دلجیت دوسانجھ: کسان خاندان کے چشم و چراغ ’کنگ آف پنجابی فلمز‘ کیسے بنے؟


انڈیا میں فلمی ستاروں کے درمیان سیاسی معاملات پر سوشل میڈیا پر ہونے والی گرما گرم بحث ہو جانا ان دنوں عام سی بات ہو گئی ہے۔ اور اس قسم کی ’ٹوئٹر وار‘ اکثر خبروں کا حصہ بھی بن جاتی ہے۔

گلوکار اور اداکار دلجیت دوسانجھ اور اداکارہ کنگنا رناوت کے درمیان گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر ہونے والی ایک بحث نے اتنا زور پکڑا کہ سوشل میڈیا پر سرگرم صارفین بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔

اس بحث کے شروع ہونے کی وجہ ایک معمر خاتون مہندر کور تھیں جو انڈیا میں حال ہی میں نافذ ہونے والے زراعت سے متعلق قوانین کے خلاف جاری احتجاج میں شامل تھیں۔

کنگنا رناوت نے چند دن قبل مہندر کور کی تصویر لگاتے ہوئے لکھا تھا کہ ٹائم میگزین کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل دادی 100 روپے میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے لیے دستیاب ہیں۔

کنگنا نے تقریباً ایک سال قبل شہریت کے قانون کے خلاف شاہین باغ کے احتجاج میں شامل بلقیس بانو کے لیے یہ کہا تھا اور انھوں نے جو تصویریں یہ ثابت کرنے کے لیے ڈالیں ان میں سے ایک وہ مہندر کور کی تصویر تھی۔ بعد میں کنگنا رناوت نے یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کردی۔

یہ بھی پڑھیے

’فلم چھوڑ سکتا ہوں، پگڑی نہیں‘

کنگنا رناوت اب کس نئے تنازعے میں پڑ گئی ہیں؟

’مجھے تاج محل لے جانے کا بہت شکریہ‘

اس کے بعد دلجیت دوسانجھ نے ٹوئٹر پر بی بی سی کی ایک ویڈیو شيئر کی جس میں مہندر کور کنگنا رناوت کو جواب دے رہی ہیں۔ کنگنا رناوت کو ٹیگ کرتے ہوئے دلجیت نے ان سے مہندر کور کا جواب دینے کے لیے کہا۔

اس کے بعد دونوں فلمی اداکاروں کے درمیان بحث طول پکڑنے لگی۔ انھوں نے قابل اعتراض الفاظ میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے لیے ‘کسی کے پالتو’ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے۔

پہلی بار ایسا تنازع

کنگنا رناوت ایک طویل عرصے سے ٹوئٹر پر ہونے والی بحثوں کا حصہ رہی ہیں۔ وہ سیاسی امور پر لکھتی ہیں، بعض اوقات متنازع بیانات دیتی ہیں اور ان کی ٹوئٹر کی جنگ جاری رہتی ہے۔

لیکن 36 سالہ دلجیت دوسانجھ پہلی بار اس نوعیت کے معاملے میں آئے ہیں۔ وہ اکثر اپنے نئے گیت یا فلم سے متعلق اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ٹویٹس کرتے ہیں۔ جب لاکڈاؤن کے دوران وہ ممبئی میں پھنس گئے تھے تو انھوں نے اپنے باورچی خانے کی ویڈیوز شیئر کی تھیں۔

بی بی سی پنجابی سروس کے نمائندے سنیل کٹاریہ کا کہنا ہے کہ ’دلجیت دوسانجھ کبھی بھی کسی سیاسی تنازعے کا حصہ نہیں رہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب وہ اس ٹوئٹر کی لڑائی میں پڑے ہوں گے۔ لیکن ان کا تعلق بھی کسان خاندان سے ہے۔‘

دلجیت دوسانجھ کسانوں کے احتجاج کے بارے میں کافی سرگرم ہیں اور اس سے متعلق ویڈیوز اور فوٹوز سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔

دلجیت پنجابی میوزک اور فلم انڈسٹی کا معروف نام ہے۔ شائقین انھیں ’پنجابی فلموں کا کنگ‘ کہنا بھی پسند کرتے ہیں۔

دلجیت نے بالی وڈ میں بھی اپنی شناخت بنالی ہے۔ انھوں نے بالی وڈ فلموں میں گلوکاری کے ساتھ اداکاری میں بھی قسمت آزمائی کی ہے۔ پچھلے سال ان کی ‘گڈ نیوز’ فلم آئی تھی جس نے عمدہ بزنس کیا۔

حال ہی میں ان کی فلم ‘سورج پر منگل بھاری’ ریلیز ہوئی ہے۔ یہ ایک مزاحیہ فلم ہے۔

ہندی فلموں اور پنجابی ہندی مکس گانوں کی مقبولیت کی وجہ سے وہ ہندی بولنے والے لوگوں میں بھی خاصے مقبول ہیں۔

گروبانی گانے والے دلجیت سنگھ

لیکن انھیں یہ شناخت یوں ہی نہیں ملی۔ گاؤں کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے کے لڑکے کے لیے فلمی صنعت میں اپنی شناخت بنانا آسان نہیں تھا۔

دلجیت دوسانجھ خود ایک کسان خاندان سے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ان کا بچپن معاشی مشکلات میں گزرا ہے۔

ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ انھوں نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ مزید تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔

وہ پنجاب کے ضلع جالندھر کے دوسانجھ گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کے والد کا نام بلبیر سنگھ اور والدہ کا نام سکھوندر کور ہے۔ ان کا اصل نام دلجیت سنگھ ہے جسے بعد میں بدل کر دلجیت دوسانجھ کردیا۔

دلجیت کو بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا اور وہ گرودوارے میں گربانی کیترن کرتے تھے۔

اس وقت شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ گروبانی کیرتن کرنے والا یہ لڑکا ایک دن پنجابی میوزک انڈسٹری پر چھا جائے گا۔

گرودوارے آنے والے لوگوں نے اس بچے کی آواز سنی اور بھا گئی۔ پھر انھیں مواقع ملتے گئے۔

آہستہ آہستہ دلجیت دوسانجھ کی صلاحیتوں کو پہچانا گیا اور انھوں نے پنجابی میوزک انڈسٹری میں قدم رکھا۔

دلجیت کو ان کے پرستار ’اربن پینڈو‘ بھی کہتے ہیں۔ اربن کا مطلب شہری ہے اور پینڈو کا مطلب پنڈ (گاؤں) ہے یعنی ان کے پرستار انھیں شہری اور دیہاتی کا مرکب سمجھتے ہیں۔

گلوکار سے بنے اداکار

اگر آپ آج کے دلجیت دوسانجھ کو جانتے ہیں تو شاید آپ ان کو ان کے پرانے گانوں میں پہچان بھی نہ سکیں۔ ان کے سٹائل سے لے کر ان کے اعتماد تک سب کچھ بدل گیا ہے۔

تاہم ان کا راستہ جدوجہد سے بھر پور رہا ہے۔ ابتدائی دور میں ہی انھوں نے سٹیج شوز میں شادیوں میں بھی پرفارم کیا۔ تاہم اب وہ کہتے ہیں کہ انھیں شادی میں پرفارم کرنے کا وقت نہیں ملتا ہے۔

دلجیت نے اپنے کیریئر کا آغاز پنجابی میوزک انڈسٹری سے کیا تھا۔ ان کے پہلے البم ‘عشق دا اڑنا اڈا’ کو سنہ 2004 میں فائن ٹون کیسٹ نے ریلیز کیا تھا۔

اور اس دوران وہ دلجیت کے ساتھ ’دل جیت‘ بھی بن گئے۔

اس کے بعد انھوں نے فائن ٹون کے ساتھ مزید میوزک البمز بنائے۔ ان کا تیسرا البم ‘سمائل’ بہت مقبول ہوا۔

سنہ 2011 میں انھوں نے پنجابی فلمی صنعت میں قدم رکھا۔ ان کی پہلی فلم ‘دی لائن آف پنجاب’ تھی۔ اگرچہ اس فلم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن اس کا گیت ‘لاکھ 28 کوڈی دا’ پسند کیا گیا۔

اس کے بعد دلجیت کی ‘جنھیں میرا دل لٹیا’ فلم آئی جس نے اچھا بزنس کیا۔

دلجیت دوسانجھ اپنی پہلی فلم کی ناکامی سے تھوڑے مایوس ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دو فلمیں کرنے کے بعد اداکاری نہ کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ‘میری پہلی فلم کی ریلیز سے قبل ہی دوسری فلم کی شوٹنگ ہو گئی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ اب فلم نہیں کروں گا، گانے ٹھیک ہیں۔ لیکن، دوسری فلم ہٹ ہوگئی۔ تب میں نے سوچا یہ بھی ٹھیک ہے۔’

پگڑی اور ہیرو!

اس کے بعد دلجیت نے بالی وڈ میں پلے بیک گلوکار کی حیثیت سے قدم رکھا۔ انھوں نے فلم ’تیرے نال لو ہو گیا‘ میں گایا۔ پھر انھوں نے دوسری فلموں کے گیتوں کو بھی اپنی آواز دی۔

سنہ 2016 میں دلجیت دوسانجھ فلم ‘اُڑتا پنجاب’ میں اپنے کردار کی وجہ سے بھی پہچانے گئے۔ اس میں انھوں نے کرینہ کپور اور شاہد کپور جیسے بڑے سٹارز کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے انوشکا شرما اور سورج شرما کے ساتھ فلم ‘فللوری’ بھی کی جس میں انھوں نے گلوکار کا ہی کردار ادا کیا تھا۔ سنہ 2018 میں انھوں نے فلم ‘سورما’ میں انڈین ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سندیپ سنگھ کا کردار ادا کیا۔

دلجیت بالی وڈ میں اپنی آمد کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھیں کہا گیا کہ ‘پگ باندھنے والا بالی وڈ میں ہیرو نہیں بن سکتا۔’

انھوں نے کہا ‘میں نے سوچا اگر یہ معاملہ ہے تو پھر میں فلم نہیں کروں گا۔ لیکن پھر فلمی آفر خود میرے پاس آگئے۔’

‘میں کسی کردار کے اپنے لیے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کروں گا۔ مجھے کام ملے یا نہ ملے۔ فلموں کے لیے پگڑی پہننا نہیں چھوڑ سکتا۔’

دلجیت کو آڈیشن دینا پسند نہیں۔ وہ خود کو کم ملنے جلنے والا شخص سمجھتے ہیں جو بالی وڈ کی پارٹیوں میں شرکت سے گریز کرتا ہے۔

ایک انٹرویو میں اگرچہ انھوں نے ان تمام چیزوں کو اپنی کمزوری قرار دیا ہے لیکن وہ خود کو تبدیل کرنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔

دلجیت نے کئی بار کہا ہے کہ انگریزی زبان ان کے لیے بہت دور کی بات ہے۔ انھوں نے اس کو سیکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

انھوں نے بتایا کہ انگریزی کی وجہ سے وہ کس طرح فلم ‘گڈ نیوز’ کے متعلق ووگ میگزین کو انٹرویو نہیں دے سکے۔

دلجیت بتاتے ہیں: ’جب انھوں نے فوٹو شوٹ کے لیے لندن بلایا تو میں حیران رہ گیا۔ فوٹوشوٹ کہیں بھی ہوسکتا تھا۔ وہاں ون ٹو ون انگریزی میں انٹرویو تھا۔ میں تو خاموشی سے کنارے ہو کر نکل لیا۔‘

بہر حال زبان نے ان کے کریئر پر زیادہ اثر نہیں ڈالا۔ انھوں نے پنجابی اور ہندی فلم انڈسٹری میں کامیابی حاصل کی ہے۔

انھیں ’جاٹ اور جولیٹ‘ اور ’پنجاب 1984‘ کے لیے پی ٹی سی پنجابی فلم ایوارڈ اور ‘اڑتا پنجاب‘ کے لیے بہترین میل ڈیبیو کا فلم فیئر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp