امریکہ بمقابلہ ایران: سنہ 2000 کا تاریخی دوستانہ میچ جس کا انعقاد دو ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے کیا گیا


A female Iranian fan watches her team take on the USA, in the 2000 friendly match played in Pasadena
پیرس، 11 جولائی 1998۔ عالمی فٹ بال کپ کے فائنل کی شام پیرس کی مشہور شاہراہ شانز الیزے پر ایک عمارت کی پہلی منزل کے ایک کمرے میں فٹبال کا ایک دوستانہ میچ کرانے کا ذکر کیا گیا جس کے بعد ایک ایسی ہلچل مچی کے موت کی دھمکیاں دی گئیں، ایف بی آئی کو مداخلت کرنی پڑی اور امریکی ایئر سپیس بند ہوئی۔

اس رات یو ایس ساکر کی طرف سے 1999 کے خواتین کے عالمی کپ کی امریکی میزبانی کی تشہیر کے لیے ایک تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔

وہاں موجود سوٹ پہنے افراد کے درمیان ہلکی پھلکی بات چیت چل رہی تھی کہ اتنے میں دو پرانے دوست ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔

ان میں سے ایک تھے ایران کے مہرداد مسعودی جو کہ کینیڈیئن ساکر ایسوسی ایشن کے کمینونیکیشنز ڈائریکٹر تھے جن کے عہدے کی معیاد بھی پوری ہونے والی تھی۔ دوسرے تھے یو ایس ساکر کے جنرل سیکریٹری ہینک سٹائین بریخر۔ کہا جاتا ہے کہ فٹبال فیڈریشنز اور کنفیڈریشنز میں جنرل سیکریٹری کی مرضی کے بغیر شاید ہی کچھ ہوتا ہو۔

تین ہفتے قبل یہ دونوں افراد فرانس کے شہر لیون میں وہ میچ دیکھ رہے تھے جو ایران نے امریکہ کو دو، ایک سے ہرایا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی وجہ سے یہ گروپ سٹیچ کا میچ دنیا کی تاریخ کا سب سے زیادہ سیاسی تناؤ والا میچ بن گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کی واحد خاتون اولمپک مڈلسٹ نے ملک چھوڑ دیا

رونالڈو سے بھی زیادہ گول کرنے والے علی داعی کون ہیں؟

بغیر حجاب کے تصویر: شطرنج ریفری ایران جانے سے خوفزدہ

ایران نے عالمی اپیلوں کے باوجود اپنے ریسلر کو پھانسی دے دی

ایران اُس وقت سے امریکی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے جب 1979 میں تہران میں موجود امریکی سفارتخانے کے عملے کے 52 اراکین کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اُس سال اسلامی انقلاب آیا تھا جس میں امریکہ کے اتحادی رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

لیکن میچ والے دن اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک خطاب میں امید ظاہر کی تھی کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان بے مہری ختم کرنے کی طرف ایک قدم ہو۔

ایران

1998 کے ورلڈ کپ میچ سے قبل ایرانی اور امریکی کھلاڑی ایک دوسری کو تحائف دے رہے ہیں

دریں اثنا اس میچ سے پہلے ایرانی کھلاڑیوں نے اپنے امریکی حریفوں کو تحفے تحائف بھی دیے تھے۔

میچ کا نتیجہ جو بھی تھا،پر گراؤنڈ میں ان دو حریفوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنا ایک سفارتی کامیابی تھی اور یہ یاد معسودی اور سٹینبریچر کے ذہنوں میں بلکل تازہ تھی۔

مسعودی جن کے اس وقت ایرانی فٹبال سے اچھے روابط تھے کہتے ہیں کہ میں نے کہا ’ہینک کیوں نہ اسے دہرائیں۔ ہوم اینڈ اوے گیمز۔ اس میچ کی سالگرہ کے موقع پر پہلے ایران اگلے سال امریکہ آئے اور اس کے بعد دوسرے سال آپ ایران جاؤ۔‘

سٹینبریچر کو یہ خیال پسند آیا اور انھیں اس میں ایک موقع بھی نظر آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایران کے ہاتھوں ورلڈ کپ میں ہار ان کی مدتِ ملازمت کے دوران سب سے بڑی شکست تھی۔

’ہم نے تین مرتبہ گول پوسٹ کو ہٹ کیا۔ ہمیں برے کھیل کا سامنا نہیں تھا، ہمیں اس ٹورنامنٹ کے دوران بری شہرت جھیلنا پڑی تھی۔ انھیں نے ہمیں ہرایا، چلو اب جا کے انھیں مزہ چکھاتے ہیں۔‘

یہ بھی ایک امید تھی کہ کھیلوں کے ذریعے کسی طرح ایران اور امریکہ کو قریب لایا جا سکتا ہے، کیونکہ اسی طرح کی نام نہاد ’پنگ پونگ‘ ڈپلومیسی نے 1970 کی دہائی میں امریکہ اور چین کو قریب لایا تھا۔

مسعودی اور سٹینبریچر کے مابین مصافحہ کے ساتھ ہی کام شروع ہو گیا۔ اب انھیں اپنے خلاف تیار سیاسی قوتوں کو روکنا تھا اور کسی نہ کسی طرح اس کام کو منزل مقصود تک پہنچانا تھا۔

مسعودی کہتے ہیں کہ ’قسمت نے دونوں ٹیموں کو فرانس 98 میچ کھیلنے کے لیے اکٹھا کیا تھا۔‘

’اس مرتبہ ایک فریق کو دوسرے کو دعوت نامہ بھیجنا تھا، جس نے اسے قبول کرنا تھا اور پھر دونوں فریقوں کو اپنی حکومتوں سے نمٹنا تھا۔‘

ایران امریکہ

ایرانیوں نے سب سے پہلے ایک انتہائی حساس اور مکمل طور پر ایک ایسی شرط رکھی جس پر گفت و شنید بھی نہیں ہو سکتی تھی اور وہ تھی کہ ان کے وفد کو امریکہ پہنچنے پر فنگر پرنٹس سے مستثنیٰ رکھا جائے اور نہ ہی ان کی تصاویر لی جائیں۔

مسعودی کہتے ہیں کہ ’میں نے 80 سال کی نانیوں دادیوں کے ساتھ یہ ہوتے ہوئے دیکھا ہوا ہے، میں نے اپنی ماں کو بھی اس سے گذرتے ہوئے دیکھا ہوا ہے۔

’جو اس کا عادی نہ ہو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی مجرم کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔ میں نے ہانک سے کہا کہ انھیں محکمہ خارجہ اور امریکی امیگریشن سے استثنیٰ کے لیے بات کرنی ہوگی۔‘

سٹینبریچر کے لیے یہ ایسا لمحہ تھا جس میں انھیں محسوس ہوا کہ پیرس میں کھانے پر پیش کیے جانے والے خیال کو کیلیفورنیا کے گراؤنڈ تک لانے تک کتنے مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا محسوس ہوا کہ تقریباً ہر گھنٹے میں ایک بحران کھڑا ہو گا۔ یہ کھلاڑیوں کے فنگر پرنٹس سے لے کر ملاؤں کے یہ کہنے تک تھا کہ وہ میچ نہیں کھیلیں گے کیونکہ سٹیڈیم کے اندر شراب کی تشہیر کی جا رہی ہے۔‘

’بہت سی، بہت زیادہ رکاوٹیں تھیں اور خوش قسمتی سے ہم اتنے بھولے تھے کہ ہم سوچ رہے تھے کہ ہم انسانیت کے لیے کچھ اچھا کر رہے ہیں۔‘

USA and Iran players pose for a joint team photo at France 98

عالمی کپ سے پہلے ایران اور امریکہ کی ٹیموں کا گروپ فوٹو

اصل میں پہلا میچ 1999 کے موسم گرما میں واشنگٹن ڈی سی میں طے پایا تھا۔

لیکن وائٹ ہاؤس کے شہر میں کھیلنے کی علامت ایرانی حکومت کے لیے کچھ بہت زیادہ ہی اہم تھی، جس نے ٹیم کے امریکہ جانے کی منظوری نہیں دی۔

اس کے بجائے کھیل کا شیڈول بدل کر اسے جنوری 2000 میں لاس اینجلیز کے پاساڈینا روز باؤل میں منعقد کرانے کا فیصلہ ہوا۔ یہاں پانچ لاکھ سے زیادہ ایرانی مقیم ہیں اور اسی وجہ سے وہ اسے تہرانجلیز کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ یہ ایکواڈور اور میکسیکو کے خلاف دوستانہ میچوں کے بعد تین میچوں کی سیریز کا آخری میچ امریکہ کے خلاف ہونا تھا۔

لیکن دو ماہ بعد نومبر 1999 تک بھی فنگر پرنٹس کا مسئلہ بظاہر ایک ناقابل تسخیر بحران بن چکا تھا۔ تھام میرڈیتھ نے، جو یو ایس سوکر کے ایونٹس کے ڈائریکٹر تھے، مسعودی کو بتایا کہ فنگر پرنٹس کا استثنیٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔

لیکن پھر بھی کھلاڑیوں کو شکاگو کے ہوائی اڈے کی ایک پرائیویٹ جگہ میں لے جایا جائے گا جہاں ان کے فنگر پرنٹس اور تصاویر لی جائیں گی۔

مسعودی کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا تھام ، یہ بالکل نہیں ہو سکتا۔ اگر میں یہ بات ایران کو بتا دوں تو وہ اسی وقت میچ کو منسوخ کر دیں گے۔ اس شرط پر ہی معاہدہ طے پایا تھا اور بطور ایک ایرانی میں یہ نہیں کہہ سکتا۔‘

’یہ ان لوگوں کو جو نہیں چاہتے کہ ایسا ہو ایک موقع فراہم کرے گا کہ ٹیم کو سفر کرنے سے روکیں۔‘

مسئلے کا حل امریکی محکمہ خارجہ کے پاس تھا جو کہ مؤثر طور پر امریکہ کا دفتر خارجہ ہے۔ وہ بضد رہا، لیکن پھر صرف دو ہفتے پہلے ایک پراسرار مداخلت ہوئی اور ایرانیوں کو چھوٹ مل گئی۔

سٹینبریچر کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت کیا چین آف کمان تھی، لیکن میری رائے ہے کہ یہ بہت اوپر تک گیا تھا (امریکی انتظامیہ میں)۔‘

’ہم نے یہ کام کروایا ، انھوں نے یہ کام کروایا۔ لیکن انھوں نے چیزیں اس طرح نہیں دیکھیں جس طرح ہماری فیڈریشن دیکھتی تھی۔ محکمہ خارجہ میں ایسے لوگ زیادہ نہیں تھے جنھیں کھیل کے ذریعے بین الاقوامی سفارتکاری کا کام سونپا گیا ہو۔‘

تاہم، اگر سٹینبریچر اور ان کے ساتھی سمجھے تھے کہ وہ بدترین صورتحال سے گذر گئے ہیں تو انھوں نے یہ اندازہ ایرانی حکومت کی پیچیدہ مشینری کے بغیر لگایا تھا ، جس میں صدر سب سے بڑا جزو نہیں ہے۔

نئے ملینیئم کے شروع ہوتے ہی اور ایرانی ٹیم کے امریکہ کی اڑان بھرنے کے کچھ دن قبل، تہران میں اگلا سیاسی بحران شروع ہوا۔

Hamid Estili (now Iran's Under-23 coach) poses outside his Tehran home after returning from the 1998 World Cup. He scored the opening goal in Iran's 2-1 win over USA

حامد استلی جنھوں نے امریکہ کے خلاف پہلا گول کیا تھا

اپنے سیاسی آقاؤں کے دباؤ میں آ کر ایران کے اصلاح پسند صدر محمد خاتمی نے ایران کے فٹ بال فیڈریشن کے صدر محسن صفائے فرحانی سے کہا کہ وہ اس دورے کو ختم کر دیں۔

مسعودی کہتے ہیں: ’لیکن صفائے نے معاہدے پر دستخط کیے ہوئے تھے اور امریکی فٹ بال نے اسے چھوٹ دی تھی لہذا ایران معاہدہ کے مطابق سفر کرنے کا پابند تھا۔‘

’یہ میچ مضبوط حریفوں کے خلاف تھے، اور وہ تین میچوں سے 200،000 ڈالر سے زیادہ رقم کما رہے تھے۔ اس سے پہلے ایران کو دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے کبھی اتنی بڑی رقم نہیں دی گئی تھی۔‘

صفائے فرحانی اپنی بات پر جمے رہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ دورہ پلان کے مطابق ہو گا۔ اس موقع پر تھام میرڈیتھ ایک اہم شخصیت بن گئے۔

میرڈیتھ کا کہنا ہے کہ ’میں وہ آدمی نہیں تھا جس نے مختلف ممالک سے رابطہ کیا ہو اور دوستانہ میچوں کی درخواست کی ہو۔ میں وہ آدمی تھا جسے کہا گیا تھا، دیکھیں، ہم ایرانیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، اور یہ کس طرح کرنا ہیں یہ آپ جانیں۔‘

میرڈیتھ نے ایرانی ٹیم سے ملنے کے لیے فرینکفرٹ کا سفر کیا جو امریکہ کے لیے وہاں سے ہو کر آ رہی تھی۔ وہیں ٹرانزٹ لاؤنج میں انھیں ایک اور بحران کا سامنا ہوا۔

میریڈتھ کہتے ہیں کہ ’ایک ایرانی کھلاڑی جرمنی میں ٹیم سے ملا، جہاں وہ کھیلتا تھا۔ ’وہ اس دورے کے بعد اپنا کلب چھوڑ رہا تھا اور اس نے مجھے اپنے اپارٹمنٹ کی چابی دکھائی۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنا ڈپازٹ واپس لینے کے لیے انھیں چابی واپس کرنا ہو گی۔‘

’میں نے سوچا، تو پھر میں اس کا کیا کروں۔ میں نے وفد کے سربراہ کو ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا کہ ’اگر اس کھلاڑی کی فلائیٹ مس ہو گئی تو امریکی سوکر فیڈریشن اور تھامس پی میریڈتھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی۔‘

’اس نے اس پر دستخط کیے، میں نے بھی کیے۔ جس میں بنیادی طور پر یہ لکھا تھا کہ ٹرانزٹ زون میں جس جگہ ہم اس وقت کھڑے ہیں اگر وہ وہاں نہ آ سکا تو یہ تھام کی غلطی نہیں ہو گی۔‘

کھلاڑی واپس پہنچ گیا، لیکن شکاگو کی فلائیٹ پکڑنے سے تھوڑی دیر پہلے میریڈتھ کو یہ بتایا گیا کہ تقریباً وفد کے آدھے لوگوں کی فلائیٹس کے ابھی تک پیسے نہیں دیے گئے۔

میرڈیتھ کہتے ہیں کہ ’شکاگو میں اس وقت صبح کے 3 کے قریب کا وقت تھا۔ میں کس کو فون کروں؟ اگر میں نے کسی کو فون کیا تو وہ کیا کریں گے؟ شاید وہ میرا فون بند کر دیں۔‘

صرف ایک ہی جواب ملا۔ انھیں خود ہی 13,000 ڈالر کا بل بھرنا پڑے گا اور ’رسید کو کہیں محفوظ رکھیں۔‘

’میری کمپنی کے کریڈٹ کارڈ کی حد 5,000 ڈالر تھی۔ میرے ذاتی کریڈٹ کارڈ کی حد 30,000 ڈالر تھی۔ لہذا میں وہاں کھڑا ہوں اور ایک خیالی سکے کو ہوا میں اچھالتا ہوا یہ سوچ رہا ہوں: مجھے یہ کرنا پڑے گا ، لیکن کیا مجھے اپنے پیسے واپس مل جائیں گے؟‘

ایرانی شائقین

انھوں نے ایسا ہی کیا، بلکہ ساتھ ہی بزنس کلاس میں اپ گریڈ بھی کرا لیا۔ یہ مشکل میں پھنسے ہوئے ڈیسک کے عملے کے لیے ایک قسم کا انعام بھی تھا۔

کچھ گھنٹوں کے لیے ایرانی ٹیم ہوا میں تھی، تباہ کن فون کالوں کی پہنچ سے دور اور امریکہ کی طرف۔

لیکن جب وہ شکاگو کے او’ہارے ہوائی اڈے پر اترے تو وہ ہی ہوا جس کی ہر کوئی دعا کر رہا تھا کہ نہ ہو۔

میریڈتھ کہتے ہیں کہ ’امیگریشن پر ہمارے لیے ایک الگ قطار تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ایک خاص معاہدہ تھا‘۔

’ایجنٹ نے پہلے لڑکے سے آغاز کیا اور سیاہی کا پیڈ نکالا اور کہا کہ ہمیں فنگر پرنٹس لینے ہیں اور ہم آپ کی تصاویر بھی لیں گے۔

’فورا ہی ، ایران کے وفد کے سربراہ نے کہا: ہم گھر جارہے ہیں۔ بہت ہو چکی۔ آپ نے جھوٹ بولا تھا۔‘

’میں نے کہا اسے مجھ پر چھوڑ دیں ، ہم نے سب کر لیا ہے۔‘

’ایک جادوگر کی طرح میرڈیتھ نے ایک خط نکالا جو شکاگو امیگریشن اینڈ نیچرلائزیشن سروس کے سربراہ کی طرف سے تھا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ ایرانیوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔‘

لہذا ایران کے فٹ بالر پانچ سال قبل امریکہ آنے والے ایک ریسلنگ سکواڈ کے بعد، ایران کے کھیلوں کے دوسرے وفد بن گئے جنھوں نے 1979 کے انقلاب کے بعد امریکی سرزمین پر قدم رکھا ہو۔

A man holds up the flags of Iran (the flag in use up to the revolution of 1979) and the United States at the 2000 friendly match between the nations

پیسا ڈینا میں ایک مداح ایران اور امریکہ کے درمیان میچ دیکھتا ہوا۔ جو جھنڈا اس نے اٹھایا ہوا ہے وہ انقلاب سے پہلے والے ایران کا تھا۔

کھلاڑیوں کے رابطہ افسر ایرانی نژاد امریکی ریفری اسفندیار بہرامست تھے۔ 1972 میں وہ بھی امریکہ میں منتقل ہونے والے ایرانی طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد میں شامل ہو کر یہاں آئے تھے۔ اگرچہ ان کی تعلیمی قابلیت کیمیائی انجینئرنگ کی تھی لیکن فٹ بال ان کا جنون تھا۔

جب گھٹنے کی ایک شدید چوٹ نے ان کے کھیل کے عزائم پر پانی پھیر دیا تو وہ ریفری بن گئے اور 1998 ورلڈ کپ میں یہ ذمہ داری بھی نبھائی۔ جنوری 2000 تک وہ یو ایس سوکر میں ریفریوں کے ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے۔ لیکن بطور ایرانی فٹ بال کے ایک پرستار کے وہ اب اپنا خواب جی رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں تمام وقت کھلاڑیوں کے ساتھ تھا۔ اس لمحے سے لے کر جب وہ یہ پہنچے تھے اس لمحے تک جب وہ روانہ ہونے کے لیے طیارے میں سوار نہ ہو گئے۔‘

’ہم انھیں دوروں پر لے گئے، ہم ان کے ساتھ خریداری کرنے گئے، کچھ بھی جسے کرنے کی ضرورت تھی۔ ہم نے سان فرانسسکو میں یونیورسل سٹوڈیوز، دی گولڈن گیٹ برج اور لمبارڈ سٹریٹ کا بھی ٹوؤر لیا۔‘

’میں صرف اس بات کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ وہ لطف اندوز ہوں اور میں اسکا بہت زیادہ کریڈٹ دونوں فیڈریشنوں کو دیتا ہوں۔‘

’ہینک سٹینبریچر حقیقت میں ایک سمجھدار انسان تھے۔ انھوں نے اس چیز کی اہمیت دیکھی اور ان کے قیام کو آرام دہ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔‘

’کھیل میں جیت ہار ہوتی رہتی ہے، لیکن میرے نزدیک یہ انسانیت کے بارے میں ہے اور یہ میچ کو امن اور دوستی کی فضا میں ہوتے ہوئے دیکھنا میرے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ فخر کی بات تھی۔ اصل خیال یہ تھا کہ 90 منٹ کے فٹبال میں ہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کئی سال آگے بڑھا سکیں۔‘

اب جب ایرانی آخر کار امریکی سرزمین پر تھے تو ایک خفیہ سیکیورٹی آپریشن بھی عمل میں آیا۔

بہرامست کہتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو خفیہ پولیس تھے، جو ہمیں دیکھ رہے تھے اور جان رہے تھے کہ ہم کسی بھی لمحے کہاں تھے، لیکن وہ مداخلت نہیں کر رہے تھے۔

’اگر آپ کو یہ پتہ نہ ہوتا کہ وہ یہاں ہیں، تو آپ کو ان کا موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔‘

پہلے دو میچوں میں ایران نے ایکواڈور کو دو ایک سے ہرایا اور پھر اسی سکور سے میکسیکو سے ہار گیا۔ دونوں مرتبہ ایرانی امریکی مداحوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔

لیکن جیسے ہی امریکہ کے ساتھ میچ کا وقت قریب آتا گیا خوشی کی جگہ خوف بھی نظر آنے لگا۔

Iran's players training before their 2000 friendly match against USA at the Rose Bowl

روز باؤل سٹیڈیم میں میچ سے پہلے ایرانی کھلاڑی ٹریننگ کرتے ہوئے

کوئی نامعلوم اسلامی گروہ ایرانیوں کے ہوٹل کے کمروں میں کالیں کرنے لگا۔ انھیں میچ نہ کھیلنے کے لیے رشوت کی پیش کش کی گئی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دھمکیاں دی گئیں۔

معسودی کہتے ہیں کہ ’میچ سے دو دن پہلے ایران کے کوچ منصور پور حیدری کو کسی نے فون کیا اور انھیں پیشکش کی کہ اگر وہ میچ نہ کھیلیں تو انھیں دس لاکھ ڈالر دیے جائیں گے۔‘

ایرانی فٹ بال کے صدر محسن صفائے فرحانی کو کسی نے فون کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ایران کی کوئی اعلی ترین اتھارٹی ہیں۔ انھوں نے دھمکی دی کہ اگر میچ ہوا تو وفد کو گھر واپس لانے آنے والی فلائٹ کو گرا دیا جائے گا۔

مسعودی کہتے ہیں کہ ’جب ان کو کال آئی تو میں وہاں موجود تھا۔ وہ بہت ثابت قدم رہے اور کہا کہ جن لوگوں کی نمائندگی کا آپ دعوی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ میں کہاں ہوں۔ ان کے پاس میرا فون نمبر ہے اور وہ خود مجھے براہ راست کال کر سکتے ہیں۔‘

ایک نظریہ، جس کو سنجیدگی سے لیا گیا تھا، وہ یہ تھا کہ میچ میں الکوحل کی سپانسرشپ نے دھمکیاں دینے والوں کی مذہبی حساسیت کو دھچکہ پہنچایا تھا۔ میچ کی مرکزی سپانسر کمپنی اینہیزر۔بوش تھی، یہ وہ کمپنی ہے جو بڈوائزر بیئر بناتی ہے۔

میچ شروع ہونے سے پہلے ایک اجلاس میں یو ایس سوکر فیڈریشن نے سپانسر بدلنے کی بھی پیش کش کی تھی۔

امریکی سوکر جنرل سکریٹری ہینک سٹینبریچر کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا کہ دیکھو میں اینہیزر۔بوش کے لوگوں کو جانتا ہوں، میں کچھ اچھا کر لوں گا۔‘

’میں انھیں کسی اور دن مزید (اشتہارات) لگانے دوں گا۔ اس میچ کے لیے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

لیکن صفائے فرحانی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔

مسعودی کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کہا کہ بطور فٹ بال کے ایک منتظم کے انھیں معلوم ہے کہ سپانسرز کو راضی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی ایک پروگرام کا نقصان سپانسرز کے سامنے آپ کی ساکھ کا نقصان ہے۔‘

’میں ترجمہ کر رہا تھا اور جملہ ختم ہونے تک مجھے اپنے آنسو روکنا پڑے۔‘

سٹینبریچر یاد کرتے ہیں: ’آپ اخلاقی ایمانداری کی بات کرنا چاہتے ہیں؟ انھوں نے مجھے اپنے رنگ دکھائے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ ایک ٹھوس آدمی تھے۔‘

Iran players, wearing the USA shirts they have swapped, acknowledge the Rose Bowl crowd after their 1-1 draw

میچ ایک ایک سے ڈرا ہونے کے بعد ایرانی کھلاڑی امریکی کھلاڑیوں کی شرٹس پہنے ہوئے۔

اس کے باوجود ایرانی کھلاڑیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے گئے۔ مسعودی کے مطابق ٹیم کے ہوٹل کے باہر سڑکیں بند کر دی گئیں اور ہوٹل کے قریب کسی کو گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی سٹیڈیم تک ٹیم کا پیچھا نہ کرے ایف بی آئی نے ہوٹل کے باہر ایک اور بس کھڑی کر رکھی تھی جس پر ’ایران‘ کی برانڈنگ تھی۔ اصل ٹیم بس ہوٹل کے ویران زیر زمین کار پارک میں لوگوں کی نظروں سے دور رکھی گئی تھی۔

سب سے پہلے جعلی فٹ بالرز کے ساتھ جعلی بس چلتی۔ اور جیسے ہی اس کا سفر شروع ہوتا، ایران کی قومی ٹیم کو کچن اور سروس لفٹوں کے ذریعے سمگل کیا جاتا۔

پیساڈینا روز باؤل نے ورلڈ کپ کے دو فائنل اور 1984 کے اولمپک فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل کی میزبانی کی تھی۔ لیکن شاید ہی ان مواقعوں پر ایسے ’دوستانہ میچ‘ سا ماحول ہو۔

ہوٹل کے اوپر کی فضائی حدود کو بند کر دیا گیا تھا کہ کہیں کوئی اس پر طیارہ گرانے کا منصوبہ ہی نہ بنا رہا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے 18 ماہ بعد 9/11 کو ایسا ہی ہوا۔

میچ سے پہلے ہونے والی پارٹیاں ضرور ہوئیں جو کہ کسی بھی امریکی کھیلوں کے مقابلے سے پہلے ہوتی ہیں اور جن میں کھانا اور بیئر پیش کی جاتی ہے، لیکن اس مرتبہ ان میں کچھ بدلاؤ تھا۔

مسعودی کہتے ہیں کہ سٹیکس اور برگر کی بجائے اب وہاں ایرانی کباب تھے۔

’سٹیڈیم کے باہر ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی مخصوص این ایف ایل کا موقع ہے۔ لیکن جب آپ قریب پہنچتے اور لوگوں کو دیکھتے اور کھانے کی خوشبو سونگھتے، تو یہ بات واضح ہو جاتی کہ یہ کوئی امریکیوں کی آؤٹنگ ہے جس کا انتظام ایرانی کر رہے ہیں۔‘

وہاں موجود پچاس ہزار سے زیادہ شائقین میں سے ایک سعید موساوین بھی تھے، جو کولوراڈو سے لاس اینجلز پہنچے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کتنی بار اپنی قومی ٹیم کو کھیلتا ہوا دیکھتے ہیں؟ ایک ایسا احساس تھا کہ شاید ایسا دوبارہ پھر کبھی نہ ہو۔‘

’اس وقت میری ایک امریکی گرل فرینڈ تھی۔ وہ میرے ساتھ گئی اور اس نے امریکی اور ایرانی جھنڈوں سے اپنا چہرہ پینٹ کیا تھا۔ سنہرے بالوں والی لڑکی جس کے چہرے پر ایرانی جھنڈا۔ اور میں نے اسے ایرانی شرٹ بھی پہنائی۔‘

میچ کے بعد انھوں نے ایک امریکی کھلاڑی سے پوچھا کہ کیا وہ ایران جا کر دوستانہ میچ کھیلنا پسند کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ ‘ہمیں اس کی ضرورت نہیں کیونکہ آج ہم ایران میں تھے۔‘

’یہ ایک حیرت انگیز ماحول تھا۔ ہر کوئی خوش تھا۔ اگر امریکی ٹیم کوئی اچھا پاس دیتی یا ٹیکل کرتی، یہاں تک کہ جب انھوں نے گول بھی کیا، ہم انھیں داد دیتے۔‘

’جب انھوں نے سکور کیا تو مجھے بڑا برا لگا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عمدہ شاٹ تھی۔‘

پہلا گول ایران کے نئے ونگر مہدی مہداویکیا نے کیا۔ میچ کے دوسرے ہالف میں امریکہ کے مڈفیلڈر کرس آرمس نے گول کر کے میچ برابر کر دیا۔ 1-1 کی برابری ایسا سفارتی نتیجہ تھی جس کا سیاسی استحصال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس سے ایران اور امریکہ کے مابین تعلقات کو بہتر کرنے میں مدد نہیں ملی، جیسا کہ بہت سارے لوگوں کو امید تھی کہ یہ ممکن ہے۔ اور آج بھی دونوں ممالک میں تناؤ برقرار ہے۔

سٹینبریچر کہتے ہیں کہ ’ہم معصوم تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہم اپنے کھیل کے ذریعہ دونوں ممالک کے لیے کوئی بہت اچھی چیز کر رہے ہیں۔ لیکن پھر یہ بھی ہے، اگر آپ کوئی بڑا کام نہیں کر رہے تو آپ کو اس میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے۔‘

ایران میں ہونا والا میچ جس کا پہلے پلان تھا اب بھی ہونا باقی ہے۔ جنوری 2001 میں امریکہ کو ’دی سویلائزیشن کپ‘ نامی ایک ٹورنامنٹ کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جس میں انھوں نئی دنیا کی نمائندگی کرنا تھی جبکہ ایران، مصر اور یونان نے پرانی دنیا کی نمائندگی کرنا تھی۔ لیکن ایرانی فٹ بال فیڈریشن کے لیے اس میں شمولیت کی فیس اس کی پہنچ سے باہر تھی۔

پھر بھی، ان میچوں کے معماروں کے لیے، اس دوستانہ میچ نے جس نے نئی صدی کا آغاز ایک بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ کیا، وہ سب کوششیں بیکار نہیں تھیں۔

تھام میرڈیتھ کہتے ہیں کہ ’میرے فرش پر ایک جائے نماز ہے جو (ایرانی) وفد کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے۔‘

’یہ میرے قیمتی چیزوں میں سے ایک ہے۔ در حقیقت، اگر میرے گھر میں آگ لگ جائے تو میں شاید دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے جن چیزوں میں سے ایک کو پہلے اٹھاؤں وہ یہی ہو۔‘

’مجھے بطور تاریخ، جغرافیائی سیاست اور کھیل کے طالب علم کی حیثیت سے اس کا ایک حصہ بننے پر بہت فخر ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp