ہم کب سیکھیں گے؟


ویسے تو پاکستان کی تاریخ بے شمار حادثات سے بھری پڑی ہے۔ کبھی کوئی دہشت گردی کا حملہ ہوا تو سیکڑوں معصوم لوگوں کی جان گئی تو کبھی کوئی طیارہ حادثہ۔ کبھی کسی ٹرین کے مسافر کسی حادثے کی لپیٹ میں آئے تو کبھی کسی نے سڑک پر کسی نہ کسی حادثے میں اپنے کسی عزیز کو کھو دیا۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورتیں سب ہی جسمانی یا ذہنی طور پر اس قسم واقعات و حادثات کے اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ ایسی ہی واقعات سے متعلق خبریں ہمیں پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا کے دذریعے سے روز بروز سننے یا دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔

آئے روز یہ خبریں سن سن کر ہماری قوم کا عمومی مزاج بھی بدل چکا اور اب کسی بھی واقعے پر ہم اپنا ایک روایتی ردعمل کے اظہار کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ ہر شخص چاہے وہ خاص ہو یا عام اس پر زیادہ سنجیدگی سے فکرمندی کا اظہار کرنے کی بجائے لفظی خانہ پری کر کے جان چھڑا لیتا ہے جبکہ اس حادثے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہوتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی عزیز اس حادثے میں زخمی ہوا ہو یا پھر اس کا انتقال ہو چکا ہو۔

ہاں کچھ واقعات یا حادثات ایسے بھی ہیں جن پر ہماری پوری قوم کا ردعمل غیر روایتی تھا اور پوری قوم کی طرف سے اس پر شدید غم کا اظہار کیا گیا۔ ان میں 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول، پشاور میں معصوم بچوں پر ہونے والا وہ حملہ ہے جس کئی معصوم بچوں کی جان گئی۔ اس واقعے نہ پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور اس وقت کی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں اور پاک فوج کو ساتھ ملا کر وہ فیصلے کیے جن کے اثرات آج واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا اور اسی وجہ اس آج کا پاکستان پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ اور پرامن ہے۔

یہ دن اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس دن ہم ایک تاریخی حادثے کا شکار ہوا۔ سقوط ڈھاکہ، جس دن پاکستان کا ایک بازو اس سے الگ کر دیا گیا۔ یہ خالص ایک سیاسی و انتظامی نوعیت کا بحران تھا جسے اس وقت کی موجودہ قیادت سمجھنے اور صورتحال سے صحیح طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اگر دونوں جانب سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا جاتا، ایک دوسرے کی بات کو سنا جاتا اور نا انصافی نہ کی جاتی تو معاملات اس سطح پر نہ پہنچے ہوتے اور ہمیں یہ نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے ان حالات و واقعات سے یا ان حادثات سے کیا سیکھا؟ کیا ان حادثات نے ہمیں پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم کیا؟ کتنے ایسے واقعات تھے جن پر ہم نے روایتی لفظی خانہ پری کو ایک طرف رکھ کر سنجیدگی سے ملک و قوم کے لئے بہتر فیصلے کرنے کے عظم کیا؟ کیا ہم آج بھی داخلی انتشار کا شکار نہیں ہیں؟ کیا ہماری سول و عسکری قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈر بشمول عوام اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ جمہوریت رہی یا آمریت کس نے کتنا ڈیلیور کیا، کیا اس کا صحیح جواب ہے کسی کے پاس ہے؟

نہیں، ہم نے ماضی کچھ نہیں سیکھا۔ ہم آج بھی آپس کے جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت آج بھی اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے ملکی مفادات کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ ہم آج بھی داخلی انتشار کا شکار ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر لفظی حملے کر رہے ہیں، کبھی ایک گروپ دوسرے کو چور اور ڈاکو کہتا ہے تو دوسرا گروپ اسے سلیکٹڈ کا طعنہ دیتا ہے۔ ملک میں کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں جو الزامات سے پاک ہو اور اپنا ان پٹ صحیح طریقے سے دے رہا ہو۔

عوام بھی اس ادارے کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہوں۔ ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ہاں نظام حکومت کوئی بھی ہو، ہر دور میں عوام کو ماسوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ مجھے پاکستان کے عوام سے بھی ایک گلہ ہے کہ ہم پاکستانی کیوں بار بار ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں جو نسل در نسل ہم پر حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں اور اس عوام کو جن کے ووٹ سے منتخب ہو کر پاور کوریڈور میں قدم رکھتے ہیں، ان کو ہی کیوں بنیادی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں۔ ہمارے عوام کب تک ان لوگوں کو ووٹ دے کر ان کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہیں گے؟

سیاست دان کب تک ایک دوسرے کو چور، ڈاکو اور سلیکٹیڈ کا طعنہ دیں گے؟ وہ ادارے جن کے متنازعہ کردار پر بات ہوتی رہی ہے، وہ کب اپنی آئینی حدود کا خیال رکھتے ہوئے قومی فریضہ سر انجام دیں گے؟

یہ کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم سب ہی کو تلاش کرنے ہیں اور جب ہم ان سوالوں کے صحیح جواب تلاش کر لیں گے اور جب ہم ایک دوسرے سے الجھنے کی بجائے اپنے حصے کا کام صحیح طریقے سے ادا کریں گے، ہر شخص اور ادارے کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ تب ہی ہمارے مسائل کاحل ممکن ہو سکے کا ورنہ ہم اگر اسی طرح سے لڑتے رہے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آ پائے گا، معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ ہمیں یہ ماننے پڑے گا ہم نے، ہماری قیادت نے، ریاست نے اور اداروں نے سب نے غلطیاں کی ہیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا اور یہ وقت ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں اگر آج نہیں سیکھیں تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ پھر، ہم کب سیکھیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).