سمیع چوہدری کا کالم: محمد عامر اور ’ہماری ادھوری کہانی‘


عامر
کُل ملا کر 147 انٹرنیشنل میچ اور ان میں پاکستان کے لیے 259 وکٹیں۔۔۔ یہ ہے ’ہماری ادھوری کہانی۔‘ یہ وہ اختتامی نوٹ ہے جس پر محمد عامر نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔

انٹرنیشنل ڈیبیو سے اب تک محمد عامر کی کہانی میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ کئی بار کہانی دم توڑنے کو آئی مگر نہ تو خود محمد عامر نے ہتھیار ڈالے اور نہ ہی ہم مداحوں نے کبھی مایوسی کو بند باندھنے دیا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان وہ اینٹی کلائمیکس ہے کہ جو خود کہانی لکھنے والے کے بھی علم میں نہ تھا۔

پاکستان کرکٹ میں ریٹائرمنٹ کا ’اعلان‘ کبھی بھی کوئی عام خبر نہیں ہوتی، یہ ایک پورا ’فینومینا‘ ہوتا ہے۔ پہلے جذباتی پیغامات کی بھرمار ہوتی ہے، ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر‘ ٹائپ معاملہ ہوتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے جب ’اعلان‘ پرانا ہونے لگتا ہے تو ’آئی ایم بیک‘ کی صدا ایک نیا ’اعلان‘ بن کر ہیڈلائنز پر گرتی ہے۔

ماضی قریب میں ہم ایسے کئی ’اعلانات‘ جھیل چکے ہیں۔ محمد یوسف کی ریٹائرمنٹ کے اعلانات اگرچہ شاہد آفریدی سے زیادہ مضحکہ خیز تو ثابت نہ ہو سکے مگر بہرحال مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔

یہ بھی پڑھیے

محمد عامر کے دوبارہ ہیرو بننے میں کیا رکاوٹ؟

’محمد عامر دنیا کے مشکل ترین بولر ہیں‘

بڑے میچ کا بڑا بولر

اور اب جس انداز سے محمد عامر نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے، وہ ریٹائرمنٹ سے زیادہ انسانی ہمدردی کی اپیل دکھائی دے رہا ہے۔ اگر بہرحال اپنے سابقہ ایمپلائر پی سی بی کے ساتھ ان کے معاملات بہتری کی طرف جانا ناممکن ہو چکے تھے تو اعلان مختصر اور پُر وقار بھی کیا جا سکتا تھا۔

مگر پاکستانی فاسٹ بولر کبھی بھی چپکے سے ریٹائر ہونا پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی طُرفہ تماشا ہے کہ اکثر فاسٹ بولر اپنے سابقہ ہیروز کی اناؤں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پہلے شعیب اختر وقار یونس کے فیصلوں کی نذر ہوئے اور اب محمد عامر بھی ان سے دل گرفتہ ہیں۔

عامر

وقار یونس کا کوچنگ کرئیر کبھی بھی تنازعات سے پاک نہیں رہا۔ محمد عامر کا شکوہ کافی حد تک بجا بھی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ’ورک لوڈ‘ صحیح معنوں میں محمد عامر کو گھن کی طرح کھا رہا تھا، تب کوچ مصباح اور وقار یونس نہیں، مکی آرتھر اور اظہر محمود تھے۔

مگر مکی آرتھر سے عامر کو کوئی شکوہ نہیں، وہ کبھی بھی، کہیں بھی ان کی کوچنگ میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ عامر کو شکوہ صرف اور صرف موجودہ پی سی بی انتظامیہ اور اس کے بھرتی کیے ہوئے کوچنگ سٹاف سے ہے۔

نجم سیٹھی کے وہ آج بھی معترف ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر کوئی احسان مانی اور مصباح کے دور میں نجم سیٹھی اور مکی آرتھر کو یاد کر رہا ہے تو یہ کہیں نہ کہیں ایک ملفوف سا پیغام ہے کہ بھئی اگر وہ لوگ آج صاحبِ مسند ہوتے تو مجھے یہ ذہنی اذیت نہ سہنا پڑتی۔

مکی آرتھر اور نجم سیٹھی کے علاوہ محمد عامر جس کے معترف ہیں، وہ وہی شاہد آفریدی ہیں جو اعجاز بٹ کے خلاف ’ذکا اشرف کی تقرری تک بیوپار بند ہے‘ کا جھنڈا اٹھا کر چلے تھے اور اپنی جدوجہد میں کامیاب بھی ٹھہرے تھے۔

اگر محمد عامر کا اعلان بھی کسی ایسی ہی ’پیشرفت‘ کا منتظر ہے تو یہاں پھر ایک سابق فاسٹ بولر، وزیراعظم اور پی سی بی کا پیٹرن ان چیف ان کی راہ میں کھڑا ہو گا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ محمد عامر پاکستان کرکٹ کی حالیہ تاریخ کا طلسماتی ترین کردار رہے ہیں۔ جو والہانہ محبت اور ہمدردی انھیں اپنے مداحوں سے ملی، کسی کسی کے حصے آتی ہے۔ یہ محبت اور ہمدردی اس قدر شدید تھی کہ پورے ڈریسنگ روم کی رائے کے برعکس ان کو ٹیم میں واپس لایا گیا۔

محمد عامر

مگر بدقسمتی سے واپسی کے بعد عامر وہ عامر نہیں رہے تھے۔ کرک انفو کے عثمان سمیع الدین کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں خود محمد عامر نے اعتراف کیا کہ پانچ برس کی غیر حاضری نے ان کے ذہن کے ساتھ ساتھ جسم پر بھی اپنے نقوش چھوڑے لیکن مداح یہ امید کر رہے تھے کہ وہ 2010 والے محمد عامر ہی ہوں گے۔

مگر وہ نہ تھے۔ اور ہم سب کچھ دیکھ کر بھی مصر رہے۔ ہم کسی نہ کسی طرح سے ’وہ والا‘ محمد عامر نکالنا چاہتے تھے۔ اپنی واپسی کے بعد عامر نے زیادہ تر کرکٹ سرفراز احمد کے تحت کھیلی اور سرفراز نے اسی جستجو میں انھیں اتنا استعمال کیا کہ وہ تھک گئے۔

وہ تھک کے بھی ہمت نہیں ہارنا چاہ رہے تھے۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ کر مختصر فارمیٹ میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتے تھے۔مگر یہاں سے پی سی بی اور ان کے بیچ دراڑ آ گئی۔ ایک مرحلے پر یہ شگاف بھرنے کی ایک کوشش سی بھی ہوئی مگر بات کچھ بنی نہیں۔

اگر پی سی بی محمد عامر کے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے پر ناراض تھا تو یہ ناراضی کسی بھی لحاظ سے نامعقول نہیں تھی۔ پچھلے دس سال میں یہ پی سی بی کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ تھی۔ پابندی کے باوجود کرکٹ بورڈ نے ہر طرح سے، ہر فورم پر ان کا ساتھ دیا۔ پی سی بی کی محمد عامر سے توقعات بہت زیادہ تھیں۔

محمد عامر

اگر محمد عامر حالیہ سینٹرل کانٹریکٹ کی لسٹ سے خارج ہونے پر نالاں تھے تو یہ بھی کوئی دور کی کوڑی ہے۔ ہم سب جان چکے ہیں کہ محمد عامر دنیا بھر کی ٹی ٹونٹی لیگز میں کھیلنا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ سینٹرل کانٹریکٹ کی لسٹ میں شامل ہوتے تو وہ مقررہ تعداد سے زیادہ لیگز نہ کھیل پاتے۔ بطور فری لانسر پاکستان کی نمائندگی کرنا غالباً مالی اعتبار سے ان کے لتے زیادہ سودمند تھا۔

ٹیم نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اور کوچز نے کیونکر انھیں تکلیف دہ ماحول میں رکھا، پی سی بی کو اس کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی سابق کھلاڑی کسی کے خلاف اپنے دیرینہ تعصبات کی بنیاد پر کسی کو ہدف بناتا ہے تو یہ رویہ کسی بھی ڈریسنگ روم کی ذہنی صحت کے لیے درست نہیں۔

عموماً ریٹائرمنٹس وہ لمحہ ہوتی ہیں جب جذبات امڈ آتے ہیں اور ہر طرف سے خراجِ تحسین کی صدائیں اٹھتی ہیں۔مگر بدقسمتی سے محمد عامر کی ناگہانی ریٹائرمنٹ نے کئی زخم کرید ڈالے ہیں۔ زخم تو نجانے کب بھریں گے مگر فی الوقت تو یہی غم کھائے جا رہا ہے کہ جسے وسیم اکرم کے ریکارڈ توڑنا تھے، اس کا اپنا دل ٹوٹ گیا۔

اور محمد عامر کا دل کیا ٹوٹا، کروڑوں شائقینِ کرکٹ کی رومانوی لو سٹوری انٹرول پر ہی ختم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp