نیم دانشور کا سستا منہ اور مہنگا ماسک


خواتین و حضرات یہاں دیکھوں وہاں دیکھوں جہاں دیکھوں میں کیا دیکھوں کہ ہر کس و نا کس۔ یہاں تک کہ بے کس نے بھی اپنے منہ کو رنگ برنگ کپڑوں سے ڈھانپ رکھا ہے۔ اب تو نوبت ایں جا رسید کہ بعض خواتین نے کپڑوں کے ساتھ ساتھ میچنگ ماسک بھی پہننا شروع کر دیے ہیں۔ مارکیٹ میں مہنگے سستے ہر قسم کے ماسک موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ ماسک سٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے معاشرے میں مہنگے ماسک پہننے والوں کی بڑی قدر، جب کہ سستے والے کو کوئی نہیں پوچھتا۔

پرسوں کی بات ہے کہ میں بائیک پر آفس جا رہا تھا کہ اشارہ بند ہوتے ہی مانگنے والوں نے یلغار کر دی ان میں سے ایک بچہ میری طرف لپکا اور پاس آ کر بھیک کا سوال کیا اس کو پیسے دینے کے لیے ابھی میں حساب جوڑ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک پرانا اور تجربہ کار بھکاری جو کہ شکل سے ہی ناہنجار اور بدتمیز نظر آ رہا تھا میرے قریب کھڑے بچے سے مخاطب ہو کر بولا باؤ کا سستا ماسک دیکھ کر بھی تم نے اندازہ نہیں لگایا کہ اس نے کچھ نہیں دینا۔ چل شاباش چٹی کار والے سے جا کر مانگ۔ چھوٹے بھکاری کو دوسری طرف بھیجنے کے بعد اس نے مجھے غیرت دلانے کے لیے خوب سنائیں۔ وہ تو شکر ہے کہ میری بے عزتی نہیں ہوئی ورنہ میرا ا س کے ساتھ اچھا خاصہ لفڑا ہو جانا تھا۔

پیارے دوستو کل شب میں نے عجب تماشا دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارا ”نیم دانشور“ دوست منہ پر ماسک پہنے اکڑتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ اس نے اپنے چہرے پر ایک مہنگا والا ماسک لگایا ہوا تھا۔ جسے دیکھ کر پہلے تو میں حیران ہوا پھر پریشان اور آخر میں میرا ہاسا نکل گیا ( حیران میں احتیاطً ہوا تھا، جبکہ پریشان اس کے مہنگے ماسک کو دیکھ کر۔ اور ہاسا مجھے اس کی چال کو دیکھ کر آیا تھا ) مجھ سے رہا نہیں گیا چنانچہ اس کے نزدیک آتے ہی میں نے اپنے منہ کو حسب ضرورت ”پولا“ کیا پھر ایک مشہور اینکر کے سٹائل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”پاؤں میں ہوائی چپل، ہاتھ میں سستا سگریٹ، سگریٹ سے بھی سستا منہ، اور اس منہ پر اتنا مہنگا ماسک۔ شرم تو آتی ہو گی؟

میری بات سن کر نیم دانشور ذرا بھی بے مزہ نہ ہوا۔ الٹا اس نے بڑے تفاخر سے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے 56 سینٹی میٹر کے سینے کو پھیلانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ اس کے سینے سے کڑ کڑ کی آوازیں آنے لگیں۔ کڑ کڑ کی آواز سنتے ہی نیم دانشور نے سینے کو مزید پھیلانا بند کیا۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی تاسف آمیز لہجے میں بولا تو کیا جانے بھولیے ”مجے“ امیرانہ ماسک کی شانیں۔ پھر اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے چہرے پہ لگا دیکھ کر لوگ خواہ مخواہ ہی عزت سے پیش آتے ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں اس ماسک کو پہنے ایک شادی ہال میں گھس گیا مہنگے ماسک کو دیکھ کر حرام ہے جو ایک دفعہ بھی گارڈ نے کر مجھے روکا ہو ورنہ اس سے پہلے تو وہ مجھے دیکھتے ہی مارنے کو دوڑتا تھا۔ ماسک کی اس خوبی پر میں خاصا مرعوب ہوا مجھے مرعوب ہوتے دیکھ کر اس نے ایک دفعہ پھر اپنی 56 سینٹی میٹر کی چھاتی کو پھیلانا شروع کیا۔ اور پھر حسب سابق کڑ کڑ کی آواز سنتے ہی اسے مزید پھیلانے سے روکتے ہوئے بولا اے گھامڑ انسان!

اب اس کی دوسری خوبی بھی سن، کوئی اور موقع ہوتا تو گھامڑ کہنے پر میں نے اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا تھا لیکن اس وقت بوجہ سسپنس دڑ ”وٹ“ لی اور اپنے منہ کو حسب مقدور پرتجسس بناتے ہوئے بولا ہاں۔ بتا تو کیا بول رہا تھا؟ میری بات سن کر وہ بڑے ہی فخریہ لہجے میں بولا اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ مہنگا ماسک قرض خواہ سے جان چھڑاتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں گھر سے نکل رہا تھا کہ سامنے سے گل خان آتا ہوا دکھائی دیا اس نے ایک نظر میرے ماسک کی طرف ڈالی۔ مہنگے ماسک پر نظر پڑتے ہی اس نے مجھے بڑے ادب سے سلام کیا اور پھر میرا نام لیتے ہوئے بولا بھائی صاحب! آپ نے اس بندے کو کہیں دیکھا ہے؟ میں نے بڑے آرام سے گردن کو ناں میں ہلایا۔ اور افسرانہ شان سے آگے بڑھ گیا۔ ورنہ تو تو جانتا ہی ہے کہ پہلے تو میں اسے دور سے دیکھتے ہی دوڑ لگا لیا کرتا تھا۔

اس سے پہلے کہ نیم دانشور مہنگے ماسک کی تیسری خوبی بتاتا میں جلدی سے دخل در معقولات کرتے ہوئے بولا وہ تو سب ٹھیک ہے یہ بتاؤ کہ یہ ماسک تم نے لیا کہاں سے؟ کیا کمیٹی نکلی تھی؟ تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ لینا کہاں سے تھا یار! ایک دن باس (جلدی کی وجہ سے) اسے آفس بھول گیا تھا میں نے اٹھا لیا۔ اس پر میں حیرت سے بولا اور تم نے ایسے ہی پہن لیا؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگا نہیں یار تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں ایک پڑھا لکھا اور دانشور آدمی ہوں کسی کے منہ والا ماسک ایسے ہی کیسے پہن سکتا ہوں؟

بلکہ میں نے اسے سرف سے دھو کر پہنا ہے اور اس وقت تک پہنے رکھوں گا جب تک کہ باس کوئی دوسرا ماسک نہیں بھول جاتا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ارادہ یہی ہے کہ اسے پورا سیزن ہی چلاؤں گا تو میں حیرت سے بولا ایک ماسک میں سارا سیزن؟ اس پر وہ سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا میں کوئی عورت تھوڑی ہوں جو ایک سوٹ دوسری شادی میں نہیں پہنتی بلکہ میں وہ مرد ہوں جو ایک ماسک میں پورا سیزن گزار لیتا ہے۔ اس کے بعد اس نے مہنگے ماسک کے مزید فوائد گنوانے شروع کر دیے جنہیں سن سن کر جانے کیوں میرے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ مجھے رال ٹپکاتے دیکھ کر نیم دانشور نے اپنا ماسک اتارا پھر اپنا سستا سا منہ میرے کان کے قریب لا کر بولا۔ کہتے ہو تو۔ تمہارے لیے بھی باس کے ماسک پر نظر رکھوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).