاڑ اور گہرا ہوتا ہوا اندھیرا نہیں، بلکہ دھندلکے سے آگے کی منزل، اپنے تجربے سے پھوٹتا ہوا اجالا ہونا چاہیے۔ منگلیش کی زبان روشنی کے ایسے ذخیروں سے بھری ہوئی ہے ، حسن کے ایسے ذخیروں سے جو سادگی میں چھپے ہوتے ہیں۔ یہ زبان کہیں بے جھجک، نظر نہیں آتی۔ کبھی بے قابو نہیں ہوتی، لیکن اس میں عام بول چال کی بے تکلفی اور ڈھٹائی بھی نہیں ہے۔

منگلیش ڈبرال نے موسیقی اور موسیقاروں کے رویے سے اپنی شاعری کو ایک انفرادی سطح پر جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ہماری موسیقی کی روایت کے آخری اور شاید سب سے بڑے (کلاسیکل) نمائندے ، استاد امیر خاں اور ان کے راگ ماروا پر منگلیش کی نظمیں، شاعری کی زبان اور آہنگ کے ایک بنیادی کردار سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ’آواز بھی ایک جگہ ہے‘محض بیان نہیں، منگلیش کی شاعری کا نمایاں وصف بھی ہے۔ اس بیان کے مطابق ایک تجریدی ، حسی تجربہ، بہرحال اپنی ایک طبعی دنیا، ایک جگہ بھی رکھتا ہے …. اور یہ جگہ کبھی سنسان اور غیر آباد نہیں رہتی۔

وہ ہمارے نمائندہ کویوں کی اس صف سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی روایت اور مغربی روایت، کسی کی طرف مبالغہ آمیز رویہ نہیں رکھتے۔ اسی طرح اپنی نظموں کو بنیاد مہیا کرنے والے تجربوں، جذبوں، سوچ کی آتی جاتی لہروںاور احساسات کو سیاسی اور غیر سیاسی یا تخلیقی اور غیر تخلیقی کے خانوں میں تقسیم نہیں کرتے۔ وہ ایک ’زمانے‘ کے ترجمان ہیں، ایک ایسی روایت کے شاعر جو مشرق اور مغرب کو ایک دوسرے کے ’حریف‘ یا اجنبی کے طور پر نہیں دیکھتی۔یہ شاعری ایک ساتھ بہت سی سرگوشیوں کا سنگم ہے۔ ایک مونتاج جس کے مرکز پر ادھر ادھر سے آنے والی بہت سی لہریں گلے ملتی ہیں اور ایک ’کل‘ کی تعمیر کرتی ہیں جو ہمارے پورے عہد اور اس عہد کے آشوب کی عکاسی کرتا ہے۔

اشوک باجپئی نے رضا (سید رضا حیدر) کے ایک بیان کی نشان دہی کی ہے، اپنے ایک مضمون رضا کا زمانہ (Raza,s Time ) میں (مطبوعہ انڈین ایکسپریس، دہلی 24 جولائی 2020 ءمیں)کہ میں نے فرانس (میں اپنے طویل قیام کے دوران) یہ سبق لیا کہ کس طرح ، پینٹ کیا جائے اور (اپنی روایت) ہندوستان سے یہ سیکھا کہ کیا پینٹ کیا جائے۔ ہمارا عہد ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ اپنے آپ کو کسی یک رخے نظریے یا تاریخ، یا تصور یا تجربے میں داخل ہونے کے بعد، اسی کے ہو کر نہ رہ جائیں ….ہاں، ہمارے قدم اپنی زمین پر مضبوطی سے جمے رہنے چاہئیں ….

ہمارے زمانے کو آج کئی طرح کے مسئلوں اور مصلحتوں کا سامنا ہے۔ گاﺅں بنام شہر ، آج بنام کل، تاریخ بنام تجربہ، قومی بنام عالمی۔ ہماری بے لگام سیاست نے اتنی گرد اڑائی ہے کہ یہ سارے سوال بظاہر دھندلا گئے ہیں اور ان کا چہرہ مسخ ہوتا جا رہا ہے۔

موجودہ سیاست کا اور غیر تخلیقی مقاصد کا زور اس بات پر ہے کہ واپسی کا راستہ اپنایا جائے، مگر ہمارے عہد کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ ایک چھوٹے سے مضمون میں ان تمام مسئلوں پر بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ منگلیش کی شاعری کا سوال نامہ بہت طویل ہے۔ آج کے دور میں محبت، سیاست، معاشرہ، ماحول اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے ساتھ رونما ہوتی ہوئی الجھنیں اور اندھیرے، گھر اور بازار…. بہت سے سوال ہیں ، مگر اب میں اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں، ان چار سطروں پر کہ :

میں نے شہر کو دیکھا، اور میں مسکرایا

یہاں کوئی کیسے رہ سکتا ہے

یہ جاننے میں گیا

اور واپس نہ آیا

(منگلیش ڈبرال نو دسمبر 2020ء کو انتقال کر گئے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).