بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا


ایک تیز رفتار جیب میں ہمیں جیل پہنچا دیا گیا۔ حفاظتی افواج کے پیچھے خوف زدہ لوگوں کا ہجوم تھا جنہیں اپنے وزیراعظم کی قسمت کے متعلق کوئی خبر نہیں، جیل کی میٹرن نے میری والدہ اور میری تلاشی لی، ایک مرتبہ جب ہم سہالہ کے قید خانہ سے روانہ ہوئیں اور دوسری مرتبہ سنٹرل جیل پہنچیں

آج تم دونوں اکٹھی یہاں کیوں آئی ہو؟ میرے والد نے اپنی کال کوٹھڑی کی دوزخ سے آواز دی
میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا
ذوالفقارعلی بھٹو :کیا یہ آخری ملاقات ہے؟
میری والدہ جواب دینے کا یارا نہیں رکھتیں
بے نظیر بھٹو :میرا خیال ہے ایسا ہی ہے
وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں
ذوالفقارعلی بھٹو :کیا یہ آخری ملاقات ہے؟
ہاں
جواب میں جیلر کہتا ہے جیل سپرنٹنڈنٹ حکومت کا یہ پیغام دیتے ہوئے شرمسار محسوس ہوتا ہے
ذوالفقارعلی بھٹو: کیا تاریخ کا تعین ہو گیا ہے؟
جیل سپرنٹنڈنٹ : کل صبح
ذوالفقارعلی بھٹو: کتنے بجے؟
جیل سپرنٹنڈنٹ : جیل قواعد کے مطابق صبح پانچ بجے
ذوالفقارعلی بھٹو: یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟
جیل سپرٹنڈنٹ : کل رات۔ اس نے رکتے رکتے جواب دیا
میرے والد اسے نظر بھر کے دیکھتے ہیں
ذوالفقارعلی بھٹو :اپنے اہل وعیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے
جیل سپرٹنڈنٹ : نصف گھنٹہ
ذوالفقارعلی بھٹو : جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔
جیل سپرنٹنڈنٹ : صرف نصف گھنٹہ۔ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔ یہ میرے احکامات ہیں

ذوالفقارعلی بھٹو : غسل اور شیو کرنے کے لیے انتظامات کرو۔ دنیا خوبصورت ہے اسے میں اسی حالت میں الوداع کہنا چاہتا ہوں

صرف نصف گھنٹہ اس شخص سے ملاقات کے لیے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہرشے سے زیادہ عزیز ہے سینے میں درد سے گھٹن محسوس ہوتی ہے مجھے رونا نہیں چاہیے مجھے اپنے ہوش بھی نہیں کھونے چاہیں کیونکہ اس طرح میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔

وہ فرش پر پڑے گدے پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی کوٹھڑی میں اب صرف یہ فرنیچر باقی رہ گیا ہے جیل حکام کرسی اور میز لے جا چکے ہیں چارپائی بھی وہاں سے اٹھائی جاچکی ہے۔ میگزین اور کتابیں جو میں پاپا کے لیے لاتی رہی تھی وہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہتے ہیں

ذوالفقر علی بھٹو پنکی سے : انہیں لے جاو میں نہیں چاہتا یہ لوگ میری کسی چیز کو ہاتھ لگائیں
وہ چند سگار جو ان کے وکلا وہاں چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں

ذوالفقارعلی بھٹو ؒ میں آج شب کے لیے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔ شالیمار کولون کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی بھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ نہیں کہتی ہیں اسے پہنے رکھیں وہ کہتے ہیں اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں بے نظیر کے حوالے کردی جائے۔

موت کی کوٹھڑی میں روشنی مدھم سی ہے میں انہیں صاف طور پر نہیں دیکھ سکتی۔ اس سے قبل ہر ملاقات کوٹھڑی میں ان کے پاس بیٹھ کر ہوتی رہی لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ کوٹھڑی کے باہر دروازے کی سلاخوں کے ساتھ میں اور میری والدہ سکڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ باتیں کھسر پھسر کے انداز میں کرتے ہیں۔ دوسرے بچوں کو میرا پیار دینا وہ میری ممی سے کہتے ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو : میر، سنی، اور شاہ کو بتانا میں نے ہمیشہ ایک اچھا باپ بننے کی کوشش کی اور میری خواہش ہے کہ کاش انہیں بھی الوداع کہہ سکتا۔ میری والدہ سرہلاتی ہیں منہ سے کچھ نہیں بول سکتیں

ذوالفقارعلی بھٹو : تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جا رہے ہیں۔ میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں اگر چاہو تو پاکستان سے اس وقت تک باہر چلے جاو جب تک آئین معطل ہے اور مارشل لا نافذ ہے اگر تمہیں ذہنی سکون چاہیے اور زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جاو میری طرف سے اجازت ہے۔

نہی نہیں ممی کہتی ہیں ہم نہیں جا سکتے ہم کبھی نہیں جائیں گے جرنیلوں کو کبھی یہ تاثر نہیں دیں گے کہ وہ جیت چکے ہیں

اور تم پنکی۔ میرے والد پوچھتے ہیں
میں بھی کبھی نہیں جا سکتی میرا جواب ہے
وہ مسکراتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ تم نہیں جانتی مجھے تم سے کتنا پیار ہے
تم میری لعل ہو اور ہمیشہ رہی ہو
وقت ختم ہو چکا ہے
سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے وقت ختم ہو چکا ہے
میں سلاخوں کو پکڑ لیتی ہوں
برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو میں اپنے پاپا کو الوداع کہنا چاہتی ہوں

سپرٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے میں دوبارہ التجا کرتی ہوں میرے والد پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں میں ان کی بیٹی ہوں یہ ہماری آخری ملاقات ہے مجھے ان سے مل لینے دو۔ سپرٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے

سلاخوں کے درمیان سے میں اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں وہ اس قدر نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں۔ ملیریا، پیچش  اور ناکافی خوراک کی وجہ سے جسم بالکل نحیف اور باریک ہو چکا ہے لیکن وہ سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو چھو لیتے ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے آخری الفاظ
آج شب علائم دنیا سے آزاد ہو جاؤں گا۔ چہرے پر ایک چمکتی روشنی لئے کہتے ہیں

میں اپنی والدہ اوراپنے والد کے پاس چلا جاؤں گا۔ میں لاڑکانہ میں اپنے اجداد کی زمینوں کی طرف واپس جا رہا ہوں تاکہ اس سرزمین کا، اس کی خوشبو اور اس کی فضا کا حصہ بن جاؤں۔ خلق خدا میرے بارے میں گیت گاے گی میں اس کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جاؤں گا۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں لیکن لاڑکانہ میں آج کل بہت گرمی ہے
میں وہاں ایک سائبان تعمیر کردوں گی۔ میں بمشکل کہہ سکی۔ جیل حکام آگے بڑھتے ہیں
الوداع پاپا

میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں اور میری ممی سلاخوں میں سے ان کو چھو لیتی ہیں۔ ہم گرد آلود صحن میں سے گزرتے ہیں۔ میں مڑ کر پیچھے دیکھا چاہتی ہوں لیکن حوصلہ نہیں پڑتا۔ مجھے معلوم ہے میں ضبط نہیں کرسکوں گی۔

ہم جب پھر ملیں گے اس وقت تک خدا حافظ۔ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے

(محترمہ بے نظیر بھٹو کی خودنوشت مشرق کی بیٹی سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).