مکالمے کا بنیادی نکتہ عوامی مفاد ہونا چاہیے


احتجاجی جلسوں کے سلسلے میں لاہور کا جلسہ پی ڈی ایم کا آخری پاور شو تھا۔ لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد ایک بار پھر کتنے بندے تھے کی بحث ہو رہی ہے اور گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کے جلسے کا موازنہ دو ہزار گیارہ کے تحریک انصاف کے جلسے اور جونیجو مرحوم کی حکومت میں محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبالی جلوس سے کیا جا رہا ہے۔ جلسے کے شرکا کی تعداد سرکاری ذرائع پولیس، اسپیشل برانچ اور آئی بی کی رپورٹس کے حوالے سے چار سے پانچ ہزار جبکہ ”آزاد ذرائع“ بیس سے پچیس ہزار بتا رہے ہیں۔

شرکا کی درست تعداد کا اندازہ لگانے سے قبل یہ حقیت ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ جلسہ گیارہ جماعتوں کی مشترکہ کاوش تھی۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ان میں سے کئی جماعتیں پنجاب میں اثر و رسوخ کی حامل نہیں لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی پورے ملک میں کہیں بھی بڑی تعداد میں لوگ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ لاہور مسلم لیگ نون کا گڑھ رہا ہے جہاں مشرف جیسا فوجی آمر بھی اس جماعت کی قوت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔

جلسے سے قبل مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کی جانب سے لاہور کے عوام کو متحرک کرنے کی کوششیں بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اندرون لاہور ریلیاں بھی نکالیں جس کو عوام کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی۔ اگرچہ اکثر ٹی وی چینلز اپنے ایجنڈے کے تحت رپورٹنگ کر رہے تھے تاہم پنڈال کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا کی بدولت تقریباً ہر شخص دیکھ ہی چکا ہے۔ اس کے بعد بھی مذکورہ جلسے کو ناکام اور مایوس کن کہنا غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہونے کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ بات بھی ہے۔

اس بات سے قطع نظر کے کتنے بندے تھے فی الوقت بحث میں یہ ہونی چاہیے کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ اپوزیشن اتحاد نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت دی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر حکومت 31 جنوری تک مستعفی نہ ہوئی تو یکم فروری کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حکومت سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، اب اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کے اعلان کے بعد ہی کوئی بات ہو گی۔

دوسری جانب حکومت کا بیانیہ وہی پرانا ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت کرپٹ ہے۔ وہ صرف اپنا چوری کا پیسہ بچانے اور کرپشن کے مقدمات ختم کروانے کی خاطر تحریک چلا رہی ہے۔ ڈھائی سال سے یہی تکرار سن سن کر ہر سنجیدہ شخص عاجز آ چکا ہے کیونکہ خود کئی حکومتی وزراء پر کرپشن کیسز ہیں اور ہر کوئی جان چکا ہے کہ کرپشن کے خاتمے میں حکومتی جماعت کتنی مخلص ہے؟ یہ بات تشویشناک ہے کہ حکومت اور اپوزیشن تیزی کے ساتھ تصادم کی طرف گامزن ہیں، اور دونوں اپنے اپنے موقف پر بری طرح اڑے ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں جمہوریت کو نقصان ہو سکتا ہے اور حالات یہی رہے تو خدشہ ہے کہ کہیں غیر جمہوری قوتوں کو ایک بار پھر مداخلت کا موقع نہ مل جائے۔

موجودہ حالات میں تمام جمہوری قوتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس گمبھیر صورتحال سے نکلنے کے لیے مل بیٹھ کر حل تلاش کریں۔ معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کے لیے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے افسوس سے مگر کہنا پڑتا ہے ماحول ٹھنڈا کرنے میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر وقت ایک ہی بات کرتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا، اس پیشگی اشتعال انگیزی کے بعد بات چیت کی کیا امید رہ جاتی ہے؟

حکومت کا یہ خیال درست ہے کہ جلسوں دھرنوں سے حکومتیں نہیں جایا کرتیں، جیسے کہ عمران خان نے 2014 ء میں 126 دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر یلغار کی اور کئی حربے استعمال کیے لیکن نواز شریف کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی حتیٰ کہ سانحہ اے پی ایس پشاور کے سوگ کو آڑ بنا کر انہیں اپنی تحریک منسوخ کر کے خالی ہاتھ مایوس لوٹنا پڑا۔ یہ بات بھی لیکن ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف حکومت کے ساتھ تھیں جبکہ تحریک انصاف اکیلی۔

آج جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اس وقت تمام جماعتیں اس کے خلاف متحد ہیں مگر حکومت تنہا کھڑی ہے۔ حکومت نے اگر اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک کو گفت و شنید سے ڈیل کرنے کی کوشش نہ کی تو خدانخواستہ معاملات تشدد کی طرف بھی جا سکتے ہیں جس کا فائدہ تیسرا فریق اٹھا سکتا ہے۔ پی این اے کی تحریک مثال ہمارے سامنے ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے مصالحت کی بر وقت اور سنجیدہ کاوش نہیں کی۔ جس کے سبب نہ صرف ان کی حکومت ختم ہوئی تھی بلکہ وطن عزیز پر آمریت کی طویل رات مسلط ہو گئی جس کا فائدہ نہ تو اس وقت کی حکومت کو ہوا اور نہ اپوزیشن کو۔

بد قسمتی سے حکمراں جماعت اپنی ہٹ دھرمی سے وہی صورتحال دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ پیشگی این آر او نہ دینے کی باتیں کر کے ڈائیلاگ کا امکان برباد کرنا دانشمندی نہیں، اس قسم کی بے جا ضد کی وجہ سے کسی معاملے پر اتفاق رائے پیدا ہونا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ڈھائی سال ضائع کرنے کے بعد اب وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہو جانا چاہیے کہ جمہوری حکومتیں تنہا فلائٹ سے نہیں کامیاب ہو سکتیں، بلکہ کارکردگی دکھانے کے لیے اپوزیشن کا تعاون اور سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنا ضروری ہے۔

اپنی والدہ کے انتقال کی وجہ سے پیرول پر رہا ہوئے شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک کے حالات بہت بدتر ہو چکے ہیں اور اس وقت نیشنل ڈائیلاگ سے ہی ملکی حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اس میں رکاوٹ حکومت کا رویہ ہے کیونکہ اس کی بات گالی سے شروع اور گالی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت جمہوری استحکام، غربت و بیروزگاری کا خاتمہ اور معاشی و خارجی بحران کا حل صرف وسیع تر قومی مکالمے کے ذریعے حاصل ہوئے اتفاق رائے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ڈی ایم نے بھی اس متعلق زبانی کلامی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن جماعتیں اگر واقعتاً کسی گرینڈ ڈائیلاگ کی خواہشمند ہیں تو انہیں سول سوسائٹی، وکلا و صحافتی تنظیموں اور دیگر طبقات کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دینا چاہیے۔ بشرطیکہ اس مکالمے میں نظام احتساب اور اداروں کی حدود کے تعین کے ساتھ تعلیم، صحت، متفقہ معاشی پالیسی اور بلدیاتی نظام بھی زیر بحث ہونا چاہیے۔

چند روز قبل ایک سینئر نون لیگی رہنما سے بات ہو رہی تھی ان کا شکوہ تھا کہ عوام کے حق حکمرانی کی خاطر ہم سختیاں برداشت کر رہے ہیں مگر ترکی کی طرح لوگ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے۔ ان سے میں نے عرض کی جب تک جمہوریت کے ثمرات عام آدمی کو اپنی زندگی میں آسانی کی صورت نظر نہیں آتے وہ جمہوریت کی اہمیت نہیں سمجھیں گے۔ یہی واحد طریقہ ہے جمہوریت مضبوط کرنے کا اور اس کے سوا تمام سرگرمی فضول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).