یہ اماں ابا کی لڑائی کیسی؟


اماں ایک روز کے لئے کہیں رشتہ داروں کے ہاں جانا چاہیں تو ابا جی کی طرف سے تشویش اور پریشانی کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ عدم تحفظ و توجہی کا سراب انہیں گھیر لیتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کو اب کون سنبھالے گا؟ گھر میں موجود ہوں تو نوک جھونک اور ٹوک۔ بالعموم جب بچے جوان ہوں تو مرد حضرات اولاد کے سامنے اکثر ایسی باتیں اور حرکتیں دھراتے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ بزرگ اپنی شریک حیات کی تعریف جوان بچوں کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔ ایسے ظاہر کرتے ہیں گویا تمہاری اماں کو صرف اپنی فکر ہے، میرا خیال نہیں رکھتی ہیں۔ میں نے اس کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔

اولاد جانتی ہے کہ ابا کہیں ایک دن کے لئے چلے جائیں اماں کی فکر سب سے زیادہ ستاتی ہے۔ وہ دیکھ چکے ہوتے ہیں کہ کھانستے ہوئے، بیمار، لاچار، بھوکے اور بوڑھے شادی شدہ انسان کا سب سے بڑا غم گسار اس کی خود سے نحیف اور کمزور بیوی ہی ہوتی ہے۔ بیٹیاں اپنے ماں باپ کی فکروں میں غلطاں اپنے سسرال کا پہیہ رواں رکھے ہوتی ہیں۔ وہ اپنی اپنی جگہ ہر لمحہ کسی پریشان کن خبر کی منتظر اور ڈرتی رہتی ہیں کہ اماں ابا کی طرف سے آنے والی کال خیر کی ہو۔ وہی اماں اور ابا دوسروں کے سامنے الجھتے، گرجتے، برستے محض ایک دوسرے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔ پوتے پوتیوں والے ان بچوں کی وجہ سے آپس میں الجھیں گے کہ آپ ان بچوں کا خیال نہیں رکھتے /رکھتی ہیں۔

کسی ایک کی عدم موجودگی دوسرے کو کھانا شروع کردیتی ہے۔ مٹی کے انسانوں کے ارد گرد سے گرد جھڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ انہیں بخوبی تجربہ ہوتا ہے کہ جوتا و لاٹھی گم ہو جائے تو آواز بہو بیٹوں کے کمروں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ ان کے کمروں کی کنڈیاں و کواڑ جلد بند ہو جاتے ہیں۔ وہی اپنی ساتھی، ساتھ نبھاتی ہے۔ بابا جی کی دوا ختم ہو جائے تو لانے کے لئے بیٹے کو ماں ہی یاد دلاتی ہے۔ ابا جی کی ہر گمشدہ چیز کا اماں جی کو معلوم ہوتا ہے۔

اماں جی کی چوائسز نہیں ہوتی ہیں۔ بس قربانیاں، خدمت، احساس، شفقت اور محبت ہوتی ہے اور وہ لٹاتی ہیں۔ ہمارے ایک سینئر افسر کے والد محترم صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے اور انتقال کر چکے تھے۔ ہر ماہ یکم تاریخ اماں پنشن بک بھجوا دیتی تھیں کہ انہیں آج ہی پیسے چاہیں۔ بقول ان کے ”انہیں احساس رہتا ہے کہ میاں کے جانے کے بعد وہ کسی پر بوجھ نہیں ہیں۔

آپ میں سے بیشتر لوگوں نے اپنی اماں کو اپنی ڈریسنگ ٹیبل سجاتے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ان کو جوانی میں تبت سنو کی شیشی میں انگلی ڈبو کر چہرے پر لگاتے دیکھا ہوگا۔ اب کوئی لوشن یا ویزلین سامنے رکھی نظر آتی ہو گی۔ البتہ جمعہ کے روز ابو کے کپڑوں پر پرفیوم چھڑکتی، عطر لگاتی، جوتوں پر کپڑے سے مٹی جھاڑتی اماں تو بہت سی دیکھی ہیں۔ وہ خود تو شاید ہی کبھی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد جاتی ہوں مگر میاں کی تمام تیاری ان کے ہاتھوں مکمل ہوتی ہے۔ ساری عمر یہ روٹین اسی طرح برقرار رہتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ دونوں ایک دوسرے کو کوستے ہیں۔ زندگی کے اس ملاپ (شادی کو) غلط ترین فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ مطمئن بزرگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ بہت سے بزرگ ساتھ رہتے ہیں مگر آپس میں شکوے شکایات، تلخ جملوں کا تبادلہ کرتے یا نقص نکالتے نظر آتے ہیں۔

جونہی کسی ایک کی سانس کی ڈور کٹی، ہر طرف ویرانیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ دنیا میں رہنے کا جواز ختم۔ اگلے جہان کی فکر اور دیکھے ان دیکھے خواب۔ جانے والے کی یاد میں خاموشی کا ماسک پہن لینا۔ جوتا، کپڑا، رومال، چادر، نیل کٹر، عینک، بٹوا، شناختی کارڈ، سب کچھ ڈھونڈنے میں گھنٹوں لگا دینا اور پھر نہ ملنا۔ ”جلد ڈھونڈ کر دینے والی تو چلی گئی“۔

یہ بزرگ ہمارے سامنے مردانگی، رعب اور غصہ دکھانے کے لیے اماں کو ہر وقت تند و تیز جملوں اور اقوال زریں کا نشانہ بناتے ہیں ورنہ ان کی اپنی جان اسی بوڑھی جان میں ہوتی ہے۔ غصے اور اکتاہٹ کا یہ بس دکھاوا کرتے ہیں۔ ہمارے ابا جی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ بلکہ ننانوے فیصد ابا جی ایسا ہی کرتے ہیں اور ایک فیصد کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔

اب وہ پیری میں کہاں عہد جوانی کی امنگ
رنگ موجوں کا بدل جاتا ہے ساحل کے قریب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).