کیا سویپرز واقعی ہی سپر ہیروز ہیں؟


”اگر آپ مہینے میں ایک بار یہ خبر دے دیتے ہیں کہ صفائی کرنے والوں کو بروقت تنخواہ نہیں مل سکی ہے تو یہ مت سمجھیں کہ آپ نے کوئی بڑا کام کیا ہے بڑا کام تب ہوگا جب آپ سویپرز کو معاشرے میں باوقار مقام دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے اور باوقار مقام یہ ہے کہ لوگ سویپرز کو دیکھ کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے یہ کہیں کہ“ Sweepers are super heroes” یہ وہ الفاظ ہیں جو سویپرز کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں ایک سینئر صحافی کے منہ سے سننے کو ملے۔

اس تقریب کا اہتمام سنٹر فار لا اینڈ جسٹس نے لاہور کے ایک ہوٹل میں کیا تھا۔ تقریب میں ملک بھر سے شرکت کرنے والے سویپرز کو ایک روز قبل ہوٹل کے وی آئی پی رومز میں ٹھہرایا گیا تھا ’اور ان کی خوب خاطر مدارت بھی کی گئی تھی۔ تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور اینکر پرسن اجمل جامی نے کہا کہ پروفیشن کی بنا پر نفرت کی نگاہ سے دیکھنے جانے والوں کے اعزاز میں ایسی تقریب کا انعقاد خوش آئند ہے تاہم اس تقریب کا انعقاد اس ہوٹل کے بجائے ایوان صد ر یا وزیر اعظم میں ہونا چاہیے تھا کیونکہ جب تک سرکاری سطح پر ان لوگوں کی خدمات کو تسلیم نہیں کیا جاتا ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا ناروا سلوک ختم نہیں ہو سکتا۔

تقریب میں سویپرز اور ان کے حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد کو ”ایوارڈز“ بھی دیے گئے۔ اس تقریب میں شرکا کی تقاریر اور سویپرز کے لئے پذیرائی کو دیکھ کر ایک بار تو یہ احساس ہوا کہ گلیوں میں جھاڑو پھیرنے والے افراد واقعی ہی ہیرو ہیں تاہم تقریب کے اگلے ہی روز سوشل میڈیا کو دیکھتے ہی یہ خیال کافور ہو گیا۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر اس تقریب کو جس طرح مثبت انداز میں پیش کیا گیا تھا اسی طرح اسے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

تنقید کرنے والے زیادہ تر افراد کا کہنا ہے کہ سویپرز کو ہیروز کا درجہ دے کر ایک لوگوں کو ایک ایسے کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے جسے کسی صورت پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض نے تو اس پیشہ کو لعنت بھی قرار دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیشہ کو لعنت کی صورت میں ایک مخصوص کمیونٹی سے جوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نہ خود تعلیم حاصل کر پائے ہیں اور ہی ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکے ہیں دوسری جانب ”Sweepers are superhero“ کمپین شروع کرنے والی خاتون میری جیمز گل کا موقف اس سے یکسر مختلف ہے ’میری جیمزگل قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی میں پنجاب اسمبلی کی رکن بھی رہ چکی ہیں‘ انہیں یہ کمپین شروع کرنے پر سویڈش حکومت کی جانب سے ”اینا لنڈا“ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

میری گل کا کہنا ہے کہ یہ مہم شروع کرنے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب سوشل میڈیا پر صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سویپر کے بارے میں خبر وائرل ہوئی تھی اس سویپر کو جو اپنے دوسرے ساتھیوں کی جان بچانے کے لئے گٹر میں اترا تھا۔ سندھ کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اس بنا پر طبی امداد دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کا جسم گندا ہے۔ میری جیمز گل کے مطابق اس خبر نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو ہلا کر رکھ دیا تھا ’پنجاب پولیس کے ایک سینئر افسر سہیل ظفر چھٹہ نے اس واقعہ کی مذمت اور نفرت کا شکار سویپر سے اظہار یک جہتی کے لئے ”ہاں میں چوہڑا“ ہوں کا ہیش ٹیگ متعارف کرایا تھا جو بعد ازاں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔

اسی تحریک کی بنا پر انہوں نے اس مظلوم طبقہ کے لئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ کمپین شروع کی کیونکہ ان کے نزدیک کوئی پیشہ برا یا قابل نفرت نہیں ہوتا ’معاشرتی رویوں کی وجہ سے اسے قابل نفرت بنا دیا جاتا ہے۔ سویپرز کو سپر ہیروز ثابت کرنے کے لئے میری گل نے گٹر کی صفائی کرتے ہوئے جان دینے والے کئی سویپرز کے حوالہ جات دیے‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس پیشہ سے وابستہ افراد کس طرح نفرت اور تعصب کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر میرے نزدیک جاڑے کی سردی اور کرونا جیسی وبا کے دنوں میں بغیر حفاظتی سامان کے غلاظت سے بھرے گٹر میں اترنا یا علی الصبح خون جماتی سردی میں گلیوں میں جھاڑو لگانے کا کام کوئی سپرہیرو ہی کر سکتا ہے یہ عام آدمی کا نہیں ہے۔ ان سے نفرت یا انہیں کم تر سمجھنا اس غلاظت کا نتیجہ ہے جو ذہنوں میں بھری ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).