ذمہ داری


”بچے ماں باپ کی ذمے داری ہوتے ہیں، بڑے بہن بھائی کی نہیں۔ اماں یہ بات آپ سمجھتی کیوں نہیں؟“ عفان احمد کی بات پر اماں نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ”تو میں یہ کب کہہ رہی ہوں کہ تم ثمینہ، نصیر یا احسان کی ذمے داری ہو؟ میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ثمینہ نے اپنی بیٹی کے لیے لڑکا ڈھونڈ لیا اور بات طے کرنے کے بعد ہمیں بتا رہی ہیں کہ اماں میں نے نازیہ کا رشتہ طے کر دیا۔ کبھی کنوارے بھائی بہنوں کا خیال نہیں آیا اسے؟

“ اماں کے لہجے میں شدید رنج موجود تھا شاید انھیں ثمینہ کی اس بات سے شدید تکلیف پہنچی تھی۔ ”اماں چھوڑیں انھیں کبھی اس بہن کا خیال نہیں آیا جس نے ان کے بچے پال دیے تو بھائیوں کا کیا خاک خیال کریں گی وہ“ عفان کی بات پر اماں کا دل کٹ کر رہ گیا۔ ”ارے اپنے نصیر میاں کو ہی دیکھ لو ابھی سے اپنے بیٹے بیٹیوں کے رشتے دیکھنا شروع کردیے انھوں نے۔ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اماں! نواز ماموں کی نواسی میرے بیٹے اسجد کے لیے کیسی رہے گی؟ کبھی انھیں تم بھائی بہنوں کا خیال نہیں آیا۔ اگر میں بیماری کی وجہ سے بستر پر ہوں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مرگئی ہوں۔ کہتی ہوں کسی نہ کسی سے۔ ارے کوئی نہ کوئی تو کروائے گا تمھاری شادی“ ۔ اماں کی کمزور آوازمیں ایک عزم موجود تھا۔

بات تو کوئی خاص نہ تھی عفان احمد کا بھرا پرا گھرانا تھا۔ چار بھائی دو بہنیں، جن میں سے دو بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن شادی شدہ تھے۔ والد کے انتقال کے بعد سے بڑی اولادوں کی رضامندی کے بغیر اماں کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ جب بھی عفان، حسان، یا رابعہ کا کوئی رشتہ آتا تو کبھی ثمینہ، کبھی عفان، کبھی احسان کوئی نہ کوئی فی نکال کر رشتے سے انکار کروادیتے۔ عفان کی عمر تقریباً اڑتالیس برس، حسان چوالیس برس، اور رابعہ چالیس سال کی ہو چکی تھیں مگر تینوں میں سے کسی کے گھر بسنے کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ تینوں کی اچھی نوکریاں تھیں اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ رہائش شہر کو پوش علاقے میں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی ذاتی استعمال کی گاڑی موجود تھی۔

بڑے بوڑھوں سے سنا تھا کہ پہلی شادی تو کوئی دوسرا کرواتا ہے۔ وہ دوسرا، ماں، باپ، بھائی، بہن، بھابھی، عزیز، رشتے دار، دوست کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات ان تینوں پر بھی صادق آتی تھی۔ تینوں بہن بھائیوں کو بڑے بہن بھائیوں سے کوئی مثبت امید نہیں تھی۔ اس دوران، نصیر میاں، احسان میاں، اور ثمینہ کے بچے بھی جوان ہوچکے تھے۔ اور وہ تینوں اب اپنے بچوں کی فکر کر رہے تھے۔

اسکول سے واپسی پر رابعہ اپنی بھتیجی کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی تھی۔ رانیہ کے پاس گھر کی چابی موجود تھی۔ وہ جب اندر آئیں تو رابعہ نے نصیر میاں اور رضیہ بھابھی کی گفتگو اپنے کانوں سے سنی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ”ارشد بھائی نے رابعہ کا رشتہ دیا تھا اپنے چھوٹے بھائی کے لیے۔ میں نے منع کر دیا۔ رشتہ تو مناسب تھا مگر رابعہ کی شادی ہونے سے اماں، عفان اور حسان کی ذمے داری ہم پر آ جائے گی۔ اور اگر عفان اور حسان کی شادی ہو گئی تو بھی ہمیں جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، ابھی تو چچا کی جائیداد کے ہمارے بچے ہی حقدار ہوں گے۔“ رضیہ بھابھی کے لالچی لہجے نے رابعہ کو مزید ان کے گھر رکنے نہیں دیا۔ وہ رانیہ سے جانے کا کہہ کر فوراً باہر نکل آئی۔

” عفان بھائی اور حسان بھائی، نصیر بھائی اور رضیہ بھابھی کی نظر آپ کے بینک بیلنس اور جائیداد پر ہے ان کا کہنا ہے کہ آپ دونوں کی شادی نہیں ہوگی تو جائیداد ان کے حصوں میں ہی آئے گی۔ میری شادی وہ اس وجہ سے نہیں چاہتے کہ میرے بعد اس گھر کی ذمے داری کون اٹھائے گا۔ رابعہ کے لہجے میں افسردگی تھی۔“ رابعہ تم فکر نہ کرو، ہم اپنی جائیداد کسی ٹرسٹ کو دے جائیں گے مگر انھیں نہیں۔ ”حسان کا لہجہ حتمی تھا۔“ حسان یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

حل تو یہ ہے کہ ہم تینوں کی شادی ہو جائے۔ ”عفان کا انداز ناصحانہ تھا۔“ آپ کی غلط فہمی ہے عفان بھائی یہ لوگ دولت اور جائیداد کی وجہ سے ہمارا گھر نہیں بسنے دیں گے۔ اگر ہم کورٹ میرج بھی کر لیں تب بھی یہ ہماری بیویوں کو اس گھر میں بسنے نہیں دیں گے۔ ان لوگوں کی نیت ہماری جائیداد پر ہے۔ ”حسان کی بات نے رابعہ اور عفان کو لاجواب کر دیا تھا۔

رابعہ کو اچانک بخار ہوا تھا۔ ملک میں کرونا کی وبا میں شدت آ گئی تھی۔ تیز بخار، نزلہ کھانسی کے ساتھ جب اسے ہسپتال داخل کیا گیا تو اس کا کرونا مثبت آ گیا۔ آئی سی یو اور پھر وینٹیلیٹر پر اس نے تین دن گزارے۔ کرونا کا انجیکشن وہ برداشت نہیں کرسکی اور اللہ کو پیاری ہو گئی۔ وہ لوگ جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ رابعہ تمام عمر اس گھر کی ذمے داری اٹھائے گی اب بیٹھے ہوئے اس کی میت کو تک رہے تھے۔ رابعہ کا انتقال ایک سانحہ تھا۔

اماں، عفان، اور حسان نے یہ دکھ کیسے جھیلا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ چالیسویں کی فاتحہ کے بعد اماں نے نصیر، احسان، اور ثمینہ کو ایک ضروری بات کرنے کے لیے روک لیا تھا۔ ”اگلے جمعے کو عفان اور حسان کا سادگی سے نکاح ہے۔ تم تینوں شریک ہو گے تو مجھے خوشی ہوگی۔“ اماں کے ٹھنڈے لہجے نے ان تینوں کو چند لمحے کے لیے خاموش کر دیا۔ ”اماں کم از کم رابعہ کا کفن تو میلا ہونے دیں۔ آپ کو اتنی جلدی کیا پڑی ہے؟ یہ دونوں کون سے بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں؟

“ نصیر میاں کے لہجے سے ناراضی کا اظہار ہو رہا تھا۔ ”بیٹا تمھیں نہیں آنا تو مت آؤ نکاح اپنے وقت پر ہوگا۔ تمھارے آنے یا نہ آنے سے رکے گا نہیں۔ نہ نکاح سے قبل میں یہ بتاؤں گی کہ رشتہ کہاں طے کیا ہے میں نے۔ تم لوگ تو اس انتظار میں ہو کہ رابعہ کی طرح یہ دونوں بھی مرجائیں۔ تاکہ جائیداد تمھارے بچوں کو مل جائے۔ مگر میں ایسا ہونے نہیں دوں گی۔ اماں کے حتمی لہجے پر وہ تینوں ناراض ہو کر چلے گئے۔ جوان بیٹی کی کرونائی موت نے ان کے دل سے تمام خوف دور کردیے تھے۔

انھوں نے ایک جاننے والی کے توسط سے اٹھائیس اور تیس برس کی دو قبول صورت لڑکیوں سے عفان اور حسان کا رشتہ طے کر دیا تھا۔ انھیں علم تھا کہ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو ان کے دونوں کنوارے بیٹے رل جائیں گے۔ دیر آید درست آیدکے مصداق اماں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ چھوٹے بہن بھائی، بڑے بہن بھائیوں کی ذمے داری نہیں ہوتے۔ بلکہ چھوٹے بہن بھائی کی ذمے داری بھی والدین پر ہی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ والدین اپنی ضعیفی سے مجبور ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).