ماں کی گالی مت دیجیے!


گالی دینا بھی ایک فن ہے، جو اس فن میں کورا ہے وہ ہمیشہ اپنی اس کمی کو چھپانے کے لیے غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے، صنفی، نسلی اور تعصب سے بھرے الفاظ کی آڑ لے گا۔ ارے مورکھو! گالی کی لطافت، نزاکت اور ندرت کو تم کیا جانو۔ تم، جو ماں بہن کی گالی دے کر سمجھتے ہو کہ میدان مار لیا۔

یہ ساری بات یوں شروع ہوئی کہ چند روز قبل خبر ملی کہ انڈیا کی کچھ خواتین نے گالیوں کی ایک نئی لغت یا یوں کہیے فہرست مرتب کی ہے جس میں صنفی، نسلی اور کسی طرح کے تعصب کا اظہار کیے بغیر دی جانے والی ’صاف ستھری‘ گالیاں درج ہیں۔

یہ پڑھ کے میں نے آج تک اپنے ارد گرد سنی جانے والی گالیوں پر غور کیا تو علم ہوا کہ ہمارے ہاں گالی تو ہے ہی تعصب کا اظہار، کسی کی صنف، رنگ، نسل، پیشے کو نشانہ بنائے بغیر دی جانے والی کوئی بھی گالی میں نے نہیں سنی۔

انسان کے پاس نہ تو ڈنک ہے، نہ ہی پنجے، نہ تیز دھار دانت فقط یہ زبان ہی تو ہے جس کی تیزی سے وہ مخالف کو نفسیاتی دباؤ میں لیتا ہے۔ اس فہرست کے بارے میں پڑھتے، پڑھتے مجھے ماضی قریب میں ٹوئٹر پر چلے دو ٹرینڈز یاد آ گئے۔

دونوں ٹرینڈز میں انسان کے ایک قدیمی پیشے کو گالی کے طور پہ لکھا گیا تھا۔ پہلا ٹرینڈ ذرا وزن کا خیال رکھ کے بنایا گیا تھا۔ جس پہ مجھے کسی کی کہی بات یاد آئی کہ گالی تو ایک مصرعہ ہوتی ہے۔ بے وزن نہیں ہوتی، نہ ہی بحر سے باہر۔

خیر تو اس ٹرینڈ کے جواب میں کئی ماہ بعد ویسا ہی ٹرینڈ چلایا گیا جس سے ثابت ہوا کہ دی گئی گالی نے خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ سیاست میں نظریات اور منشور کی بات کی جاتی ہے لیکن یہاں ساری سیاست گالیوں ،الزامات اور فحش سوشل میڈیا ٹرینڈز پر مشتمل ہے۔

تحریک انصاف نے الیکشن میں کیا منشور دیا تھا؟ پوچھیے تو ذرا، جواب میں ننگی گالیاں سننے کو ملیں گی۔ مسلم لیگ ن کی کسی کجی پہ سوال کیجیے، فحش گالیاں۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی پہ سوال اٹھائیے، سٹھنیاں ہی سٹھنیاں۔

یہ تو ہے مجموعی صورت حال لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ گالیاں بکنے اور فحش گوئی میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا پہ پائے جانے والے حمایتیوں نے سب جماعتوں اور قوموں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے، کوئی مقابل نہیں دور تک، بلکہ بہت دور تک۔ اس برتری پہ ان سب کو بجا طور پہ فخر کرنا چاہیے۔

ابتدا میں یہ اس میدان میں تنہا تھے لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ ہمسفر ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ آج سوشل میڈیا پر جدھر دیکھیے ماں بہن ایک ہو رہی ہے۔

گالی اور بد زبانی کے اس طوفان بدتمیزی کو درجہ کمال پہ پہنچانے والوں نے کئی کم مستعمل گالیاں بھی زبان زد عام کی ہیں۔ ان گالیوں میں بھی انسانی پیشوں، شکل و صورت اور صنف کے ساتھ ساتھ مجرمانہ اور غیر فطری افعال کرنے کا عزم بھی دہرایا جاتا ہے۔

یہ وہ گالیاں ہیں جو اس سے پہلے عام لوگوں کی زبان پہ نہ تھیں۔ کئی گالیوں کے صوتی تاثرات تو اس قدر گھمبیر ہوتے ہیں کہ سننے میں کسی یونانی دوا کا نام لگتے ہیں۔ ایک ایسی یونانی دوا، جو یہ بد زبان وقت سر کھا لیتے تو بہت سے اسم ہائے دشنام اردو زبان کے ذخیرہ الفاظ میں شامل ہونے سے رہ جاتے۔

لسانیات کے ماہر اکثر الٹی سیدھی تحقیق کیا کرتے ہیں۔ صلائے عام ہے کہ ایک تحقیق اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا پر بھی کر لی جائے۔ مقالے کا موضوع بتائے دیتے ہیں،’ بازار و زبان کے فروغ میں سیاست کا کردار، عہد حاضر میں۔‘

دن رات گالم گلوچ اور زبانی جوتم پیزار میں مشغول لوگوں کو گالی دینے کی تمیز سکھانے والی ان انڈین لڑکیوں کی کوشش کو سلام لیکن کیا چند قطروں سے بد زبانی کی یہ آگ بجھ پائے گی؟ چلیے بجھ نہ سکی تو اتنا ضرور ہو گا کہ لوگ کم سے کم یہ سمجھ جائیں گے کہ گالی دینا بھی ایک آرٹ ہے۔

گفتگو کے دوران اختلافات بھی جنم لیتے ہیں، بعض اختلافات ایسے ہوتے ہیں کہ دلائل ختم ہو جاتے ہیں اور سوائے گالی کے کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ اس وقت پہ بے قابو ہو کے فحش زبان استعمال کرنے کی بجائے اپنے دماغ پہ زور دیجیے، نئی اختراع، نئی ایجاد ،جس میں آپ کا اپنا کردار ملوث نہ ہو، ایسی گالی دیجیے تو کوئی بات بھی بنے۔ یہ کیا کہ وہی گھسی پٹی گالیاں اور جو نئی بھی نکالیں تمام کی تمام فحش۔ بھئی ایسا بھی کیا ذہنی قلاش پن؟

فن یہ ہی ہے کہ غلیظ زبان استعمال کیے بغیر اپنے مخالف کو نفسیاتی دباؤ میں کیسے لایا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ فن نہیں سیکھ سکتا تو اسے گالی کے بہانے ننگی گفتگو کرنے کا بالکل حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اس نئی فہرست سے کچھ تو سبق لیجیے،گالی دیجیے، اس بہانے سے فحش گوئی نہ کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).