نانی کی ہنسانے رلانے والی کہانیاں


جب بورخیس کی ایک کہانی ’خفیہ معجزہ‘ میں، اس کے مرکزی کردار ہلادک نے، اپنی موت کو سامنے دیکھ کر ، خدا سے محض وقت کی حقیقت جاننے کے لیے ایک سال کی مہلت مانگی، کہ کہیں یہ وقت ایک مغالطہ تو نہیں؟ تو عین اپنی موت کے اس لمحے، جب زندگی اور موت کے مابین محض ایک لمحے کی دوری تھی، تب اس کے لیے اس انتہائی قلیل لمحے کو ، یکلخت ایک برس سے بدل دیا گیا۔ اس پورے ایک برس میں، نہایت غور و خوض کے بعد اس نے جانا کہ اس کے وہ دلائل جو وقت کی حقیقت کو محض ایک مغالطہ ثابت کرتے تھے، خود نہایت کمزور اور بودے تھے۔ وقت اور مقام کی اسراریت تو ابدیت کے ان پردوں میں نہاں تھی، جو ابھی بھی اس کے ذہن رسا سے بہت دور تھے۔

وقت کے اسی اسرار بھرے آئینے سے مصروفیات زمانہ کی گرد ہٹاؤں تو لمحے طویل ہو کر برسوں پر محیط ہو جاتے ہیں۔ وقت میرے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتا ہے اور آخر میں وہ چاندی سی ریشم رہ جاتی ہے، جسے ایک ننھی سی لڑکی کسی دھیان میں گم، اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے، دو چٹیوں کی صورت سنوارتی جاتی ہے۔ یہ ایک گدگدا دینے والا احساس ہے، جب ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھی بوڑھی نانی تنقیدی نظروں سے ہاتھ میں پکڑا شیشہ دیکھتے ہوئے مصنوعی خفگی سے کہتی ہیں، لو بھلا یہ مجھے کیا بنا ڈالا؟ اور پھر ننھی لڑکی کے ساتھ، نانی خود بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی ہیں۔

دسمبر کی ان یخ بستہ راتوں میں جب گھر کے سب بچے نانی کے لحاف میں دبکے، اپنی من پسند کہانیاں سننے کے چکر میں، قریب قریب انھیں یرغمال بنائے ہوتے، تب وہ یکے بعد دیگرے کئی فرمائشی کہانیاں سنانے کے بعد ، تھک کر مصنوعی بے بسی سے کہتیں : ’اب بس! باقی کل‘ اور اسی کل پر ایک شور پڑ جاتا ’نہیں آج۔ آج۔ آج!‘ نانی پھر کسی داستاں گو کی مانند رواں ہو جاتیں۔ وہ بڑی مہارت سے کہانی کو ذہن میں گوندھتیں، پھر کسی ماہر کوزہ گر کی طرح اسے تخیل کے چاک پر خوب گھما کر ، لفظوں کی حدت سے، ایسی صورت میں ڈھالتیں کہ سننے والا لاکھ چاہنے کے باوجود بھی ان کے پاس سے اٹھ کر نہ جا پاتا۔

ہلکے مدھم رنگوں کے کپڑوں پر سفید مہین دوپٹے والی سرخ سفید نانی، جن کے کپڑوں سے اٹھتی موتیے کی مہک انھیں تقدس اور محبت کے کسی ہالے میں لپیٹے رکھتی، اپنی باتوں کی پٹاری میں کئی کہانیاں رکھتیں، جنھیں وہ باری باری کسی ماہر جادوگر کی مانند، اپنی یادوں کی زنبیل سے نکالتی جاتیں، اور ہر ننھے ذہن کی استعداد اور قابلیت کے مطابق پیش کرتی جاتیں۔ ان کہانیوں میں خاصا تنوع ہوتا۔ معصوم جانوروں اور پرندوں کی کہانیاں، جن بھوتوں کی کہانیاں، راجے مہاراجوں کی کہانیاں، جنگلوں اور چھلاووں کی کہانیاں۔ ان کے ننھے سامع منہ کھولے حیرت سے سنتے جاتے۔ تبھی ایک معصوم سا سنجیدہ سوال آتا: ’نانی ماں! آپ نے بھی کبھی بھوت دیکھا؟‘

’دیکھا نا! تمہارے نانا کسی بھوت سے کم تھے کیا؟‘ نانی کے جواب نما سوال پر سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے اور پھر فوراً ہی اگلی فرمائشی کہانی شروع ہو جاتی۔ جوں جوں رات بیتتی جاتی، ان کے ننھے سامع یونہی منہ کھول کر سوتے جاتے، پھر ذرا بڑی عمر کے سامعین کے لیے ان کی کہانیاں ایک نیا رخ لے لیتیں۔ اب کسی کہانی میں ناگ دیوتا ہوتے تو کہیں کوئی بہروپیا راجا اندر بنا پھرتا۔ آہستہ آہستہ یہ کہانیاں سندر بن کے جنگلوں اور جمنا کی لہروں کو چھوتی ہوئی ہریانہ اور پھر شیر گڑھ کی سر زمین پر اپنے قدم جما لیتیں اور نانی اپنے ماضی میں جا نکلتیں۔

وقت کا یہ عجیب مقام تھا، جہاں زمان و مکاں کی بندشوں سے ماورا ہو کر ایک زمانہ دوسرے سے جا کھلتا۔ اب ہم نانی کی آنکھوں اور باتوں میں خود جھانک کر دیکھ پاتے۔ وہاں سرسبز کھیت کھلیانوں میں ایک چلبلی شرارتی ننھی لڑکی بھاگتی دوڑتی، دن میں تتلیاں اور رات میں جگنو پکڑتی۔ ایک بڑی سی حویلی کے احاطوں میں ذات پات اور مذہب سے ماورا اپنی ہم جولیوں کے سنگ مٹی سے برتن بناتی اور پھر ان برتنوں میں وہ سب سکھیاں اپنی گڑیا اور گڈے کی شادیاں کرتیں۔ مایوں، مہندی اور بیاہ کی سب رسمیں، پھر عید، شب رات کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی کے قصے بچے حیرت اور دلچسپی سے سنتے جاتے، رات گھٹتی جاتی اور انہی قصوں کے بیچ نیند کی دیوی ایک ایک کر کے، ان کے باقی سامعین کو بھی اچکتی جاتی۔

رات کا دوسرا پہر شروع ہو جاتا۔ اب نانی کی یہ واحد سامع نانی کے اجلے چمکتے چہرے پر آتے رنگوں کو تحیر اور انہماک سے تکتی جاتی، جو اپنے بچپن کی یادوں سے مزید شوخ ہو جاتے۔ نانی لمحہ موجود میں بھید بھرے ماضی کا دریچہ کھولنے کا گر خوب جانتی تھیں۔ بچپن سے جوانی اور پھر اپنی شادی کے دلچسپ قصے سناتیں وہ بالکل نہ تھکتیں۔ شیر گڑھ سے ضلع گڑگاواں کے ایک قصبے فرخ نگر کو ، کفنی پہن کر رتھ میں جاتی اپنی بارات کا قصہ سناتے، وہ دلہن کی طرح شرماتیں، ان کے نازک سے ہونٹ تھرتھرانے لگتے۔ تبھی ایک ننھا سوال آتا: ’نانی ماں! یہ کفنی کیا ہوتی ہے؟‘

’کفنی وہ بہترین سفید ان سلا کپڑا ہوتا، جسے تب گھروں میں خود سرخ رنگ سے رنگا جاتا، پھر بنا قینچی کے ہاتھ سے ہی پھاڑ کر سوئی دھاگے سے سی دیتے، اس پر گوٹا کناری لگاتے، اور اسے خوب سنوارتے‘ نانی تفصیل سے بتاتی جاتیں، مہندی، خوشبو اور رنگ ان کی باتوں سے چھلکتے جاتے۔ تبھی کہانی میں ایسا تلخ موڑ آتا جب ان کی سرشاری مانند پڑ جاتی۔ آنکھوں میں امنڈنے والا ہراس ان کی کپکپاتی آواز پر حاوی ہو جاتا۔ اب یہ کہانیاں کم اور کرچیاں زیادہ ہوتیں، جنھیں نانی آہستہ آہستہ اپنے دل سے نکالتی جاتیں۔

بلوائیوں کے خوف سے اپنا بھرا پرا گھر چھوڑ کر بھاگتا یہ خاندان، جب چپکے چپکے چھتیں پھلانگتا آگے بڑھتا، تو جلتے مکانوں کی تپتی چھتوں سے ان کے پیر جھلس جاتے۔ یہ نانی کی کہانیوں کے سب سے دردناک حصے تھے، جنھیں سناتے ان کا گلا رندھ جاتا۔ انہی قیامت کے لمحوں میں اپنی نند کو ننھی سی بچی کے ہمراہ گنوا دینے پر ، نانی کی آنکھیں بھر آتیں، انھیں وہ چاندی کی جھانجھریں بے طرح یاد آتیں، جو زبردستی لے جانے والی کے پیروں سے ٹوٹ کر گری تھیں۔ دیواروں کی اوٹ میں دم سادھے، موت سے چھپ رہنے کے مناظر ان کے حافظے میں نقش ہو گئے تھے۔

اس لٹے پٹے چھوٹے سے خاندان پر مشتمل قافلے کا وہ وقت بھی انھیں خوب یاد تھا، جب سخت موسم میں سفر کی صعوبتوں کے سبب، وہ سب فاقے کرتے اور ان کے ننھے بچے بھوک سے ہلکان ہو ہو جاتے۔ تب یہ قصے سناتی نانی خود بھی بلکتی جاتیں اور رات مزید ڈھلتی جاتی۔ وہ وقت بھلا وہ کیسے بھول پاتیں، جب حملوں اور اپنی عزتوں کو کھو دینے کے ڈر سے، اس مختصر سے قافلے کے لوگوں نے اپنی عورتوں کو خود اپنے ہاتھوں کو ختم کرنے کی صلاح دی تھی۔ پھر جب ایک گشت کرتے انگریز سارجنٹ نے اس بے سر و ساماں مختصر قافلے کو آپس میں جھگڑتے دیکھ کر سرحد پہنچانے کی ذمہ داری لی، تو وہ انھیں کیسا فرشتہ معلوم ہوا تھا۔ نانی کی دونوں آنکھوں سے امنڈتے آنسو، اس وقت کسی ندی کی سی روانی اختیار کر لیتے۔ پھر اس کے بعد کئی دن نانی کوئی کہانی نہ سنا پاتیں۔

زمانے کی جانے کتنی ہی مصلحتیں تھیں، جو نانی نے اپنی کہانیوں سے ہمیں سمجھائیں۔ رات سونے میں جتنی بھی تاخیر ہوتی، وہ فجر میں سب سے پہلے اٹھ بیٹھتیں، فجر پڑھ کر اپنے ٹھنڈے ہاتھوں کو ہمارے چہروں پر پیار سے پھیر کر نماز کے لیے اٹھاتیں تو ہم کسمساتے ہوئے لحاف میں مزید نیچے کھسک جاتے۔ وہ مسکراتیں اور تسبیح کرتے ٹھنڈے ہاتھوں سے ہولے ہولے گدگدی کرتیں، کبھی شرارت سے پیشانی پر بوسہ لیتیں، تو ٹھنڈے ہونٹوں سے جسم میں جھرجھری دوڑ جاتی، پھر آخر کار منہ بسورتے بستر چھوڑتے ہی بنتی۔

لمحے برسوں میں ڈھلتے گئے، بچے بڑے ہو گئے لیکن نانی کی کہانیوں کے منظر نہ بدلے۔ ان کے پاس اب بھی بیش بہا کہانیاں تھیں، یادوں کی پٹاری سے اب بھی حیرت بھرے قصے نکلتے تھے، پر بدلتے وقت نے بچوں کو بھاری بھرکم نصاب کا جو جوکھم دیا تھا، اس میں اب کہانی سننے کی فرصت ہی کسے تھی۔ وقت نے اپنی اڑان بھری تو نانی کو مزید ناتواں کر ڈالا۔ وہ وقت کے دائمی بہاؤ کو اداسی سے پلٹ پلٹ کر دیکھتیں اور ایک ایک کر کے اپنے چھوڑ کر جانے والے رشتوں کی یاد میں گھلتی جاتیں۔ وقت نے ان کی دلچسپ کہانیوں کے سامعین بھی تو منتشر کر ڈالے تھے۔ ہوسٹل کی مصروف زندگی میں نانی سے ملنے کا وقت تھا نہ فرصت۔ تبھی انیس دسمبر کی ایک سرد اتوار، فجر کی نماز کے بعد تسبیح کرتے ان کے ہاتھ سرد ہو گئے۔

صدمے کی یہ وہ کیفیت تھی جس کا تصور بھی روح فرسا تھا۔ آنکھوں کے ساتھ دل سے بھی روتے ہوئے جب میں نے ان کی سرد پیشانی پر بوسہ دیا تو اس الوداعی ٹھنڈک کو روح تک محسوس کیا، نانی کے ساتھ ہی بچپن کا احساس بھی وقت کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گیا۔ ان کی یاد آج بھی ٹوٹ کر آتی ہے۔ وقت کی ابدی اسراریت جب لمحوں کو برسوں میں بدل کر خوش کن مغالطے جنم دیتی ہے، تب لمحہ موجود کے دائرے توڑ کر میں اور نانی ماضی کی کہانیوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).