باتیں قاضی جاوید کی


پاکستان کے ممتاز فلسفی، ادیب اور مترجم قاضی جاوید  14 نومبر  2020کو انتقال کر گئے۔  زیر نظر انٹرویو چند برس قبل لیا گیا تھا۔

سابق گورنر جنرل پاکستان، ملک غلام محمد کی برائیاں تو ہم سنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ کیا مضائقہ ہے، آج اگر ان کے ایک نیک کام کا ذکر ہو جائے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت لاہور میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کی صورت میں موجود ہے، اس کے قائم ہونے میں ان کا رسوخ کام آیا اور 1950 میں ان کے فلسفی دوست خلیفہ عبدالحکیم کی سربراہی میں ادارے نے کام شروع کر دیا۔ یہ ادارہ 65 برس سے قائم دائم ہے۔ اس عرصے میں بڑے بڑے ذی علم اس کے سربراہ رہے۔ گزشتہ چھ برس سے اس علمی ادارے کے معاملات نامور سکالر اور دانشور قاضی جاوید کے ذمے رہے، جن کا نام علمی حلقوں میں بڑے احترام سے لیا جاتا تھا۔ ان کی سوجھ بوجھ اور زبان دانی کی گواہی داؤد رہبر جیسے عالم اور بے مثل نثرنگار نے دے رکھی ہے۔ برسوں پہلے ان کی کتاب پڑھ کر اپنے ایک دوست کو داؤد رہبر نے لکھا ”ہندی مسلم تہذیب“ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ قاضی جاوید صاحب سمجھدار آدمی ہیں۔ ان کی زبان دانی کی داد دینی چاہیے۔“

قاضی جاوید نے آفاقی مسائل پر قلم اُٹھایا، لیکن ساتھ میں اپنے معاشرے کی ان خرابیوں پر بھی ان کی نظر رہی جو بظاہر معمولی نظر آتی ہیں، مگر اس سے سماج کی اخلاقی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً قطار بنانے سے گریز کے رویے پر انھوں نے ایک جگہ لکھا ”قطار بنانا محض قطار بنانا نہیں ہے۔ یہ حیوانیت اور بربریت کے خلاف تہذیب و شائستگی کی پہلی کامیابی ہے۔ قطار بندی ایک سماجی عمل ہے اور یہ زیست کے ایک فلسفے، جینے کے قرینے کی تشکیل کرتا ہے۔ جب آپ دس افراد کو پیچھے دھکیل کر چائے کا کپ حاصل کرتے ہیں یا بس میں سوار ہوتے ہیں تو پھر آپ کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ دوسرے لوگ میرے رقیب ہیں۔ ان کو دھکا دیے بغیر میں کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر میں نے کچھ پانا ہے تو پھر ان کی ٹانگ کھینچنی ہو گی۔ جب آپ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں، تو آپ کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ کو یقین ہوتا ہے کہ میں ایک سماجی کارکن ہوں۔ یہاں ہم سب لوگ مساوی ہیں۔ کچھ پانے کے لیے مجھ کو اپنی باری کا انتظار کرنا ہو گا۔ دوسروں کو پچھاڑ کر نہیں، بلکہ ان کے ساتھ مل کر ہی میں آگے بڑھ سکتا ہوں۔“

قاضی جاوید نے فکری و فلسفیانہ موضوعات پر بھاری بھرکم اصطلاحات سے بچتے ہوئے، آسان پیرائے میں بات کہنے کی روش اپنائی۔ لکھنے کے عمل کو وہ سماجی عمل جانتے ہیں، اس لیے ابلاغ دوسروں تک ٹھیک ٹھیک ہو جانے کو لازمی سمجھتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ بچپن میں والد کے کتب خانے سے دو ایسی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں، جنہیں اُردو نثر کا نہایت عمدہ نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک تو مولانا محمد حسین آزاد کی ”آبِ حیات“ اور دوسری ابوالکلام آزاد کی ”غبار خاطر۔“ یہ دونوں کتابیں بار بار پڑھنے سے جان لیا کہ اچھی نثر کیا ہوتی ہے۔ فلسفیوں میں بھی وہ اپنی فکر کا سلسلہ برٹرینڈر سل سے جوڑتے ہیں جو بڑی بڑی فکری گتھیوں کو اپنے اسلوب کے زور پر پانی کر دیتے۔ رسل کو وہ اپنا گرو مانتے ہیں۔ چالیس برس سے اسٹڈی ٹیبل پر اس فلسفی کی دو تصویریں موجود ہیں۔’برٹرینڈ رسل: زندگی اور افکار‘ ان کی کتاب ہے۔ رسل کی آپ بیتی کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کے بقول ”ستر کی دھائی میں جب میں طالب علم تھا تو رسل کا نام سب سے آگے تھا۔ روح عصر کی نمائندگی کے حوالے سے، اس کی فکر کا ایک حصہ تو وہ ہے جو روایتی مسائل پر اور ریاضی دان کے طور پر ہے، دوسرے اس نے جدید دور میں لبرل ازم ، بہتر حکومت اور تعلیم کے مسائل پر جم کر لکھا۔ جو بھی لکھا۔ اس میں ذہنی شفافیت ظاہر ہوتی ہے، جو اسی وقت آتی ہے، جب مسائل پر خوب غور و فکر کے بعد آپ قلم اٹھاتے ہیں۔“

 ایرک فرام کی کتاب The Sane Society ’صحت مند معاشرہ‘ کے نام سے ترجمہ ان کے قلم سے ہے جس کے بارے میں بتایا ” جس زمانے میں ترجمہ کیا اس زمانے میں جو دوسرے دانشور تھے، ان میں اہم ترین نام سارتر کا تھا، ان کی تحریر کو سمجھنا بہت مشکل تھا۔ ایرک فرام عام لوگوں کے لیے سیدھے سادے انداز میں لکھتے تھے، برٹرینڈ رسل کی طرح جیسے آپ گفتگو کر رہے ہوں۔ دوسرے مجھے لگتا تھا کہ یہ کتاب ہمارے معاشرے کے لیے بہت بامعنی ہے اور ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، تو یہ محرک تھا اسے ترجمہ کرنے کا۔ صارفیت پر فرام نے سب سے زیادہ لکھا اور بتایا کہ کس طرح اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے اور کسی شخص کی قدروقیمت کا تعین انسانی خوبیوں نہیں بلکہ مادی چیزوں کی بنیاد پر ہونے لگا۔“

ژاں پال سارتر کے بھی قائل ہیں۔ کہتے ہیں ”سارتر نے بھی وہی سماجی و تہذیبی مسائل اُٹھائے، جن پر رسل نے بات کی تھی۔ مثلاً کمیونزم کا مسئلہ ہے، جس کی اس نے نئے طریقے سے تفسیر کی۔ وجودیت پر بحث کی۔ ہمارے ہاں اس کے ادبی کام کا زیادہ چرچا ہوا۔ اس کے افسانوں اور ڈراموں کا نہ صرف اُردو بلکہ پنجابی اور سندھی میں بھی ترجمہ ہوا۔ فلسفیانہ کام کم زیر بحث آیا۔

 ”Being and Nothingness“ کو ہمارے بہت سے دوست پڑھنے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن شاید ہی کسی نے پوری پڑھی ہو۔ اس کی زبان بڑی مشکل ہے اور وہ کلاسیکی جرمن فلسفوں کی رنگ میں لکھی گئی ہے۔ رسل کی طرح سارتر قاری کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ ”Humanism and existentialism“ کے عنوان سے جو مضمون اس نے تحریر کیا، تو اس سے نہ صرف یورپ بلکہ اس کے اپنے ملک فرانس میں اس کی عوامی شہرت کا آغاز ہوا۔ میں نے سارتر کی اس تحریر کو اردو میں منتقل کیا۔“

رسل اور سارتر تو ٹھہرے بیسویں صدی کے فلسفی۔ فلسفے کی کلاسیکی روایت میں افلاطون نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ بتاتے ہیں ”افلاطون نے جو سوال اُٹھائے وہ آج بھی برمحل ہیں۔ نظام حکومت۔ جمہوریت۔ تعلیم۔ فرد اور معاشر ے کے حقوق۔ نیکی اور بدی کیا ہے۔ حیات بعد ممات۔ ان سمیت اور کئی اہم باتوں پر بحث افلاطون نے کسی۔ اس کی فکر مکالموں کی صورت میں سامنے آئی، جس میں ابہام مشکل ہوتا ہے اور عام طور سے سیدھے طور پر بات ہوتی ہے، اس واسطے ان کا پیغام زیادہ سمجھا گیا۔ جیسے جدید دور میں سارتر نے اپنے ڈراموں میں کرداروں کے ذریعے اپنے فلسفہ کا پرچار کیا تو لوگوں کی سمجھ میں اس کی بات زیادہ موثر طریقے سے آئی۔“

کارل مارکس کو تاریخ کی اثر انگیز شخصیت شمار کرتے ہیں اور بیسویں صدی کو ان کی صدی قرار دیتے ہیں، جب ان کی فکر نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو سیاسی طور پر متاثر کیا۔ ان کے بقول ”جب ہم نے لکھنا پڑھنا شروع کیا تو داس کیپٹل کا ذکر ہونا کم ہو گیا تھا لیکن اس کے ان مضامین کا بڑا شہرہ تھا جو اس کی زندگی میں شائع نہیں ہوئے اور بعد میں اکٹھے کر کے ”1844ءکے معاشی اور فلسفیانہ مسودات“ کے نام سے چھپ کر مقبول ہوئے۔ “

ایسے فلسفی جن کا کسی زمانے میں طوطی بولتا تھا لیکن اب انہیں جیسے بھلا دیا گیا ہو، ان میں میں وہ شوپن ہار کا نام لیتے ہیں۔ The open society and its enemies کے مصنف کارل پوپر کو ان کے خیال میں ہمارے ہاں متعارف ہونا چاہیے تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔

قاضی جاوید کا کہنا ہے کہ جدید دور میں فلسفی کا کردار ختم ہو گیا ہے اور آخری اہم فلسفی سارتر کو گزرے بھی تیس برس بیت گئے۔ بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے اُردو کے نامور ہندوستانی نقاد گوپی چند نارنگ سے پوچھا کہ ہندوستان میں اس وقت کون بڑا فلسفی ہے؟ اس پر نارنگ صاحب نے مجلس میں موجود اپنے ساتھیوں سے مشورت کے بعد بتایا کہ ”اس وقت ہندوستان میں کوئی فلسفی نہیں۔ رادھا کرشنن تھے۔ وہ ہندوستان کے صدر بھی رہے۔ وہ پرانی روایت کے آدمی تھے۔“

 قاضی جاوید کے نزدیک پاکستان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ پاکستان میں فلسفی کی حیثیت سے خلیفہ عبدالحکیم کو سب سے اونچا درجہ دیتے ہیں۔ ان کی دانست میں اقبال کے فوراً بعد آئے اس لیے ان کے گھنے سائے سے نکل نہیں سکے۔ ان کی فکر کا ماحصل پوچھا تو بتایا ”ان کا فلسفہ ہے جس بھی تہذیب سے اچھی چیز ملے، اسے حاصل کرنے میں متامل نہیں ہونا چاہیے۔ تہذیبی لین دین عام طور سے لاشعوری ہوتا ہے، اور بغیر کسی مداخلت کے جاری رہتا ہے۔ مسلم تہذیب میں یہ بات منفرد ہے کہ اس میں دوسری تہذیبوں سے حاصل کرنے کا عمل شعوری ہوتا ہے ، کیونکہ مسلمانوں میں اچھی شے جہاں سے ملے حاصل کر لینے کی سوچ موجود ہے۔ اس بات پر خلیفہ عبدالحکیم کا یقین تھا۔ روایت پر قائم رہیں، لیکن دروازے کھلے رکھیں، وہ ایسے دور میں یہ بات کر رہے تھے، جب کہ روایتی مذہبی فکر دروازے بند کرنے کی بات کر رہی تھی، کہ اس کے خیال میں مذہب میں پہلے ہی کافی باتیں باہر سے داخل ہو گئی تھیں۔ خلیفہ عبدالحکیم کے علاوہ فلسفہ میں ایم ایم شریف تھے۔ علی گڑھ میں رہے۔ آل نڈیا تھیوسوفیکل کانگریس کے صدر بنے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ کے سربراہ تھے۔ سی۔اے۔قادر اور محمد سعید تھے۔“

برصغیر کی مشترکہ تہذیبی وارثت کے حوالے سے گنگا جمنی تہذیب کی اصطلاح کو درست نہیں جانتے کہ اس کی رو سے پنجاب اس ورثے کا حصہ نہیں رہتا اور نہ ہی اس سے ترکیبی ثقافت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ وہ ہندی مسلم تہذیب کی اصطلاح کو مشترکہ ثقافتی ورثے کے لیے زیادہ بامعنی جانتے ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ محمد حسن عسکری نے ہند اسلامی تہذیب کی ترکیب استعمال کی ہے، تو جواب دیا کہ یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسلامی تہذیب اور مسلم تہذیب میں فرق ہے۔ اسلامی تہذیب ایک ہی جیسے اصولوں پر مبنی ہو گی۔ مسلم تہذیب مختلف خطوں کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلم تہذیب اور ہو سکتی ہے۔ ایران میں اور ہو سکتی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی فلسفیانہ روایت کو نظر انداز کیا گیا اور اس پر کوئی علمی کام نہیں ہوا۔ اس باب میں بتایا ”علی ہجویری جنہوں نے ”کشف المحجوب“ جیسی تصوف کی بڑی کتاب لکھی، ان سے لے کر علامہ اقبال تک ایک ہزار برس کی روایت ہے، جس میں انسان دوستی، بھائی چارہ، برداشت اور بھائی چارے کا سبق ملتا ہے۔ یہ روایت اپنی طرز میں منفرد تھی، یہ یونانی تہذیب سے الگ ہے، نہ اس پر مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا اثر ہے، نہ ہی چینی ثقافت کا۔ داتا صاحب نے فرقہ پرستی سے پاک جس تصوف کو متعارف کرایا وہ اپنی مثال آپ ہے، جس سے وہ رواداری پیدا ہوئی جس کے بارے میں تھامس آرنلڈ نے لکھا کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر غیر مسلمانوں کے ساتھ جس رواداری کا مظاہرہ کیا گیا، اس کی مثال یورپ میں دور جدید میں بھی ممکن نہ تھی۔ اور بھی کئی اہم تاریخ دانوں نے اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ بابانانک۔ بہاؤ الدین زکریاؒ۔ بلھے شاہؒ۔ بابا فریدؒ۔ یہ بہت بڑے لوگ تھے۔ ان کا فلسفیانہ پیغام بڑا آفاقی ہے۔ علامہ اقبال نے آ کر فلسفے میں مغربی فکر کو شامل کیا۔ دونوں روایتوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کلاسیکی مسائل پر بات کی۔ وقت کا مسئلہ ہے۔ تقدیر کا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ کچھ سوال وہ اٹھائے جو خاص مسلمانوں سے متعلق تھے، جیسے اجتہاد کا معاملہ ہے۔ اپنے خطبات کے پیش لفظ میں لکھا کہ جب نئے مسائل آئیں تو ان کے نئے حل تلاش کرنا ہوں گے۔ اس معاملے میں بھی وہ ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“ والی پر سوچ کاربند تھے۔“

قاضی جاوید کے خیال میں ادیبوں میں دستوفیسکی کی تحریروں میں فلسفیانہ مسائل کو سب سے موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بتایا کہ ایک بار نامور فلسفی اور تاریخ دان ول ڈیوراں بیرون ملک گیا، واپسی پر بیوی سے پوچھا کہ وہ ان دنوں کیا پڑھ رہی ہے، تو اس نے جواب دیا کہ دنیا کا عظیم ترین ناول۔ اس نے حیرت سے کہا کہ وہ کیسے؟ ”برادرز کرامازوف“ تو میں جاتے وقت ساتھ لے گیا تھا۔ اس پر بیوی نے بتایا کہ وہ ”جرم و سزا“ پڑھ رہی ہے۔ اس پرول ڈیوراں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی اور اس کی بیوی دونوں ہی کی رائے اپنی جگہ درست ہے، اور واقعتاً دونوں ہی بڑے ناول ہیں۔ اردو ادب کے بھی پرشوق قاری ہیں۔ قرة العین حیدر، انتظار حسین، محمد خالد اختر، عبداللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ پسندیدہ ادیب ہیں۔

 سازشی تھیوریوں کے بارے میں سوال پر بتایا کہ یہ اصل میں بطور قوم اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی بات ہے، اس کا نقصان ان کے نزدیک یہ ہے کہ اصلاح کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، اس رویے کو نرگسیت بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اتنے اہم ہیں کہ ہر کوئی ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس معاشرے میں بات کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے، وہاں بڑا انسانی ذہن پیدا نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں، لبرل اور سیکولر فکر کی حامل شخصیات کو چھوڑیں، انتہا پسندوں نے زیادہ نشانہ تو روایت پسندوں کو بنایا ہے۔

 جاوید احمد غامدی کی بطور عالم بڑی قدر کرتے ہیں، جان کو خطرے کے پیش نظر ان کے ملک سے باہر چلے جانے کو افسوس ناک قرار دیتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے درمیان ہوتے تو ان سے زیادہ کچھ سیکھا جا سکتا ۔ ان کے خیال میں، انتہا پسندی کو مدرسوں سے ہی نہیں یونیورسٹیوں سے بھی فروغ ملا ہے۔ انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے وہ نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا تجویز کرتے ہیں۔ دوسرے وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو تفریح کے بھرپور مواقع ملنے چاہئیں تا کہ ان کا ذہنی تناؤ کم ہو سکے۔

قاضی جاوید کی فکر کے بارے میں آپ نے جان لیا تو اب تھوڑا ان کے سفر زیست پر نظر ڈال لیں۔

قاضی جاوید نے 7 فروری 1946ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ وسن پورہ کے علاقے میں بچپن اور جوانی گزری۔ والد، قاضی افضل حسین سرکاری ملازم تھے۔ پڑھنے لکھنے کے شائق۔ اس لیے کتاب سے رشتہ کی بنا گھر سے پڑی۔ والدہ اسکول ٹیچر تھیں۔ بعدازاں ہیڈ مسٹریس بنیں۔ قاضی جاوید نے بتایا کہ اب تو استاد کا احترام نہیں رہا، ان کے بچپن میں اساتذہ کے بچوں کی بھی توقیر ہوتی تھی۔ بچپن میں سب سے پہلے مالی بننے کا خواب دیکھا کہ اس کا پھول پودے لگانا، پودوں کی کاٹ چھانٹ کرنا، بھلا لگتا۔ مالی بننے کی خواہش کے اظہار پر گھر سے خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوئی، اور تنبیہ بھی کہ خبردار کسی کے سامنے ایسی بات منہ سے نکالی۔ سن شعور کو پہنچے تو موسیقار بننے کی ٹھانی، لیکن پھر وہی گھریلو پابندیاں آڑے آ گئیں۔ کہتے ہیں، لوئر مڈل کلاس خاندان میں موسیقی سے ناتا جوڑنا شجر ممنوع تھا، ہاں اگر اپر کلاس سے ہوتا تو ضرور موسیقار بن جاتا۔ مالی اور موسیقار نہ بن سکے تو لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ مرکوز کرلی۔ اسلامیہ کالج سے بی اے کے دوران ”مشرق“ اخبار میں مضمون نویسی کے مقابلے میں دوبارہ مسلسل پہلا انعام حاصل کیا، جس نے دوہری خوشی دی، ایک تو یہ کہ اتنے موقر اخبار میں مضمون کو انعام ملنا، تین سو روپے فی مضمون کی انعامی رقم اس پر مستزاد۔

یونیورسٹی کے زمانے میں طلبا سیاست عروج پر تھی۔ مختلف تنظیموں میں خوب تناتنی رہتی۔ معروف سیاستدان جاوید ہاشمی ان کے کلاس فیلو تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1972ء میں ایم اے فلسفہ کیا اور پھر وہیں دس برس ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے جڑے رہے۔ 1989ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کے لاہور میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بنے، اگلے 19 برس اس حیثیت میں کام کیا۔ ان ساری ذمہ داریوں کے ساتھ لکھنے کا عمل مسلسل جاری و ساری رہا۔ 30 کتابوں کے مصنف ہیں۔ اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ ازدواجی زندگی خوشگوار رہی۔ دو بیٹیاں، ایک بیٹا ہے۔

قاضی جاوید کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور شہر کا تہذیبی حسن گہنا گیا، جس کی بنیادی وجہ وہ آبادی میں بے پناہ اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ مثال دیتے ہیں کہ اگر ایک بس میں 20 مسافروں کی گنجائش ہو، اور آپ اس میں دو سو افراد بھرلیں، تو وہ کتنے بھی مہذب کیوں نہ ہوں، آپس میں لڑنے بھڑنے پر مجبور ہوں گے۔ اس سمے کو یاد کرتے ہیں، جب اس شہر میں ہر دو ڈھائی میل کے بعد کھیت آ جاتے اور سائیکل پر پورا شہر گھوما جا سکتا تھا اور اب یہ حال کہ موٹر پر بھی یہ ممکن نہیں رہا۔ اس شہر میں بڑے ذی علم افراد سے ان کا ربط ضبط رہا، جن میں صفدر میر کی علمیت نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا۔ کہتے ہیں ”صفدر میر صاحب بڑے شائستہ اور مہذب انسان تھے۔ ذاتی کتب خانہ بہت شاندار تھا۔ ہر کتاب پر نشان اور نوٹس ہوتے۔ عام طور پر لوگوں کو کتاب نہیں دیتے تھے لیکن مجھے دے دیتے۔ بہت جلد گھل مل جاتے۔ پہلی ملاقات میں ایسے بات چیت ہوئی جیسے پرانے جاننے والے ہوں۔ ان سے نئی کتابوں اور مصنفوں کا پتا چلتا۔ نامور ہندوستانی مصنف نراد سی چودھری کی کتابوں سے انہوں نے مجھے متعارف کرایا، جس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔“

 قاضی جاوید ان دنوں بہت خوش ہیں، جس کی وجہ ان کا کوئی علمی کارنامہ نہیں بلکہ اپنے ادارے کی قیمتی زمین کو طاقتور قبضہ مافیا سے عدالتی حکم کے ذریعے واگزار کرانا ہے۔

آغاز تحریر میں ہم نے بتایا کہ ان کی علمیت کی سند داؤد رہبر نے دی اور اب آخر میں ان کی دیانت اور بھلمنساہٹ کے بارے میں ایک بیان معروف ادیبہ بانو قدسیہ کی ”راہِ رواں“ سے نقل کرتے ہیں۔ ان کے بقول ”ایک روز ہم سیر کر کے باہر لوٹ رہے تھے تو ہم نے دیکھا جاوید پیدل جا رہے ہیں۔ اثیر (بانو قدسیہ کا بیٹا) بھاگ کر پاس پہنچا۔

”آپ کس طرف جائیں گے؟“

”بس لے لوں گا۔“

”لیکن آپ ہمارے ساتھ چلیے ناں۔ ابو کی گاڑی ہے۔“

پھر ہم انہیں گھر پہنچانے گئے۔ جب ہم انہیں گھرا تار کر واپس آئے تو اثیر بولے۔

”امی یہ بہت دیانت دار شخص ہے۔ اس دور میں جب فنانس پر گاڑیاں مل رہی ہیں، سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں سے شہر بھرا پڑا ہے۔ یہ اپنی سفید پوشی نبھائے چلے جا رہے ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).